رِنگ ماسٹر کے ہتھکنڈے اور سادھارن عوام


سرکس دیکھنے کا اتفاق تقریباً سبھی کو ہوا ہو گا۔ سرکس میں ہر عمر کے افراد کے لئے تفریح طبع کا سامان ہوتا ہے۔ تنی ہوئی رسی پر چلنے والے بازیگر بھی ہوتے ہیں اور ماحول پر چھائی ہوئی سنجیدگی دور کرنے کے لئے کے لئے جوکر بھی ہوتے ہیں۔ بازیگر جان ہتھیلی پر رکھ کر خطرناک کرتب دکھاتے ہیں جبکہ مسخروں کا روپ دھارے کامیڈین کا کام ماحول کو کشت زعفران بنانا ہوتا ہے۔ سرکس کا سب سے مبہوت کر دینے والا کردار رنگ ماسٹر ہوتا ہے۔

رنگ ماسٹر کا حلیہ بہت دلچسپ ہوتا ہے۔ مخصوص وردی میں ملبوس رنگ ماسٹر نے ایک ہاتھ میں چابک اور دوسرے ہاتھ میں چھڑی تھامی ہوتی ہے۔ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے کمر پر ہولسٹر میں ایک پستول بھی لٹکا ہوتا ہے۔ اپنے مخصوص حلیہ میں ملبوس رنگ ماسٹر کا سب سے بڑا کارنامہ خونخوار درندوں کو اپنے سحر میں محو رکھ کر اپنے اشاروں پر چلانا ہوتا ہے۔ سرکس کا یہ آئٹم اس پورے شو کی جان ہوتا ہے جب سب سامعین مبہوت ہو کر خونخوار درندوں کو اپنے ٹرینر کے اشاروں پر عمل کرتا دیکھتے ہیں جن کے پاس جانے کا سوچ کر بھی جھرجھری آتی ہے۔

شیر اپنی طاقت اور ہیبت کی وجہ سے جنگل کا بادشاہ کہلاتا ہے لیکن رنگ ماسٹر چاہے تو جنگل کے راجہ کو ایک سٹول پر بیٹھا دے اور اگر وہ چاہے تو انھیں دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر ٹانگوں کے بل کھڑا کر دے۔ اگر وہ چاہے تو خونخوار شیروں کو بھیگی بلی بنا دے اور اگر وہ چاہے تو بکری کو شیر پر سواری کروا دے۔ یہ ایسا آئٹم ہے جب ہال میں موجود ہر شخص پر سسپنس طاری ہوتا ہے۔ اسی دوران وقتاً فوقتاً چابک سے نکلنے والی شڑاپ شڑاپ کی آوازیں حاضرین کے ساتھ شیروں کی دل کی دھڑکن بھی تیز کر دیتی ہیں۔ ہر لمحے یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ جانے اگلے پل کیا ہو جائے۔

متحیر کر دینے والا کرتب دکھانے کے لئے رنگ ماسٹر کو بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ بچپن سے پالے ہوئے جانوروں کے ساتھ بہت وقت گزارنا پڑتا ہے۔ انھیں اپنے اشاروں پر چلنا سکھانا پڑتا ہے۔ رنگ ماسٹر کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خونخوار درندوں کو ان کی اصل طاقت کا احساس نہیں ہونے دیتا۔ اس کی کامیابی کا راز اس ہنر میں پوشیدہ ہوتا ہے کہ وہ چابک کے ڈر سے اشاروں پر چلنے والوں کو ان کی اصل طاقت کا احساس نہیں ہونے دیتا۔ ان کے ذہنوں میں کوسوں دور بھی یہ خیال جاگزیں نہیں ہوتا کہ کہ جنگل کے اصل راجہ وہی ہیں لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی شیر کو اپنی اصل طاقت کا احساس ہو جاتا ہے۔ وہ رنگ ماسٹر کی بالادستی تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ وہ رنگ ماسٹر کو للکارتا ہے۔ اپنی دبنگ آواز سے رنگ ماسٹر کو اپنی طاقت کا احساس دلاتا ہے۔ پہلے رنگ ماسٹر مختلف طریقوں سے اس اڑیل شیر کو لبھانے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر ڈرانے کی کوشش کرتا ہے، اسے مارتا ہے۔

ماسٹر جانتا ہے کہ رنگ میں اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کے لئے اس اڑیل شیر کو قابو رکھنا ضروری ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں سے بھی مدد لیتا ہے تاکہ رنگ میں اس کی حکمرانی برقرار رہے۔ اس کا سارا زور اس سرکش شیر کو قابو کرنے پر ہوتا ہے تاکہ باقی شیر بھی سرنگوں رہیں۔ اسے یہ معلوم ہے کہ اس ایک کی سرکشی باقی شیروں کو بھی گمراہ کر سکتی ہے، انھیں یہ احساس دلا سکتی ہے کہ اس چابک میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ انھیں اپنے اشاروں پر چلا سکے۔ اسے یہ یقین ہوتا کہ ایک کی کامیاب بغاوت باقی شیروں پر یہ حقیقت عیاں کر سکتی ہے کہ نہ صرف اتفاق سے وہ اس ظلم و جبر کے نظام کو توڑ سکتے ہیں بلکہ اس رنگ کے اصل راجہ وہی ہیں۔

وہ یہ جانتا ہے کہ کھچا کھچ بھرا یہ ہال رنگ ماسٹر کو دیکھنے نہیں آیا بلکہ اس پنڈال کی اصل رونق انہی شیروں کے دم سے ہے۔ اسی لئے سب زور ایک باغی شیر کو قابو کرنے میں لگایا جاتا ہے، اپنے ساتھیوں سے مل کر اسے نشان عبرت بنایا جاتا ہے تاکہ باقی شیروں اور بھولی پبلک پر رنگ ماسٹر کی ہیبت برقرار رہے۔ رنگ ماسٹر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، بھلے کامیاب سرکس کا نقصان ہو جائے۔

سرکس دیکھنے کی دلدادہ سادھارن پبلک حقیقی زندگی میں بھی ایسی ہی شعبدہ بازی سے متاثر ہو جاتی ہے۔ حقیقی زندگی کے رنگ ماسٹر اپنی خامیاں پبلک سے عنقا رکھنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ انھیں لبھانے کے لئے نغمے تسلسل سے جاری کرتے ہیں۔ منہ سے جھاگ نکالنے والے اینکرز کے ذریعے من گھڑت کہانیاں تراشتے ہیں۔ سیاستدانوں پر کرپشن اور غداری کے فتوے لگائے جاتے ہیں۔ الغرض اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے مگر بڑھتے شعور کی وجہ سے سادھارن پبلک اب دقیقہ رس ہو چکی ہے۔ اب انھیں ان دقیانوسی ہتھکنڈوں سے بہلایا پھسلایا نہیں جا سکتا۔

اب وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ سی پیک شروع کرنے والے منتخب وزیراعظم کو عدالتی فیصلہ سے نا اہل کروانے سے سی پیک کو کچھ نہیں ہوا تو اب پیزے کا کاروبار بے نقاب کرنے سے سی پیک کو کیسے نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ اب کوئی اپنے ذاتی کاروبار کو اور کاغذات میں رد و بدل کو ففتھ جنریشن وار فیئر کے لبادے میں کیوں چھپانا چاہتا ہے۔ اب بھلے غداری کے مقدمے ہوں یا شمالی علاقہ جات کی سیر ہو، 2 سال کی سزا ہو یا لاکھوں روپے کا جرمانہ ہو، سوال پوچھنے والے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں۔ چابک دیکھ کر دبک جانے والی پبلک اب سہمنے کے لئے بھی تیار نہیں۔

بڑھتی عوامی بے چینی اور اندرونی خلفشار کے باعث صورتحال قابو سے باہر ہو رہی ہے۔ ابھی بھی وقت ہے۔ بہتر ہے رنگ ماسٹر وہی کام کریں جس میں انھیں مہارت ہے۔ جیلوں اور مقدموں سے ڈرانے والا ہتھیار اب کارگر نہیں رہا۔ موجودہ حالات میں معیشت اور جمہوریت کو پیچھے دھکیلنے والوں کے لئے اب خیالی منطق پر پبلک کو مطمئن کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ کاش ہم کبھی وقت پر بھی سمجھ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).