حادثہ ہو، بیان ہو یا پھر ٹی وی شو، معافی ہی تو مانگنی ہے مانگ لو


بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ لڑائی لڑائی معاف کرو اللہ کا گھر صاف کرو اور اگر کوئی غلطی ہو جائے تو سوری میں پہل کرلو۔ اسکول میں گھروں میں بھی بچوں کو یہی بتایا جاتا ہے کہ آپس میں مل جل کر رہیں اگر ایک دوسرے سے لڑائی ہو جائے تو سوری کر لیں معافی مانگ لیں بات ختم کردیں۔

دیکھا ہوگا چھوٹے بچے آپس میں کھیلتے ہوئے اگر لڑتے ہیں تو تھوڑی دیر میں معافی تلافی کر کے واپس ساتھ ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ تو معصوم ہوتے ہیں۔ جب بھی بہن بھائیوں کی لڑائی ہوتی ہے تو صلح صفائی کے لیے ماں باپ بہن بھائیوں کو ایک دوسرے سے معافی منگواتے ہیں دل چاہے نہ چاہے معافی مانگ لو۔

جبکہ بات اگر میاں بیوی کے رشتے کی ہو تو وہاں بھی معافیاں تلافیاں رشتے کو بچانے میں کام آجاتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے وہاں بھی معافیاں مانگنا بیوی کی ذمہ داری تصور کیا جاتا ہے کبھی تصفیوں کے لیے خاندانی جھگڑوں کے لیے صلح کے لیے معافیوں کے لیے پنچایتیں جرگے بیٹھ جاتے ہیں۔

کبھی عدالتوں میں کبھی عدالتوں کے باہر صلح نامے اور معافیاں تلافیاں ہوتی ہیں۔

ماہر نفسیات کہتے ہیں معافی مانگنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ اس کے ساتھ احساس شرمندگی کا ڈر ہوتا ہے اب ماہر نفسیات کو کیا اندازہ کہ ہر بات پر معافی مانگ لینا تو ہمارے قومی مزاج کا وتیرہ ہے۔

کچھ ہو جائے بس معافی مانگ لو اور بات ختم کچھ بھی کہ دو اس کے بعد شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے بیان جاری کردو زیادہ ہو تو ایک آدھ ٹویٹ بھی کردو ورنہ ٹی وی پر آ کر مخالفین کی دھجیاں بکھیر دو ساتھ میں یہ بھی کہ دو میرے اس بیان کا مقصد یہ تو نہیں تھا اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں لو جی چٹکیوں میں بات ختم۔ زندگی کے اس قدر جھمیلوں میں کس کو یاد رہنا کہ کیا ہوا تھا کیا کہا تھا روز ایک نیا ہنگامہ روز ایک نیا تماشا دل اور نظر کے لیے موجود ہے۔

موٹروے حادثے میں جہاں رات گئے ایک معصوم عورت اس بے خبری میں لٹ گئی کہ شاید اس شہر کے محافظ جاگ رہے ہوں گے مگر وہ تو اب تک حدود ہی ناپ رہے ہیں اور شاید حدود ہی ناپتے رہیں گے۔

لیکن اس کم نصیب کو کون سا اندازہ تھا کہ اس پر ایسی قیامت ٹوٹ پڑے گی جہاں درندگی اپنی تمام حدیں پار کر گئی۔ وہیں سی سی پی او صاحب کی معاملہ فہمی اور دور اندیشی کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے کیونکہ واقعی جہاں دن دیہاڑے عورت نہ بچے محفوظ وہاں ایسے کسی عورت نے اندھیرے سنسان رستے پر سفر کی ٹھانی اور اگر ٹھان بھی لی تھی تو گاڑی کا پٹرول چیک کرنا تھا اب بھلا یہ کیا بات ہوئی منہ اٹھا کر جب دل چاہے بچوں کو لے کر اکیلی نکل پڑو۔

تاہم یہ بھی ان کا بڑا پن ہے کہ انہوں نے ماں بہنوں بیٹیوں سے اپنے بیان پر معافی مانگ لی حالانکہ ان کو معافی مانگنے کی کیا ضرورت تھی مگر پھر بھی انہوں نے معافی مانگ لی۔ اسمبلی میں شہباز شریف اس قدر شدت جذبات سے مغلوب تھے کہ انہوں نے سانحہ موٹر وے کی انکوائری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس سیالکوٹ موٹروے پر یہ ہولناک واقعہ پیش آیا وہ نواز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ نون نے بنائی تھی اور ان کے اس بیان پر جس قدر زور و شور سے مسلم لیگ نون کی اسمبلی میں موجود قیادت نے تالیاں پیٹی اور ثابت کیا کہ لیڈر کی محبت کیا ہوتی ہے۔

ویسے بھی سانحات کا کیا ہے ہوتے رہتے ہیں جیسے ماڈل ٹاؤن ہو گیا تھا مگر قوم کے علم میں اضافے کے لیے یہ ضروری ہے کہ سیالکوٹ موٹر وے نواز شریف نے بنائی تھی اور یہ جاننا ہرگز بھی بالکل بھی ضروری نہیں کہ اسی راستے پر سات سال سے مرکزی ملزم ڈکیتیوں کی وارداتیں کرتا پھرتا رہا ہے ہاں یہ جاننا مگر ضروری ہے کہ شہباز شریف نے بھی اپنے بیان پر قوم سے صدق دل سے معافی مانگ لی ہے کیونکہ معافی مانگ لینے میں تو ویسے بھی بڑائی ہے۔ اس حادثے پربھی جس قدر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے کبھی مراد سعید اسمبلی میں ہاتھ لہرا لہرا کر بتا رہے تھے کہ حادثہ موٹر وے پر پیش ہی نہیں آیا لیکن ان کی اطلاع کے لیے عرض یہ ہے کہ بہرحال حادثہ پیش آ چکا ہے۔

ہر تھوڑی دیر بعد ٹی وی پر اپوزیشن کے لتے لینے والے فیاض الحسن چوہان نے جس قدر سنجیدگی سے مرکزی ملزم کے بارے میں ٹی وی پر بیان جاری کیا کہ بس دو دن میں مرکزی ملزم کو پکڑ لیں گے اس پر صرف سر ہی دھن سکتے جبکہ جب تک میں یہ تحریر لکھ رہی ہوں عابد ملہی جیمز بانڈ کی طرح پنجاب پولیس کو چکمے دے رہا ہے۔

کہیں شہباز گل انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملزمان کے ڈی این اے میچ کرنے پر پنجاب پولیس کو شاباش جاری کرنے کا ٹویٹ پوسٹ کر رہے ہیں۔

لیکن ان کی خدمت میں عرض ہے کہ سانحہ موٹر وے نے بھی روک نہیں لیا ہے عزتوں کو لٹنے سے لاہور میں ایک بیوی کو اس کے شوہر کے سامنے گن پوائنٹ پر لوٹ لیا ہے اس پر بھی کوئی معذرت خواہانہ ٹویٹ کر ہی سکتے ہیں کیونکہ معذرت ہی تو ہے۔

کہیں پنجاب حکومت کی معذرت خواہانہ پریس کانفرنسیں ہو رہی ہیں تو کہیں ہچکولے کھاتی اپوزیشن استعفی مانگتی نظر آتی ہے۔ کہیں استعفوں پر بحث جاری ہے کہیں سزاؤں پر ہاں لیکن معافیوں اور معذرتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے کیونکہ معافی مانگنا تو بہت ضروری ہے۔

اب کیا ہو گیا اگر ندا یاسر نے بھی معصوم مروہ کے مجبور سے والدین سے پوچھ لیا کہ بچی کی کیا حالت تھی کس حال میں تھی کیا ہوا تھا ظاہر ہے غلطی تو ان غریب ماں باپ کی ہے نا جو ٹی وی پر پہنچ گئے بچی تو نہیں رہی اب سوال تو پوچھنا ہی ہیں۔

لیکن ندا نے بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے معافی مانگ لی ہے ورنہ اتنا ریٹنگ والا شو ہے کیا ضرورت پڑی تھی کہ موافی مانگتے پھریں۔
تو بس پھر حادثہ ہو بیان ہو یا پھر کوئی ٹی وی شو ہو، منہ پھاڑ کر بولو، معافی ہی تو ہے معذرت ہی تو کرنی ہے تو بعد میں مانگ لو معافی کس کو یاد رہنا کہ کیا ہوا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).