مون سون کی بارشیں، موسمیاتی تبدیلیاں اور نا اہل ادارے


آج کے ترقی یافتہ دور میں اربن یا ٹاؤن پلاننگ باقاعدہ ایک ساینس کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہاں تک کہ ترقی یافتہ ممالک میں اس شعبے میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں تقویض کی جاتی ہیں۔ کیونکہ ان ملکوں میں کوئی بھی شعبہ پلاننگ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا چہ جایکہ کسی نئے شہر کو بسانا یا پرانے شہروں کو نئے سرے سے ترتیب دینا اور اس میں بنیادی انسانی سہولیات مہیا کرنا۔

ہمارے ملک کے کسی بھی چھوٹے یا بڑے شہر میں شہری منصوبہ بندی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ آپ ملک کے کسی بھی شہر کی بنیادی سہولیات مثلاً فراہمی اور نکاسی آب، سولڈ ویسٹ مینیجمنٹ، سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کا کوئی بھی نقشہ یا بلیو پرنٹ مانگ کر دیکھ لیجیے آپ کو نہیں ملے گا۔ یہاں تک کہ دارالحکومت اسلام آباد جو 1960 کی دہائی میں آباد ہونا شروع ہوا تھا اور کہا جاتا ہے کہ اس کی بڑی جدید پلاننگ کی گئی تھی اس کا نقشہ بھی دستیاب نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں دارالحکومت کا نقشہ مانگا گیا ہے۔

کراچی میں حالیہ ضرورت سے زیادہ مون سون کی بارشوں نے جو تباہی مچائی ہے وہ ہرگز حیرت کا باعث نہیں ہے۔ ہر سال کم و بیش یہی تماشا ہوتا ہے۔ اس سال بس اتنا فرق پڑا ہے کہ تباہ کن بارشوں کی وجہ سے غریبوں کی بستیوں میں جو تباہی مچی سو مچئی اشرافیہ کے عالی شان بنگلوں کو بھی سیلابی پانی نے نہیں بخشا۔ یعنی محمود و ایاز ایک ہو گئے۔

برطانوی دور میں اس شہر کے تقریباً چار لاکھ باسیوں کے لئے جو میونسپل سہولیات مہیا کی گئی تھیں آج بھی ان میں معمولی سا رد و بدل ہوا ہے جو ڈھائی کروڑ افراد کے شہر کے لئے اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے

اس سے پیشتر کہ ہم ملک میں مون سون بارشوں سے ہونے والی غیر معمولی تباہی پر بات کریں ہمیں اس بات کا جایزہ لینا ہو گا کہ کیا ہم ان قدرتی آفات پر قابو پانے کی قدرت رکھتے ہیں؟ کیا ہماری ریاست حکومت اور انتظامیہ میں اتنی صلاحیت اور اہلیت ہے کہ وہ ان آفات کی پیش بندی کر سکے؟

اس وقت پوری دنیا اور خصوصاً ترقی یافتہ ممالک کے سامنے صف اول کا جو مسئلہ درپیش ہے وہ ہے گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیاں۔ یعنی زمین کا درجہ حرارت روز بہ روز بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے دنیا کا نقشہ بدل دیا ہے۔ کوئی سوچ بھئی نہیں سکتا تھا کہ عرب کے صحرا اور ریگستانوں میں بھی شدید بارشوں سے سیلاب آ سکتا ہے۔ گلیشیر پگھل رہے ہیں اور سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ آیندہ 25 سالوں میں دنیا کے کئی ممالک سمندر برد ہو جائیں گے جس میں مالدیپ سب سے پہلے اس آفت کا شکار ہو گا۔

عالمی حدت پر قابو پانے کے لئے ترقی یافتہ اور امیر ممالک کے ساینسدان، ماہرین اور سربراہان مملکت اس مسئلے پر سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں کہ دنیا کو کس طرح موسمیاتیتبدیلیوں کے مضر اثرات سے بچایا جا سکے

اس سلسلے میں سب سے پہلی کانفرنس چاپان کے شہر کیوٹو میں 11 دسمبر 1997 کومنعقد ہوئی جس کو کیوٹو پروٹوکول کا نام دیا گیا

یہ ایک بین الاقوامی معاہدہ تھا جس کو اقوم متحدہ کی سر پرستی حاصل تھی۔ کیوٹو پروٹوکول کا بنیادی مقصد گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں کمی لانا تھا۔ جس میں تا حال کوئی غیر معمولی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ 84 ممالک نے کیوٹو پروٹوکول پر دسخط کئئے تھے۔ جب کہ اس وقت اس کے ممبر ملکوں کی تعداد 192 ہے 2008 اور 2017 میں کیوٹو پروٹوکول کے حوالے سے مختلف کانفرنسز ہو چکی ہیں جن میں امریکہ کے صدر اور یورپی ممالک کے سربراہ ہان تک شرکت کر چکے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ بارشوں، سونامی، زلزلوں اور دیگر قدرتی آفات کا کلائمنٹ چینج سے گہرا تعلق بتایا جا رہا ہے۔

اب ہم بر صغیر اور جنوب مشرقی ایشیا کی طرف آتے ہیں۔ ان میں ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، برما اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔ ان خطے میں مون سون بارشوں کا سلسلہ صدیوں نہیں بلکہ ہزاروں سال سے جاری ہے۔ بارشوں کا یہ موسم اپریل سے شروع ہو کر ستمبر تک جاری رہتا ہے۔ مون سون میں سمندری ہواؤں کا سلسلہ سمندر سے خشکی کا رخ کرتا ہے۔ شدید گرمیوں کے موسم میں مون سون ہوائیں اپنا رخ تبدیل کر لیتی ہیں اور سرد خطے سے گرم خطے کی طرف چلنا شروع کر دیتی ہیں۔ مون سون بارشوں کا منبع دراصل بحر ہند ہے جو آگے بڑھتے ہوئے خلیج بنگال اور بحیرہ عرب تک پہنچ جاتی ہیں۔ یہ موسم گرما کی مون سون کہلاتی ہیں۔ جو بر صغیر اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں شدید بارشوں کا باعث بنتی ہیں۔

مون سون ہواؤں کا رخ دراصل دو اطراف سے ہوتا ہے۔ خلیج بنگال سے جو ہوائیں چلتی ہیں وہ جنوب مغرب کا رخ کرتی ہیں اور بنگلہ دیش، مشرقی بنگال، برما اور تھائی لینڈ میں بارشیں لاتی ہیں۔

جو ہوائیں بحیرہ عرب سے اٹھتی ہیں وہ بھارت کے صوبے مہاراشٹرا، گجرات، اتر پردیش سے نکل کر صحراے تھر کا رخ کرتی ہیں اور پاکستان میں داخل ہو جاتی ہیں۔

مون سون کی بارشیں جو موسم گرما میں ہوتی ہیں وہ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کی زراعت اور معیشت کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ ان ملکوں کی زراعت کا انحصار بڑی حد تک بارشوں پر ہوتا ہے۔ فصلیں اچھی ہوتی ہیں۔ دریا اور ڈیم پانی سے بھر جاتے ہیں۔ لہذا ہایڈرو پاور بڑی مقدار میں پیدا ہوتی ہے جو صنعتوں کو رواں دواں رکھنے میں بڑی مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ زیر زمین پانی کا لیول بڑھ جاتا ہے جو آبپاشی کے کام آتا ہے۔

جن سالوں میں مون سون سیزن کم ہوتا ہے یا دیر سے آتا ہے تو زراعت کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔ بارشیں بر وقت نہ ہونے کی وجہ سے فصلیں پوری طرح سے کاشت نہیں ہو پاتیں نتیجتنا ان کی مقدار بھی کم ہو جاتی ہے اور کسان مزید بد حال ہو جاتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے جس سال مون سون بارشیں معمول سے زیادہ ہوتی ہیں، اس سال جنوبی ایشیائی ممالک میں بڑی تباہی آتی ہے۔ شدید بارشوں کی وجہ سے دریاوں میں طغیانی آ جاتی ہے۔ فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ مال مویشی پانی میں بہہ جاتے ہیں۔ جانی نقصان الگ ہوتا ہے۔ دریاوں میں سیلاب کی وجہ سے اکثر ڈیم بھی اپنے لیول سے زیادہ بھر جاتے ہیں جو گاؤں دیہاتوں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔

نیشنل جیوگرافک کی ایک رپورٹ کے مطابق جولائی 2005 میں ہندوستان کے مغربی علاقوں میں مون سون بارشوں نے بڑی تباہی مچائی۔ جوں ہی مون سون جنوب مغربی ہندوستان کی طرف بڑھنا شروع ہوا صوبہ گجرات اور ریاست مہاراشٹرا ان شدید بارشوں کی لپیٹ میں آ گئئے۔ اس تباہی سے 1000 سے زائد انسان اس کی بھینٹ چڑھ گئئے۔

جولائی 2005 میں صرف ممبئی شہر میں 39 انچ بارش ریکارڈ کی گئی۔

یوں لگتا ہے کہ اس سال مون سون کی ہواؤں نے پاکستان کا رخ کر لیا ہے اور پوری برسات خصوصاً کراچی شہر پر برس گئی۔ اس شہر میں سالہا سال سے بنیادی شہری سہولیات کا فقدان ہے۔ جہاں فراہمی اور نکاسی آب کی بدترین صورت حال ہے

سیلابی پانی کی نکاسی کا کوئی نظام نہیں۔ پورا شہر کچرے کا ڈھیر ہے۔ سولڈ ویسٹ مینیجمنٹ کے نام پر کئی ادارے ہیں لیکن ان سب کی کارکردگی صفر ہے۔ شہر کے تمام برساتی نالے اور ندیاں جو نکاسی آب اور سیلابی پانی کے لیے استعمال ہونے چاہیے تھے ان پر تجازوات قائم ہیں۔ یہ کام مختلف مافیاؤں نے سرکاری اداروں کے افسران کے ساتھ مل کر کیا اور اربوں روپے کماے اور کھلائے۔ ان تمام مسائل کے بعد کیا یہ شہر ایک دن میں 233 ملی میٹر بارش برداشت کر سکتا تھا؟

نا اہل، ناکارہ، بدانتظام، بے حس اور بدعنوان وفاقی اور صوبائی حکومتیں، شہری اور ضلعی انتظامیہ سب ہی اس شہر کی لوٹ کھسوٹ میں شامل رہی ہیں۔ ماضی کی وہ مقامی سیاسی جماعت جس نے قومیت کے نام پر کراچی کے شہریوں سے ووٹ لیے اس نے شہر کا جو حال کیا وہ سب کے سامنے ہے۔

صوبے میں دو سیاسی جماعتوں کے درمیان اختیارات کی جنگ، زمینوں پر زیادہ سے زیادہ ناجائز قبضے اور کرپشن نے ماضی بعید کے ایک خوشحال اور نسبتنا بہتر منصوبہ بندی کے حامل اس شہر کو کس حال میں پہنچا دیا۔ یہ شہر کراچی کا نوحہ ہے۔

بلدیاتی اداروں کی ناہلی اور بد انتظامی کی ایک پرانی مثال یاد آئی۔

جون 1973 میں کراچی کے معاشی حب آئی آئی چندریگر روڈ، ایوان صدر روڈ اور دیگر اعلی سرکاری دفاتر کے علاقوں میں 200 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ پانچ فٹ گہرے پانی میں چلتے ہوئے راقم بنک کے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ چھ گھنٹوں میں طارق روڈ پہنچے۔ چندریگر روڈ اس طویل عرصے میں تین مرتبہ از سر نو بنی لیکن میونسپل اداروں یا انجینئرز نے برساتی پانی کی نکاسی کا کوئی انتظام نہیں رکھا۔ آج 45 سال گزرنے کے بعد بھی اس شاہراہ کا وہی حال ہے جو 1973 میں تھا۔ حالیہ بارشوں میں چندریگر دوڈ پر 4 سے 5 فٹ پانی کئی دنوں تک کھڑا رہا۔ اربن پلاننگ کی یہ ایک شاندار مثال ہے۔

کراچی کی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئئے ان سے جھوٹے وعدے کیے جا رہے ہیں۔ حال میں ہی وفاقی حکومت نے کراچی کے تمام بلدیاتی مسائل حل کرنے کے لیے 1100 ارب روپے کے ایک پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ حکومت کا پورا ترقیاتی بجٹ ہی 675 ارب روپے کا ہے وہاں 1100 ارب روپے کہاں سے مہیا ہوں گے ۔ یہ محض وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان کاغذی کارروائیاں ہوں گی ۔ کراچی میں اپنا ووٹ بنک بچانے کے لیے اگر پی ٹی آئی کی حکومت چند سو ارب دے بھی دیتی ہے تو یہ رقم کراچی کے شہریوں کو بہتر بلدیاتی سہولیات مہیا کرنے کے لیے ہرگز نہیں ہو گی۔ یہاں بھی سیاسی جماعتوں اور شہری اداروں کے درمیان اختیارات کی جنگ شروع ہو جائے گی اور یہ رقم حسب روایت کرپشن کی نظر ہو جائے گی۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہہ لگایا جا سکتا ہے کہ امسال کراچی اور اندرون سندھ مون سون کی بارشوں نے جو غیر معمولی تباہی مچائی ہے اگر آیندہ برس بھی یہ قدرتی آفت نازل رہی تو کراچی کے شہریوں کو اس سے بدترین صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ ہماری اربن پلاننگ وہی رہے گی جو قیام پاکستان کے وقت تھی بے شک آبادی 3 کروڑ سے بھی تجاوز کیوں نہ کر جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).