ہمارے سیاسی المیے کے اسباب


حقیقی جمہوریت میں سیاسی پارٹی جمہوری نظام کی بنیادی اکائی ہوتی ہے۔ یہی بنیادی اکائیاں مل کر ایک مضبوط جمہوری نظام تشکیل دیتی ہیں۔ پاکستان میں سیاسی پارٹیاں آمریت کے استعارے بنی ہوئی ہیں۔ جو اپنے منشور اور نعروں پر عمل کرنے کی بجائے خاندانی آمریت کے تحفظ کو ہی اپنا نصب العین بنا چکی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف جب پرانی سیاسی جماعتوں کو شکست دے کر اقتدار میں آئی تو اس کے دو نعرے احتساب سب کا، دو نہیں ایک پاکستان بہت مقبول ہوئے مگر اپنے دو سالہ اقتدار میں پاکستان تحریک انصاف نا تو کسی کا حقیقی احتساب کرنے میں کامیاب ہوئی اور دو نہیں ایک پاکستان کے نعرے کو نواز شریف روندھتے ہوئے لندن جا پہنچے جہاں سے وہ مٹر گشت کی تصاویر جاری کر کے تبدیلی سرکار کا منہ چڑاتے ہیں۔ عوام کو تبدیلی تو نا ملی مگر مہنگائی کی صورت میں عذاب ضرور مل رہا ہے۔ جذباتی نعروں کے پیچھے بھاگتی عوام اسی طرح مایوس ہوتی رہے گی، جب تک کہ وہ اپنی سیاسی پارٹیوں کو حقیقی جمہوری پارٹیاں بننے پر مجبور نہیں کر دیتے۔

پاکستانی معاشرے میں سیاسی جماعتوں کا نا کوئی نظریہ ہے نا منشور۔ کاغذوں کی حد تک ہر ایک سیاسی جماعت ایک منشور، چند ایک بنیادی نعرے اور نظریات رکھتی ہے۔ مگر عملی سیاست میں ان کا کہیں نام و نشان تک نہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں میں صرف ایک نظریہ رائج ہے جسے نظریہ ضرورت کہتے ہیں، جو موم کی مانند ہے۔ موم کی ناک جیسے چاہیں جس طرف چاہیں موڑ لیں اسے کوئی فرق نہیں پڑتا ویسے ہی ہماری پارٹیوں کا نظریہ دھوپ اور چھاؤں دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے کے اب کون سا موڑ موڑنا ہے۔ اب اسٹبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ اپنانا ہے یا حامی۔

اگر اسٹبلشمنٹ اپنی سیاسی جماعت کی حامی ہے تو کوی مسئلہ نہیں اگر معاملہ اس کے برعکس، مخالف سیاسی جماعت کے ساتھ ہے تو پھر یہی جماعتیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ ووٹ کو عزت دو اور اٹھارہویں ترمیم کے رکھوالوں کی صورت میں نکال کر باہر لے آتیں ہیں۔

اس اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کے دوران جب بیچارے عوام اپنے رہنماؤں کا یقین کر کے احتجاج کر رہے ہوتے ہیں اور ٹینکوں کے آگے لیٹنے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں تو یہ انقلابی رہنما اسٹیبلشمنٹ کے بوٹوں میں لیٹ کر ان کی مرضی کی کابینہ بنا رہے ہوتے ہیں یا جس اینٹ سے ان انقلابی رہنماؤں نے اسٹبلشمنٹ کی اینٹ بجادی ہوتی ہے وہ ڈھونڈنے کے لیے دوہبی چلے جاتے ہیں۔

اگر ان انقلابی بیانیوں کے باوجود الیکشن ہار جائیں تو ان اینٹی اسٹیبلشمنٹ انقلابی رہنماؤں کو جیل کی سختیاں برداشت نہیں ہوتی اور ان کو مچھر کاٹتے ہیں ڈیپریشن کے مریض بن جاتے ہیں۔ پھر ووٹ کو عزت دینے کے لیے بیماری کے نام پر باہر چلے جاتے ہیں اور انہی فلیٹس میں رہائش پذیر ہو جاتے ہیں جن کی منی ٹریل کا کچھ پتہ نہیں ہوتا اور اپنے آرام کے بدلے میں استعماری قوتوں کی قانون سازی کے لیے مدد بھی کرتے ہیں۔

ان انقلابی رہنماؤں کی اگر اپنی جماعت کا کوئی بھٹو دو دو فوجی ڈکٹیٹروں کی کابینہ میں رہے یا کسی شریف کو ڈکٹیٹر اپنا روحانی بیٹا بنا لے تو کوی مسئلہ نہیں ان کے لیے وہ بھٹو اور شریف، قائد انقلاب، فخر ایشیا، شیر پنجاب ہی رہتے ہیں۔

ہمارے یہ جمہوری انقلابی رہنما نعرے سول بالادستی کے لگاتے ہیں اور خود ان رہنماؤں نے اپنی پارٹیوں میں بدترین خاندانی آمریت مسلط کر رکھی ہوتی ہے جن میں ان کے بچے ہی اس معیار پر پورے اترتے ہیں جو چیرمین اور پارٹی صدارت کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ جماعتوں کے لیے اپنی عمریں کھپانے والے اعتزاز احسن، رضا ربانی، چوہدری منظور، خورشید شاہ، قمر زمان کائرہ، احسن اقبال، خواجہ آصف، جاوید ہاشمی اور چوہدری نثار جیسوں کے لیے پارٹی چیئرمین اور صدارت کا عہدہ شجرے ممنوع بنا دیا جاتا ہے جو آواز اٹھاتا ہے اس کو یا تو چپ کروا دیا جاتا ہے یا پارٹی سے ہی نکال دیا جاتا ہے۔

ان کی مریم تو قوم کی بیٹی بن جاتی ہے مگر مخالفین کی بے نظیر بیٹی کی ننگی تصاویر جہازوں سے پھینکی جاتی ہیں۔

ان نظریات اور بیانیوں کے ہوتے ہوئے کبھی حقیقی انقلاب برپا نہیں ہوتے صرف ذاتی فائدے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ انقلاب کے لیے اپنے موقف پر ڈٹے رہتے ہوئے ستائیس ستائیس سالوں تک جیلوں میں قید و بند کی مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے۔ اپنے کارکنان کے لیے مثال بنا جاتا ہے۔ ان میں نظریات کی آبیاری کی جاتی ہے۔ خاندان اور اولاد کی محبت سے اوپر اٹھ کر ہر مخلص، محنتی اور حقیقی سیاسی کارکن کے لیے پارٹی کے سب سے بڑے عہدوں تک پہنچنے کے لیے راستہ ہموار کیا جاتا ہے اور عوام کے لیے سماجی انصاف، تعلیم، روزگار کے یکساں مواقعے فراہم کیے جاتے ہیں ورنہ یہ سارے انقلابی اور جمہوریت کی بالادستی کے نعرے ایک سراب بن کے رہ جاتے ہیں اور پھر سیاسی المیے جنم لیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).