مابعد جدیدیت اور میڈیا


مابعد جدیدیت کی تعلیمات اس بات پر زور دیتی ہیں کہ عوام میڈیا پر دکھائی جانے والی دنیا میں اس قدر منہمک ہو جاتی ہے کہ سچ اور جھوٹ کی تمیز بھول جاتی ہے۔ انسان کیسے اردگرد کی سچائی کو پس پشت ڈال کر دکھا وے اور جھوٹ پر مبنی دنیا پر یقین کر لیتا ہے جیسے وہی اصل سچائی ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ میڈیا ہماری سماجی اور ذاتی زندگی، خیالات اور دنیا کے تصورات کو بننے میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن کہاں یہ کردار انسانی صلاحیتوں کو زنگ لگا دیتا ہے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ میڈیا ہمارے خیالات اور تصورات کو اپنے نشر کیے جانے والے مواد سے بدلنے، تقویت دینے، یا پھر ترمیم کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ثقافتی سامراجیت میں بھی میڈیا کا عمل دخل نظر انداز نہیں ہو سکتا۔

ڈوگلس کلنر اپنی کتاب میڈیا کلچر میں لکھتے ہیں کہ ڈیجیٹل میڈیا اور ثقافت آپس میں ایک ہی ڈوری سے بندھے ہیں اور جدیدیت کے دور میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ ہم اپنا کلچر میڈیا کے ذریعہ سمجھتے ہیں میڈیا کے ذریعے اپنی شناخت، خیالات اور تصورات کو بنتے ہیں، دوسروں کے لیے ہمارا عمل کیسا ہو اور ہمارے ساتھ دوسروں کا رویہ کیسا ہو، ہمارا اور دوسروں کا کس معاشرتی طبقہ سے تعلق ہے؟ ہم کیسے اور کیوں دوسروں سے الگ ہیں؟

یہ سب چیزیں میڈیا ہیں تو ہمیں سکھاتا ہے۔ مابعد جدیدیت حقائق کی نفی نہیں کرتا لیکن اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہمیں اصل حقائق پر دسترس حاصل نہیں ہیں اور ہماری معاشرتی سچائیاں دراصل من گھڑت ہیں۔ کوئی شخص حقائق پر معروضی طور پر بات نہیں کر سکتا کیونکہ حقائق تک رسائی اور اس شخص کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہمیشہ پہلے سے موجود معاشرتی خیالات اور روایات سے مشروط ہوتی ہے۔ مابعد جدیدیت کے ایک اہم مفکر بوڈریلارڈ کا ماننا ہے کہ آنے والے وقتوں میں میڈیا کو عوام کو گمراہ اور مغلوب کرنے کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا ہائیپر ریالٹی کی بات کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ ما بعد جدیدیت کے دور میں معلومات، تفریح اور مواصلاتی ٹکنالوجی کے انتہائی اہم تجربات کیے جائیں گے اور یہ سب اقدامات اس قدر دلچسپ ہوں گے کہ لوگ ارد گرد کی حقیقتوں سے وقتی چھٹکارا اور نجات حاصل کرنے کے لیے ان امور کی جانب مائل ہوجائیں گے۔

میڈیا پر کثرت سے انحصار کرنے سے ہم اپنی معاشرتی حقیقتوں سے بے خبر ہو چکے ہیں۔ جو میڈیا ہمیں دکھاتا ہے ہم اس پر یقین کرتے ہیں، جو معاشرہ ہمیں سکھاتا ہے ہم اس کی اندھی تقلید کرتے ہیں، باپ دادا کے زمانے سے چلتی ہوئی روایات پر عمل کرتے ہیں۔ خود کو بدلنے کے لیے، حقائق پر تحقیق کرنے کے لئے، سہل پسندی کے طوق کو گلے سے اتارنے کے لیے تیار نہیں ہیں، لیکن پھر بھی شکایت کرتے ہیں کہ ہم دنیا سے پیچھے رہ گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).