خود کشی کا رجحان اور ہماری ذمہ داری


جہاں سے اٹھ گئے جو لوگ پھر نہیں ملتے
کہاں سے ڈھونڈ کے اب لائیں ہمنشینوں کو

زندگی قدرت کا وہ انمول عطیہ ہے جو صرف ایک ہی بار ملتا ہے اس لیے ہر شخص فطری طور پر اچھی اور لمبی زندگی کی خواہش رکھتا ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ ہر پل بھرپور جیئے کہ اس کی زندگی مسرتوں، سکون اور چاہتوں کا گہوارہ بنی رہے لیکن حقیقی طور پر ہمیشہ ایسا ناممکن ہے اس لیے اچھے اور ذہنی آسودگی رساں لمحات کی نہ صرف قدر کی جاتی ہے بلکہ انہیں محفوظ بھی کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف مشکلات، مصائب اور آلام سے بچنے کی حتہ المقدور کوشش کی جاتی ہے تو ان میں مبتلا ہوتے ہی جلد از جلد نجات کی سرتوڑ کوششیں بھی کی جاتی ہیں تاکہ زندگی کی چاشنی سے لطف اندوز ہوتے رہیں لیکن اسی دنیاء میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ لوگ اس زندگی کا اپنے ہی ہاتھوں خاتمہ تک کر گزتے ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ہر سال کم و بیش آٹھ لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں یعنی اوسطا ہر چالیس سیکنڈ میں ایک شخص اپنی زندگی کا چراخ اپنے ہی ہاتھوں بجھا دیتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق خودکشی کا سب سے زیادہ رجحان روس، مشرقی یورپ، بھارت اور چند مغربی افریقی ممالک میں ہے جہاں اوسطا ایک لاکھ افراد میں 15 یا زائد افراد ہر سال خودکشی کرتے ہیں۔ شمالی امریکہ، کینیڈا، مغربی یورپ، جنوبی افریقی خطہ اور جاپان اس لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہیں جہاں ایک لاکھ افراد میں اوسطا ہر سال خودکشی کرنے والوں کی تعداد 10 سے 15 ہے۔

تیسرے نمبر پر مسلم اکثریتی ممالک کے علاوہ باقی دنیاء ہے جہاں یہ اوسط 5 سے 10 افراد فی لاکھ ہے جبکہ بیشتر مسلم اکثریتی ممالک 5 سے کم کی اوسط کے ساتھ آخری درجہ پر ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کے مطابق خودکشی کے رجحان میں ہر گزرتے سال میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ یہ اضافہ عورتوں کے مقابلہ میں مردوں میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح پہلے کی نسبت اس کے رجحان میں نوجوان افراد میں تشویشناک حد تک تیزی آ گئی ہے جو آج کے علم و آگہی اور سمٹتے فاصلوں کے دور میں حیرت انگیز بلکہ لمحہ فکریہ ہے۔ خودکشی کے بڑھتے رجحان میں معروف شخصیات خصوصاً شوبز کے نوجوان ہر دلعزیز افراد کا اضافہ بھی دیکھا گیا ہے جو ایک معمہ سے کم نہیں جس نے اس ضمن میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔

آخر وہ کیا محرکات ہیں جو کسی کو اس قدر لاچار کردیتے ہیں کہ وہ اس انتہائی اور ناقابل تلافی اقدام پر مجبور ہوجاتا ہے؟ خصوصاً نوجوان جو جینے کے امنگ سے لبریز ہوا کرتے ہیں پھر مرد جو اعصابی لحاظ سے بھی عورت کے بالمقابل قوی سمجھے جاتے ہیں اور اگر وہ مشہور شخصیت بلکہ شوبز کا چمکتا ستارہ ہو جس کا پل پل متلون اور رنگینیوں سے عبارت ہو تو سوچ کی گتھیاں مزید الجھنے لگتی ہیں۔

زندگی حقیقت میں وہی سانپ سیڑھی کا کھیل ہے جس میں پل میں خوشی تو پل میں صدمہ کا سامنا ہوتا ہے۔ انسان صدمات کا مسرتوں کی طرح منتظر نہیں رہتا اس لیے انہیں ”ناگہانی“ کا نام دیا جاتا ہے جبکہ دونوں صورتیں امکان اور اختیار دونوں لحاظ سے متماثل ہیں۔ عموماً زندگی کے یہی زیر و بم جب تلاتم کی شکل اختیار کرتے ہیں تو ذہنی خلفشار کو جنم دیتے ہیں، یہی وہ وقت ہوتا ہے جب خطرے کی گھنٹی بجتی ہے لیکن اسے سننے یا اس پر متوجہ ہونے والے کم ہی ہوتے ہیں تاوقتیکہ یہ خلفشار غیر متوقع اور ناپسندیدہ نتائج و حالات کے سبب ذہنی دباؤ کی شکل اختیار کرلیتا ہے جو بالآخر مایوسی کے دلدل میں دھکیل دیتا ہے۔

اس حالت میں بھی خوداعتمادی، متوازن مزاجی اور حقیقت پسندی سے خوف، بے یقینی اور نا امیدی پر ممکنہ حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو رہا ہو تو اس کا اظہار اپنے سب سے قریبی اور بھروسا مند سے کرنا لازمی ہوجاتا ہے تاکہ وہ اسے حقیقت اور معنویت کا وہ رخ دکھا سکے جو اس ذہنی کیفیت میں اس سے اوجھل ہورہا ہے تو ساتھ ہی اسے مدد اور ساتھ کا حقیقی احساس بھی ہو تاکہ وہ کسی منفیت کا شکار نہ ہو سکے۔ اگر ایسا بھی نہ ہوسکا تو وہ شخص فرار کا راستہ اختیار کرتے ہوئے تنہائی پسندی، نشہ کے استعمال اور غیر اخلاقی طریقوں سے حالات پر قابو پانے کی کوششیں کر سکتا ہے۔ یہ حالت آخری درجہ ہے جو کسی بھی طرح مسائل کے حل کے لیے سودمند نہیں مگر مزید دباؤ اور مایوسی کا سبب ضرور ہے جس کا منتج خودکشی یا قتل یا دونوں ہوسکتے ہیں۔

جہاں تک مردوں میں خود کشی کے رجحان میں اضافہ کا تعلق ہے یہ اس لحظ سے تشویش ناک ہے کہ عورت کے مقابلہ میں مرد عموماً حالات و واقعات کا اس قدر تاثر نہیں لیتا جتنا عورت، کیوں کہ مرد جذبات سے جلد اور زیادہ مغلوب نہیں ہوتا اسی لیے مرد کا تصور خصوصاً مشرقی معاشرہ میں کمزور نہ پڑنا، حالات کے آگے بے بس ہوتے ہوئے بھی حواس نہ کھونا اور دستیاب صورتحال میں بہترین انتخاب کرنے سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کا جذبات کے اظہار سے براہ راست تعلق نہیں البتہ جذبات کی فطری لہر کو انتخاب پر اثرانداز نہ ہونے دینا اس میں شامل سمجھا جاتا ہے۔

گو یہ خصوصیات کسی عورت کے لیے بھی اتنی ہی اہم اور لازمی ہیں مگر چونکہ مشرقی معاشرے میں اصل فیصلہ ساز عموماً مرد ہی ہوتا ہے اس لیے یہ اوصاف مرد کی نشانی یا ”مردانگی کی علامت“ سمجھے جاتے ہیں اسی لیے مرد اس ”مردانگی“ کی بھینٹ بھی چڑھ جاتے ہیں جس کی ایک شکل خود سوزی بھی ہے۔ متعدد ایسے مرد بھی ہیں جو جذبات کے کسی بھی قسم کے اظہار سے گریز کے باوجود نارمل رویہ کے ساتھ زندگی کے زیر و بم عبور کر لیتے ہیں لیکن متعدد ایسے بھی ہیں جو خود کو ایسے حالات میں ثابت قدم رکھنے اور کسی حد تک اس کے اظہاریہ کے طور پر ”سخت مزاجی“ کا لبادہ اوڑھے رکھتے ہیں جبکہ دیگر اپنے جذبات کا براہ راست یا متبادل طریقہ اظہار سے اپنی توانائی کسی بناوٹی اظہایہ پر ضائع کیے بغیر اسے مقصد کے حصول کے لیے پورا پورا استعمال کرتے ہیں جو ایک مناسب اور صحت مند رویہ ہے۔

نوجوانوں میں پروان چڑھتے خود سوزی کے رجحان کی تشویش نہایت اہم مگر یہ ایک متزلزل اور کمزور معاشرے کی علامت ہے۔ معاشرہ چاہے ٹیکنالوجی اور معیشت کے لحاظ سے کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو لیکن اگر کسی طبقہ کے لیے معاون نہیں یا ا میں معاونت کا سازگار ماحول دستیاب نہیں تو یہ ایک عیب اور خلاء ہے جسے پر کیا جانا لازمی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان ہر معاشرے میں پروان چڑھ رہا ہے جبکہ سہولیات، جدت اور پہنچ سب کے لیے ممکن ہو رہی ہے تو پھر ایسا کیوں ہے؟

مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آج کا نوجوان جو پیدائشی طور پر بہت ذہین لیکن مناسب ہمہ گیر شخصی تربیت اور سوچ کے صحت مند تنوع میں معاونت سے یکسر نہیں تو بہت حد تک محروم ہے، جس کی برابر کی ذمہ داری والدین و اساتذہ کے ساتھ خود نوجوان طبقہ پر بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا نوجوان پچھلی نسل کے مقابلہ میں نصائح، تربیت اور تجربات کے بجائے صرف ذاتی مشاہدے کے زیر اثر پروان چڑھ رہا ہے۔ ظاہر ہے اگر اکثریت مناسب تربیت اور رہنمائی سے محروم ہوگی تو ہر ایک اپنی استعداد اور بساط کے مطابق اور حالات و واقعات کے تحت حقیقتوں کو سمجھے گا جو اس بڑھتی عمر میں اس کا ”یقین“ ثابت ہوگا۔

یقین بنیادی سوچ کا وہ محور ہے جو بہت سے محررکات کا منتج ہوتا ہے۔ یہ بہت سی جگہوں پر معاون بھی ہوتا ہے لیکن اس کی ایک خرابی اس کا بے لچک ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی واقع یا کسی خاص مشاہدے کے نتیجہ میں پروان چڑھنے والے یقین کے سہارے زندگی بسر کرنے والے عموماً فیصلہ کے معاملہ میں عجلت پسند اور حتمیت کے قائل ہوتے ہیں۔ نوجوانوں میں تجربات کی کمی یا ناپیدی کی وجہ سے یقین بہت پختہ اور واحد فیصلہ ساز قوت ہوتی ہے یعنی ان میں عموماً درمیانی امکانات کے بغیر صرف سیاہ یا سفید کا تصور پایا جاتا ہے اس لیے یہ حقیقتوں کے تبدل کو یکسر یا فوری تسلیم نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کی اکثر بے بنیاد باتوں پر بھروسا کر جاتے ہیں اور انہی پر فیصلے بھی کر گزرتے ہیں جس کے باعث جب یہ اپنے آپ کو بند گلی میں محسوس کرتے ہیں تو اسی عجلت پسندی اور حتمیت کے سبب خود سوزی تک پر مائل ہو جاتے ہیں۔

صورتوں کا مذوکورہ بالا تسلسل ایک عمومی صورتحال ہے جبکہ متعدد واقعات میں خصوصی اور غیر متوقع صورت حال بھی دیکھی گئی ہے جیسے کوئی ایسا شخص جو کم وقت میں توقع سے بہت زیادہ اور عمومی توقع سے کم مشکل سے مقاصد لگاتار حاصل کرلے وہ عموماً جلدباز، دوسروں پر ضرورت سے زیادہ بھروسا کرنے والا یا ضرورت سے زیادہ بداعتمادی اور خود بہت زیادہ پراعتمادی کاشکار ہوجاتا ہے۔ یہ تمام ہی طرز ہائے عمل منتہا ہیں جو عام حالات میں غیر حقیقی اور حادثات کا پیش خیمہ ہیں اس وجہ سے وہ شخص کبھی کبھی عام مخالفانہ رویوں سے بھی غیر ضروری طور پر شدید ذہنی خلفشار اور پھر اسی تسلسل میں اندھی اور بے نتیجہ سوچ کے تعاقب میں ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔

نتیجة وہ بالآخر مایوسی پھر شدید مایوسی اور پھر خودکشی جیسے انتہائی اقدام پر مائل ہوجاتا ہے۔ شوبز کے چمکتے ستاروں میں خودکشی کرنے والوں کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو عموماً اس کا کارن عام سی باتیں ہوتی ہیں جنہیں ایک عام آدمی زندگی میں کئی بار جھیلتا ہے اور متعدد بار ہنس کھیل کے نمٹا دیتا ہے کہ ”یہی زندگی ہے“ یا ”یہ بھی زندگی کا ایک رخ ہے“ مگر یہ بات ایک بظاہر کامیاب اور مشہور شخص کے لیے زندگی اور موت کا سبب بھی بن جاتی ہے۔

مشہور شخصیات کی زندگی کا ایک المیہ مخلص اور بے غرض لوگوں کی ارد گرد رہنے والوں میں کمی ہے اسی طرح ان کا مخصوص طرز زندگی ان کی نجی خصوصاً خانگی زندگی کو بہت متاثر کرتا ہے۔ یہ حالات ایک غیر محسوس انداز سے تنہائی کا احساس اجاگر کرتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ گہرا اور تکلیف دہ ہوتا جاتا ہے اور بالآخر خود سوزی کا سبب بھی بن جاتا ہے۔

خودکشی کا ایک عجیب محررک وہ ہے جس کا تعلق اسی ”یقین“ کے دوسرے رخ سے ہے۔ اس یقین کا تعلق مذہب، روایات، انا، سماجی حیثیت سمیت ہر اس چیز سے ہیں جہاں انفرادی یا اجتماعی طور پر سوچ کا ایک خاص پیٹرن اس انداز سے اپنایا جاتا ہے کہ اسے یقین کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ ان حالات میں اگر یقین بے یقینی میں تبدیل ہوتا محسوس ہو تو سماج کا سامنا کرنے کا خوف بھی کبھی کبھی اقدام خود کشی کا موجب بن جاتا ہے۔ ان معاشرتی پہلوؤں کے علاوہ کبھی کبھی یہ قبیح اقدام خود ساختہ نام نہاد ”عظیم مقاصد“ کے لیے بھی کیا گیا ہے تاہم ایسے واقعات خال خال ہی ہیں جن میں غیر عمومی سوچ اور اس کے نتیجہ میں غیر حقیقی طرز عمل یا نفسیاتی بیماریاں بھی محررک بنی ہیں۔

ہم میں سے ہر شخص کو ان حالات و واقعات کی کما حقہ آگہی لازمی ہے تاکہ ہم اپنے اردگرد بالخصوص اپنے پیاروں کا خیال بہتر طور پر رکھ سکیں اور ان کو کسی قسم کے غیر معمولی حالات میں تنہا نہ رہنے دیں تاکہ انہیں ایسے کسی ممکنہ انتہائی اقدام سے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری بحسن و خوبی نبھا سکیں۔ ہم اگر کبھی اپنے کسی قریبی عزیز کو غیر معمولی حرکات و سکنات مثلاً عادات کے برعکس رویے، غیر ضروری خاموشی و تفکر، ماحول کے برعکس اظہاریے، خلاف عادت یا معمول سے زیادہ سونے یا تمباکو نوشی میں مبتلاء پائیں تو اسے اعتماد میں لیں تاکہ اس کا اعتماد بحال ہو۔

اس کا خوف دور کرنے میں اس کی مدد کریں اور حوصلہ سازی کریں تاکہ وہ مایوسی کے دلدل سے نکلے اور اپنی توانائی اور صلاحیتیں مجتمع کر کے حالات کا بھرپور مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ضرورت پڑنے پر کسی ماہر نفسیات سے بھی رابطہ کریں اور اس کے مشوروں پر پورا پورا عمل کریں نیز ہر روز کی کارگزاری سے بھی اسے آگاہ کرتے رہیں۔ اگر وہ ضروری سمجھے تو اپنے ساتھی کی حالات کے مطابق اس ماہر نفسیات سے ملاقات بھی کروائیں۔ ہماری یہ بروقت اور تھوڑی سی کوشش بہت بڑے سانحہ کو باآسانی ٹال سکتی ہے۔ میر انیس یہ بات بہت اچھی طرح سمجھا گئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).