جس تن لاگے وہ تن جانے


”جس تن لاگے وہ تن جانے“ ایک زبان زد عام محاورہ ہے جسے سمجھنے کے لیے کسی کرشماتی خصوصیت کی ضرورت نہیں رہتی، کیونکہ سبزی والے سے مہنگائی پر بحث کرتے ہوئے بھی اس محاورے کا سہارا لیا جاتا ہے اور کسی پر قیامت گزر جانے پر بھی یہی محاورہ کام آتا ہے۔ لیکن آج کے دن تک اس کا مفہوم سمجھنے یا اس سے رہنمائی لیتے ہوئے دوسروں کے زخم پر نمک چھڑکنے کی عادت ترک کرنے کا خیال بھی شاید اکثریت کے دل سے نہ گزرا ہو گا کیونکہ آج بھی جب کوئی بچی، بچہ، عورت یا خواجہ سراء ہراسانی یا جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں تو ہم گریبان میں جھانکنے، مردانہ معاشرے کے ستونوں کی تربیت یا بیمار ذہنیت پر انگلی اٹھانے کی بجائے ہمیشہ ظلم کا شکار لوگوں کے لباس، طرز زندگی، چال ڈھال، جسمانی خدوخال، خاندان کی تربیت اور آزادانہ سوچ کو بنیاد بنا کر ان کو ہی قصور وار ٹھہراتے ہیں۔

معاشی و معاشرتی پسماندگی اور سماجی محرومیوں کے شکار طبقات جب اس طرح کے حادثات کا شکار ہوتے ہیں۔ تو ہمارے معاشرتی رویے ہمدردی کے نام پر تذلیل کر کے ان کی بچی کھچی عزت جو اب نہیں رہی (بقول معاشرہ) ، سماجی حیثیت و شخصیت، فیصلہ سازی اور بہتر زندگی گزارنے کا حق تک چھین لیتے ہیں۔ خاندان اور معاشرہ کے لو گ ان کے لئے سماجی اقدار اور ثقافتی رسوم کو مزید اضافہ کے ساتھ حکم نامے کے طور پر صادر کر دیتے ہیں۔

ہم ظلم کا شکار ہونے والوں کو ایک جانور کی طرح گھر کے ایک کو نے میں ڈال دیتے ہیں اور یہ خاندان کا ان پر ایک بہت بڑا احسان ہو تا ہے جس کے لئے اسے ساری ”زند گی“ (جو حقیقت میں اب صرف سانس لینے کے نا م پر چل رہی ہوتی ہے ) احسان مند رہنا اور باقی تمام حقوق سے محروم رہنا پڑتا ہے۔ پدرسری سوچ اور سماجی و قانونی تحفظ فراہم کرنے والے ادارے ان حیوانوں کو جو حقیقت میں جانور کہلانے کے حقدار ہیں معاشرے میں آزاد گھومنے کا پرمٹ دے دیتے ہیں۔

اور اس طرح یہ شکاری ایک بعد ایک کو اپنا شکار بناتا چلا جاتا ہے۔ اور شکار ہونے والے ایک خول میں بند ہو جاتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ بھیڑیے عظیم شخصیات، عزت دار افراد کے طور پر جانے جاتے ہیں (بو لے تو ان بھائی لوگوں کو سب سلام ٹھوکتے ہیں ) اس لئے تو ہماری عدالتوں سے بھی یہ ”با عزت شہری“ با عزت بری ہو جاتے ہیں۔

لیکن یہ سب اس لیے ممکن ہو پا رہا ہے کہ معاشرتی نا ہمواری اور نا انصافی کے نتیجے میں ہونے والی طبقاتی، مذہبی، جنسی اور سماجی تقسیم کے بعد کمزور گروہ (بچے، خواتین، افراد باہم معذوری، خواجہ سرا، مذہبی اقلیتیں، خط غربت کے آس پاس کی زندگی گزارنے والے ) سماج کے بنائے ہوئے سماجی ڈھانچوں میں خو د کو ڈھال لیتے ہیں اور معاشرے کو اس بات کا پورا حق دیتے ہیں کہ وہ ان کے لئے زندگی گزارنے کے اصول وضع کریں۔ پھر چاہے تو معاشرہ ان کو بطور انسان قبول بھی نہ کرے، یا انہیں کم تر درجے کا شہری تصور کرے۔

خاص طور پر جنسی درندگی کا نشانہ بننے والے افراد اگر مذکورہ بالا کمزور طبقات میں سے کسی ایک سے تعلق رکھتے ہوں تو پھر تو معاشرہ معزز شہری ہو نے کا فرض نبھاتے ہو ئے نہ تو خود ایسے واقعات بھولتا ہے اور نہ ہی مرتے دم تک اس ظلم کا شکار ہونے والے افراد کو بھولنے دیتے ہیں، الٹا ان کے ساتھ ہمدردی کے نام پر زخموں کو کرید ڈالتے ہیں۔ بعض اوقات تو سماج کے کچھ عزت دار اور کچھ نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار بھی ان کے احساسات کو طنز و مزاح کے پیرائے میں بیان کر کے ان کی تکلیف یا تذلیل کے تصور سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

نتیجے کے طور پر معاشرتی ہمدردیاں سمیٹتے اکثر متاثرہ افراد احساس تذلیل کی وجہ سے نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں، یا ”انسانی“ رویوں، اور انصاف تک رسائی نہ ہو نے کی وجہ سے تنگ آ کر خود کو زندگی کی قید سے آزاد کرا لیتے ہیں۔ کچھ لوگ اگر حا لات کا سامنا کرنے اور اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے کے لئے کوشش کرتے بھی ہیں تو انہیں خود اپنے گھر سے سپورٹ نہیں ملتی، اور زیادہ تر لوگ سر سے چھت چھن جانے، غیرت کے نام پر قتل ہونے، شخصیت کی کردار کشی اور ایسا حادثہ دہرائے جانے کے خوف سے اپنے ارادوں سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اور اس طرح انصاف کے حصول کی جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی دم توڑ دیتی ہے۔

اس سب پر بھی بس نہیں ٹیلی ویژن میڈیا ہمارے ملک کا ایک الگ نظام اور چہرہ ہے، جس کے معیارات عدل و انصاف اور طریقہ ہائے فراہمی بھی الگ ہی ڈھنگ کے ہیں۔ میڈیا کی دنیا میں اطلاع دینے والے سے فیصلہ سنانے والے جج تک سب کے دماغ کی ہارڈ ڈسک سب رپورٹر، ایڈیٹر/ ڈائریکٹر نیوز کے پاس گروی پڑا ہے، جہاں سے اطلاع آنے کے ساتھ ممکنہ فیصلے تک کی خبر پہلے ہی نیوز بلٹن میں پیش کر دی جاتی ہے۔ پھر متاثرہ فرد چاہے زندہ رہے یا مر جائے لیکن میڈیا کو سب چیزیں ایک کال پر فراہم کرنا کیس کے متعلقہ لوگوں کے لیے لازم ہے۔ جس میں متاثرہ فرد سے اس ظلم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات اور اس کے احساسات تک پوچھے جاتے ہیں، اس کے اہل خانہ کیا محسوس کر رہے ہیں یہ بتانا بھی از بس ضروری ہے۔

” مگر کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ متاثرہ افراد کے سامنے جب بھی واقعے کا ذکر ہوتا ہے، جب وہ اس شخص کا سامنا کرتے یا اس کا نام سنتے ہوں گے جس نے ان پر یہ ظلم کیا، ان کے وجود کو پامال کیا تو وہ لمحات ان کے لئے کتنے تکلیف دہ اور اذیت ناک ہوتے ہوں گے۔ اس اذیت کو شاید میں اور آپ ان کے چہرے پر پرچھائی کی صورت میں دیکھ تو سکتے ہیں مگر محسوس کرنے سے قاصر ہیں۔“

کیونکہ
”جس تن لاگے وہ تن جانے اور نہ جانیں لوگ
من کی پیڑا جانے جس کے ”جی“ کو لا گا روگ ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).