اسرائیلی وزیر اعظم بن گورین کی پاکستان کے خلاف تقریر: حقیقت یا افسانہ


کئی دہائیوں سے یہ سن رہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں کہ اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم بن گورین نے اسرائیل اور صیہونی تحریک کو خبردار کیا تھا کہ پاکستان ہمارے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 1967 میں ایک تقریر میں کہا تھا :

”عالمی صیہونی تحریک کو پاکستان کی طرف سے لاحق خطرات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اور اس کا پہلا نشان پاکستان ہونا چاہیے کیونکہ یہ نظریاتی ریاست ہمارے وجود کے لئے خطرہ ہے۔ سارا پاکستان یہودیوں سے نفرت اور عربوں سے محبت کرتا ہے۔ ہمارے لئے عربوں کا یہ عاشق عربوں سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم اب پاکستان کے خلاف قدم اٹھائیں۔

ہندوستان کے رہنے والے ہندو ہیں اور ان کے دل مسلمانوں کے خلاف نفرت سے بھرے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے خلاف کام کرنے کے لئے بھارت ہمارے لئے ایک اہم مرکز ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم ہر خفیہ اور پوشیدہ طریق اس مرکز سے یہودیوں اور صیہونیوں کے دشمن پاکستان پر حملہ کر کے اسے کچل دیں۔ ”

[ایکسپریس ٹریبیون 13 جون 2012 ]

ہم سب کئی بار بن گورین کی یہ تقریر پڑھ چکے ہیں۔ مختلف پروگراموں، تحریروں، اور تقریروں میں اس تقریر کا ذکر کیاجاتا ہے۔ اگر آپ انٹرنیٹ پر چیک کریں تو آپ کو اس کے کئی حوالے مل جائیں گے۔ پاکستان کی سینٹ میں بھی اسرائیل کے وزیر اعظم کی اس تقریر کی بازگشت سنائی دی جب 7 مارچ 2019 کو وفاقی وزیر علی محمد خان صاحب نے ایک سوال کے جواب میں اس تقریر کا حوالہ دے کر اسرائیل کو پاکستان کا پہلے نمبر کا دشمن قرار دیا۔

اس تقریر کے الفاظ کچھ حیرت میں ڈالتے ہیں۔ تاریخی طور پر اسرائیل کا رویہ جارحانہ رہا ہے۔ اور میرا نہیں خیال کہ ان کے سیاستدان پاکستان کے متعلق کوئی نیک خیالات رکھتے ہوں۔ لیکن اس کے باوجود عالمی سطح کے سیاستدانوں کے خواہ کچھ بھی ارادے ہوں وہ عام طور پراپنی تقریروں میں اس طرح دھمکیاں نہیں دیتے۔ اور نہ ہی اس طرح علی الاعلان اپنے منصوبے بیان کرتے ہیں۔

یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس تقریر کا کیا حوالہ بیان کیا جاتا ہے؟ جہاں تک میں نے چیک کیا ہے یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ تقریر 1967 میں کی گئی تھی۔ بن گورین 1967 میں اسرائیل کے وزیر اعظم نہیں تھے۔ وہ 1963 میں اس عہدے سے ہٹ چکے تھے۔ اکثر جب اس تقریر کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس کا کوئی حوالہ پیش نہیں کیا جاتا۔ کہ یہ تقریر کب اور کہاں شائع ہوئی؟ بن گورین کی حیثیث ایسی تھی کہ اگر وہ کوئی ایسی علانیہ تقریر کرتے تو وہ خفیہ نہیں رہ سکتی تھی۔ یقینی طور پر وہ کئی اخبارات اور رسائل میں شائع ہوتی۔ بعض تحریروں میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ تقریر اخبار جیوئش کرانیکل میں شائع ہوئی تھی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ اخبار تو 1841 سے شائع ہو رہا ہے۔ اس کے کس شمارے میں بن گورین کی یہ تقریر شائع ہوئی تھی۔

جب میں نے انٹرنیٹ پر جائزہ لیا تو معلوم ہوا بعض تحریروں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ تقریر 1967 میں جیوئش کرانیکل میں شائع ہوئی تھی۔ جیسا کہ ایکسپریس ٹریبیون میں شائع ہونے والی تحریر میں بھی یہی لکھا ہے۔ اور اس کا حوالہ میں نے اوپر دیا ہے۔ انٹرنیٹ کی بعض سائٹس پر یہ معین کیا گیا ہے کہ یہ تقریر 9 اگست 1967 کو اس اخبار میں شائع ہوئی تھی۔ اور بعض گردش کرنے والی ویڈیوز میں بھی یہی تاریخ بیان کی گئی ہے۔

یہ جائزہ لینے کے لئے کہ اس تقریر کی اصلیت کیا ہے؟ میں نے اس اخبار کی سائٹ پر جا کر ان کے سابقہ ریکارڈ تک رسائی حاصل کی۔ اور اس تقریر کو تلاش کرنا شروع کیا۔ اس تلاش کے نتیجے میں یہ حقائق سامنے آئے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 9 اگست 1967 کو یہ اخبار شائع نہیں ہوا تھا۔ یہ اخبار ہر ہفتہ شائع ہوتا تھا۔ اس کا شمارہ نمبر 5128 چار اگست 1967 کو شائع ہوا تھا اور اگلا شمارہ جس کا نمبر 5129 تھا 11 اگست کو شائع ہوا تھا۔ ان دونوں شمارے میں بن گورین کی کوئی تقریر شائع نہیں ہوئی تھی۔

اس وقت 1967 کی جنگ کو ختم ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ اس جنگ میں اسرائیل نے عرب ممالک کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس وقت جیوئش کرانیکل میں بھی ان علاقوں پر قبضہ اور اس پر عرب رد عمل کے چرچے چل رہے تھے۔ اور اگست 1967 کے شماروں میں اگر پاکستان کا ذکر آتا تھا تو اس حوالے سے آتا تھا کہ دوسرے مسلمان ممالک کی طرح پاکستان نے بھی عرب علاقوں پر اسرائیلی قبضے کی مذمت کی ہے۔ یا یہ خبریں شائع ہو رہی تھیں کہ جس طرح 1965 کی جنگ کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے درمیان براہ راست مذاکرات ہوئے تھے، اب عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان بھی ہو سکتے ہیں۔

اس کے بعد 1967 کے باقی مہینوں کے جیوئش کرانیکل کا جائزہ لیا گیا کہ اس دوران پاکستان کے متعلق اس اخبار میں کیا شائع ہوا؟ اس تمام سال کے دوران بھی پاکستان کے بارے میں بن گورین کی کوئی ایسی تقریر شائع نہیں ہوئی۔ اس سال کے دوران اس اخبار میں پاکستان کے متعلق یہ خبریں شائع ہو رہی تھیں کہ پاکستان نے اسرائیل سے آنے والے برٹش ائر وے کے جہازوں کو اپنی زمین پر اترنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکی فوج میں شامل کچھ یہودی پاکستان میں کام کر رہے ہیں۔ یہودیوں کی عالمی تنظیم انہیں عید فسح کے موقع پر اشیا بھجوانے کا انتظام کیا ہے۔ یا یہ کہ عرب ممالک سے جنگ کے دوران پاکستان نے عرب ممالک کو مدد کی پیشکش کی ہے۔ عرب اسرائیل جنگ کے بعد یہ خبر شائع ہوئی کہ جنرل اسمبلی میں پاکستان نے اسرائیل کے خلاف قرارداد پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

اور 3 نومبر کے اخبار میں یہ دلچسپ تردید شائع ہوئی تھی کہ بھارت کے اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ اسرائیل کے ایک آنکھ کے جنرل [مراد اس وقت کے وزیر دفاع موشے دایان] پاکستان کی افواج کو صحرائی جنگ میں تربیت دینے کے لئے پاکستان آئے ہیں۔ اس پر جیوئش کرانیکل نے یہ تبصرہ کیا کہ سارے تنازعہ میں پاکستان عرب ممالک کا ساتھ دیتا رہا ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اسرائیل پاکستان کو جنگی تربیت دے۔

بعض سائٹس پر بن گورین کی تقاریر کا مجموعہ شائع کیا گیا ہے۔ لیکن ان میں بھی یہ تقریر موجود نہیں۔ جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے یہ تقریر دستیاب نہیں ہو سکی۔ اور جو حوالہ عام طور پر پیش کیا جاتا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ اس پس منظر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کیا بن گورین ان خیالات کا اظہار کیا بھی تھا کہ نہیں۔ گزارش ہے کہ اگر کسی کے علم میں اس تقریر کا حوالہ ہو تو براہ مہربانی کمنٹ میں درج کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).