نریندر مودی ایک فاشسٹ حکمران


2014 کے بھارتی لوک سبھا کے انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد نریندر مودی کی سربراہی میں حکومت قائم ہوئی تو ہندوتوا نظریے کا پرچار ہوا اور ریاست کا تشخص اور پہچان سیکولر ازم سے ہندو قوم پرست ریاست میں تبدیل ہوا۔ نریندر مودی بطور وزیر اعظم اپنے پہلے دور حکومت میں سیاسی حکمت عملی کے تحت متنازع سیاست سے اجتناب کرتا رہا۔ مگر 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں 543 رکنی ایوان میں 303 سیٹوں پر تاریخی فتح کے بعد نریندر مودی نے اپنی سیاست کا رخ کافی تبدیل کر دیا اور اور اپنے اصل ہندو مہاسبھا ایجنڈے پر عمل درآمد شروع کر دیا۔

بی جے پی پارٹی کے معتدل رہنماؤں واجپائی، سشما سوراج اور ارون جیٹلی کی ناگہانی موت اور اڈوانی و جسونت سنگھ جیسے پرانے قائدین کے سیاسی منظر میں پس پردہ جانے سے نریندر مودی کی بی جے پی پارٹی پر گرفت کافی مضبوط ہوگئی۔ کانگریس پارٹی کی اندرونی خلفشار اور لیفٹ و دیگر پارٹیوں کی ناکامی نے بھی نریندر مودی کے حوصلے بڑھا دیے۔ نریندر مودی نے اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ایسے پاپولر اقدامات اٹھائے جس نے ہندوستانی معاشرے اور عوام کو تقسیم کر دیا اور نفرت کی سیاست کو بڑھاوا ملا۔ مذہبی خلیج وسیع ہوئی۔ مذہب کا عمل دخل سیاست، معاشرت اور حکومت میں بڑھ گیا۔ ریاستی اداروں میں ایسے لوگوں کا تقرر کیا گیا جو ہندو مہاسبھا جیسی تنظیموں سے ہمدردی رکھتے تھے جنہوں نے ہر معاملے میں بی جے پی کے انتخابی منشور کے مطابق کام کیا۔

ہندوستانی عدلیہ کا کردار مودی کے دور حکومت میں متنازع رہا اور بی جے پی حکومت کو ہر موقع پر عدلیہ نے مفاہمتی پالیسی کے تحت مدد فراہم کی ججوں کا رویہ سیاسی ہوگیا۔ عدالتی کارروائی اور فیصلوں نے مودی کے اقدامات کو قانونی حیثیت اور جواز بخشا۔ جس سے آزاد عدلیہ کا وقار مجروح ہوا۔

مودی حکومت نے انڈین آئین اور قوانین میں ایسی تبدیلیاں کیں کی جس سے جموں کشمیر اور ریاست آسام کی ہیئت و سیاست بدل کے رکھ دی۔

پانچ اگست 2019 کو پاس ہونے والے قانون نے کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کر دیا اور ریاست کشمیر کو کشمیر و لداخ میں تقسیم کر دیا جس سے کشمیری ریاست کے ڈھانچے میں دوررس تبدیلیاں ہوئیں۔ کشمیری عوام پر ظلم و زیادتی کا تاریک دور شروع ہوا شہری و انسانی حقوق سلب کر لیے۔ مقبول کشمیری قیادت کو قید و بند کر دیا شخصی آزادیوں پر نئی قدغنیں لگا دیں۔ نقل و حرکت پر پابندیاں لگا کر کشمیری عوام کو محصور کر دیا جس سے ریاست جموں کشمیر میں آزادی کی نئی تحریک شروع ہوئی۔

مشرقی ریاست آسام میں شہریت کے متنازع قانون نیشنل رجسٹر آف سٹیزن نے لاکھوں لوگوں کو کو اپنے ہی ملک میں میں شہریت سے محروم کر دیا بالخصوص بنگلہ دیش سے نقل مکانی کر کے آنے والے آسام میں کئی نسلوں سے رہائش پذیر شہریوں کو شہریت سے محروم کر دیا۔ آسام میں مسلم رہنماؤں پر پابندیوں کی وجہ سے مسلمانوں پر سیاسی عمل میں شرکت محدود ہوگئی اور سیاسی نظام میں بی جے پی پارٹی کو رسائی حاصل ہوگئی۔

پڑوسی ممالک سے ہجرت کرکے آنے والے غیر ملکی شہریوں کے لیے شہری ترمیمی قانون میں مسلمانوں سے خصوصی امتیاز برتا گیا جس سے انڈیا میں موجود اقلیتوں میں اضطراب پیدا ہوا اور شہری و انسانی حقوق سے وابستہ تنظیموں نے وسیع پیمانے پر احتجاج کیا۔ جس کو مودی حکومت نے سختی سے کچلا۔ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر حملے شروع ہوئے۔ جھارکھنڈ اور دیگر ریاستوں میں مسلمان اور اقلیتی طبقے سے وابستہ لوگوں کو جلایا گیا اور مار ڈالا گیا اور حملہ آوروں کو ریاستی سرپرستی حاصل تھی اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔

جے شری رام کے نعرے لگاتے لوگوں نے اقلیتوں کی املاک کو نقصان پہنچایا۔ رام جنم بھومی کی تحریک دوبارہ شروع ہوئی اور ایودھیا میں موجود بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر ہوئی۔ ہندوستانی نظام تعلیم میں ایسی تبدیلیاں کی گئی جس سے کئی ہیروز کو ولن میں تبدیل کر دیا گیا۔ اردو زبان پر نئی پابندیاں لگا کر سنسکرت زبان کی ترویج کے لئے اقدامات حکومتی آشیر باد سے کیے گئے تاریخ کو نئے سرے سے ہندو مہاسبھا کے موقف کے مطابق لکھا گیا۔ جس سے مسلم تاریخ اور ثقافت پر کاری ضرب لگی۔

دہلی فسادات میں پولیس نے جانبدارانہ کردار ادا کیا۔ مسلمان رہنماؤں اور طلبہ پر بے بنیاد مقدمات قائم کیے گئے اور معروف قائدین کو متنازع قوانین کے تحت قید میں رکھا گیا۔ جن کو تاحال رہائی نہ ملی ہے۔

شہری اور انسانی حقوق کی ایسی خلاف ورزیوں کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ جمہوری آوازوں کو دبایا گیا میڈیا کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ صحافتی تنظیمیں اور اخباری ادارے سنسرشپ اور دباؤ کا شکار ہوئے۔ آزادانہ رائے رکھنے والے صحافیوں کو نشانہ بناکر ملازمتوں سے نکلوایا گیا۔ پروپیگنڈا چینل اور اخبارات حکومتی سرپرستی سے نفرت کی سیاست کو ہوا دے رہے ہیں غیر ملکی صحافیوں کو ویزہ اور نقل و حرکت کی پابندیوں سامنا کرنا پڑا۔ اظہار رائے کی آزادی محدود ہوگئی۔

دنیا میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں نے نے مودی کو موقع فراہم کیا کہ وہ ٹرمپ، جانسن اور دیگر پاپولسٹ عالمی رہنماؤں کی حمایت سے اپنے فاشسٹ نظریات کا پرچار کرے۔ کارپوریٹ ورلڈ نے بھی اپنے مالی مفادات کے لئے مودی کی بڑھ چڑھ کر مدد کی۔ جس وجہ سے مودی کو عالمی فورم پر کم مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

نریندر مودی نے اپنی ناکام معاشی پالیسیوں سے عوام کی نظر ہٹانے کے لئے پڑوسی ممالک سے نئے تنازعات پیدا کیے تاکہ دیش بھگتی کے نعرے لگا کر لوگوں میں اپنی مقبولیت بنائے رکھے۔ مودی کو چین سے سرحدی لڑائی پر مغرب سے حمایت اور مدد ملی۔ پاکستان سے تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ ہوا اور سرحدوں پر کافی تناؤ کا ماحول بنا رہا۔

سارک ممالک کے آپسی تعلقات میں میں کافی کمی آئی اور خطے کے دیگر ممالک کو انڈیا سے کافی شکایات پیدا ہوئی۔ غرض عالمی تعلقات میں مودی کی موجودگی میں بگاڑ پیدا ہوا اور دنیا کے منظر نامے پر تباہی اور بربادی کی داستانیں رقم ہوئیں۔

نریندر مودی کو عالمی تجزیہ کار ہٹلر اور مسولینی سے تشبیہ دیتے ہیں اور مودی کی پالیسیوں اور اقدامات میں فاشسٹ حکمران کی جھلک دکھائی دیتی ہے جو عالمی امن کے لئے خطرہ ہے اس لئے بھارتی عوام کو مودی کو اقتدار سے باہر کر دینا چاہیے اور عالمی رہنماؤں کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور مودی کی نفرت انگیز سیاست کی مذمت اور مخالفت کرنا ہوگی تبھی پائیدار عالمی امن ممکن ہو پائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).