ہما کوکب بخاری: تیس برس پر پھیلی جڑواں کہانی


صاحب، کیا ایسا کوئی ہے ہم میں سے جس نے جڑواں بچوں کے بچھڑ جانے والے واقعات پہ مبنی فلمیں نہیں دیکھیں ہوں گی؟

اور ہوتا کیا تھا اگر بچے ہم شکل ہوئے تو وقت ولادت ہی جدائی کا انتظام کچھ ایسے ہوتا کہ یا تو دایہ کی نیت خراب ہو جاتی یا پھر خاندانی دشمنی کام کر دکھاتی۔سو ناظرین دل پہ ہاتھ رکھ کے یہ تماشا دیکھتے رہتے کہ ایک بچہ مغرب پہنچ گیا تو دوسرا مشرق میں، ایک ناز و نعم میں پلتا تو دوسرا غربت اور لاچاری میں۔ اماں اس غم میں گھلتی رہتیں اور بستر مرگ تک جا پہنچتیں۔ جب ہسپتال میں ایک بچہ لب گور ماں کا ہاتھ تھامے افسرده شکل بنائے کھڑا ہوتا، ہو بہو اسی شکل کے ڈاکٹر صاحب آن ٹپکتے۔ سب دیکھ کے چونک پڑتے، اماں تڑپ کے اٹھ بیٹھتیں۔ پوچھ گچھ کے بعد علم ہوتا کہ ڈاکٹر صاحب تو وہی کھویا ہوا بچہ ہیں۔ لیجیے جناب دم توڑتی اماں کی سانس بحال ہو جاتیں اور وہ ایک کی بجائے دو بیٹے لے کر روبصحت ہو کر گھر کو لوٹتیں۔ ہال میں بیٹھے ناظرین کی جان میں جان آتی، سیٹیوں اور تالیوں کی گونج میں سب خوش خوش گھر جانے کو اٹھ بیٹھتے۔

دوسری صورت میں جب بچے ہم شکل نہ ہوتے لیکن اماں نے نہ جانے کس مصلحت کی بنا پر خاندانی گیت ازبر کروا دیا ہوتا۔ پھر کسی ایک موقع پہ ننھے منے جڑواں میلے میں بچھڑ جاتے اور کسی کا کچھ کہیں پتہ نہ چلتا۔ ہاں یاد رہتا تو وہی گیت جسے دونوں اپنی اپنی جگہ پہ گنگناتے جوانی کی دہلیز پہ آن پہنچتے۔ اب کہیں کسی شادی بیاہ کی تقریب میں گانے کی فرمائش ہوتی۔ اگر پہلا مصرع ایک کھویا ہوا بچہ یا نوجوان اٹھاتا تو دوسرا فوراً اس پہ گرہ لگاتا۔ لیجیے جناب، سب چونک اٹھتے،معمہ حل ہو جاتا اور بچپن میں بچھڑے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگا لیتے۔

بخدا یہ گھسے پٹے سکرپٹ سنانے کا قطعی یہ مقصد نہیں کہ ہمیں آپ کے صبر وضبط کاامتحان درکار ہے اور جان لیجیےکہ ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ آپ اپنے ہی بال نوچنے پہ مجبور ہو جائیں۔

اصل میں بات کچھ یوں ہے کہ رات ہو چلی ہے اور طبیعت کہانی کہے بنا مانتی نہیں۔ شہرزاد کے پاس یہ کہانی سانچے میں دھلی دھلائی حالت میں آئی ہے۔ سو دل یہ چاہتا ہے کہ اس میں دوسروں کو بھی شریک کیا جائے، دوسروں کی تنہائیوں میں کچھ دیر کے لئے کچھ دور تک!

گرمیوں کی طویل دوپہریں ہوتیں، میڈیکل کالج سے تھکے ہارے ہوسٹل پہنچتے، ڈائننگ ہال میں پانی ملے شوربے کے ساتھ سوکھی ہوئی چپاتی کھاتے اور کمرے کی طرف روانہ ہوجاتے جہاں ایک عدد چارپائی اور چھت پہ لگا تیزی سے گھومتا پنکھا ہمیں ہفت اقلیم کی دولت سے کم نہ لگتا۔ ہاں ایک مشکل درپیش ہوتی۔ دن بھر کی مشکل پڑھائی کے بعد کچھ دیر کے لئے قیلولہ لازم تھا اور اس سے پہلے کوئی کتاب۔ دن بھر کی مغز پچی کے بعد کوئی بڑی کتاب تو نہیں، ہاں کوئی ڈائجسٹ مل جائے تو بہت اچھا۔ اس تلاش میں مختلف احباب کے کمروں کے دروازے پہ دستک دی جاتی اور کبھی بے نیل و کامران واپس نہ لوٹتے۔ ایک آدھ افسانہ پڑھتے جس میں ہیروئن انتہائی چھوئی موئی، معصوم کم گو اور شرمیلی ہوتی اور ہیرو انتہائی شریر باتونی اور وجیہہ۔ دونوں کے ربط ضبط کے دوران کہیں نہ کہیں کوئی غلط فہمی ہو جاتی اور جب تک رفع دفع ہوتی، ہم اپنے آپ سے زیر لب پوچھتے، ایسا کہاں ہوتا ہے بھائی؟ اور ساتھ ہی پلکوں پہ نیند اتر آتی۔ استراحت میں جہان رنگ و بو کی یاترا کرکے بیدار ہوتے تو سب فراموش کر چکے ہوتے۔

اسی کی دہائی کا اختتام تھا، دن پر لگا کر اڑے جا رہے تھے۔ ہر روز کچھ نہ کچھ نیا تھا اور اسی پھیر میں ہم نے کچھ مختلف پڑھا۔ تھوڑا چونکے اور صفحہ پلٹ کر نام دیکھا ‘ہما کوکب بخاری’ ۔ ہنہ، ہم نے ہنکارا بھرا، شکر ہے مصنفہ کامن سینس کی مالک ہے۔ چلیے فیصلہ ہو گیا کہ ہم انہیں پڑھیں گے۔ یہ ہما کوکب بخاری سے شناسائی کا پہلا لمحہ تھا۔

اور پھر یوں ہوا کہ نہ ہوسٹل میں گرما کی طویل دوپہروں کا ساتھ چھوٹا اور نہ ہی دوپہر کو ڈائجسٹ پڑھنے کی عادت۔ بس تبدیلی آئی تو اتنی کہ اب ڈائجسٹ کھولتے ہی ہما کوکب کا نام دیکھ کر کہانی پڑھتے اور یونہی آنکھ لگ جاتی۔

انہی دنوں لاہور ٹیلی وژن سے حالات حاضرہ پہ کوئز نما پروگرام ‘جہاں نما’ شروع ہوا جس کی میزبانی نعیم بخاری کیا کرتے تھے۔ ہم اور ہماری دو دوستوں نے اس میں شرکت کی ٹھانی۔ لیجیے جناب، جنگ، پاکستان ٹائمز، فرنٹیئر پوسٹ، نیوز ہمارے سر پہ سوار ہو گئے۔ چونکہ جہاں نما میں شرکت کرنا تھی سو فارمیٹ سمجھنے کی خاطر ہر قسط دیکھی جاتی۔ یونہی ایک پروگرام میں جب شرکا کا تعارف کروایا جا رہا تھا تو ایک دبلی پتلی تیکھے نین نقش اور غزالی آنکھوں والی نے جب اپنا نام بتایا تو ہمیں چونک کے دیکھنا پڑا، ارے یہ تو عین مین وہی نام ہے ڈائجسٹ والا… اچھا تو یہ ہیں مصنفہ ہما کوکب بخاری.. یہ تو ہماری ہی ہم عمر دکھتی ہیں… یہ ہماری یک طرفہ شناسائی کا دوسرا پل تھا۔

دن گزرتے رہے، زندگی کی مسافتیں طے ہوتی رہیں، ہر برس گرما کی چلچلاتی دھوپ کے بعد ہوسٹل میں چارپائی پہ لیٹ کے سستانا اور ڈائجسٹ پڑھنا، کچھ بھی تو نہ بدلا۔ ہما نے ان دونوں بہت لکھا اور خوب لکھا۔ ان کے ناولوں کے کچھ نام،

ماہی ماہی کوکدی، بیتے پل کا سایہ ، اک عمر کے طلسم میں، اکھاں چھم چھم وسیاں، زندگی میرے لئے گنبد بے در ٹھہری، کسی خواب کے یقین میں

ہمارا اور ہما کا لکھاری اور قاری ہونے کا رشتہ تین چار برس پہ محیط رہا اور پھر ایک دن وہ غائب ہو گئیں چپکے سے، اچانک، جیسے آیئں تھیں۔ بالکل اسی طرح جیسے طلسم ہوشربا میں راتوں رات کوئی جنگل اگ آئے یا پھر بسا ہوا شہر صفحہ ہستی سے غائب ہو جائے۔

زندگی کے جھیلوں میں جب کبھی ڈائجسٹ نظر آتا، ہمیں ضرور خیال آتا بھلا کہاں چلی گئی وہ کامنی سی لڑکی؟ یہی سوچتے سوچتے پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ گیا۔

پچھلے برس کی بات ہے کہ فیس بک جو ہماری البیلی سہیلی بنی ہمیں مفت مشوروں سے نوازتی رہتی ہے کہ ہماری جان پہچان کی فہرست کیسے طویل ہو سکتی ہے۔ ہم کبھی سنی ان سنی کرتے ہیں اور کبھی روادار ہو کے مشورہ مان لیتے ہیں سوچتے ہوئے کہ فیس بک چوپال ہی تو ہے، طرح طرح کے قصے کہانیوں کے لئے تو چلیے ایسے ہی سہی!

تو ایسے ہی ایک کھڑکی سے ایک نام جھانکا اور ہم بے طرح چونک گئے۔ ارے نام تو وہی ہے، تصویر بھی ملتی جلتی ہے۔ پوچھنے میں کیا حرج ہے صاحب؟

برقی پیغام،
“کیا آپ خواتین ڈائجسٹ والی ہما کوکب بخاری ہیں؟”
ترنت جواب،
‘ جی ہاں’

” ارے یہ تو زندہ ہیں ” ہم بڑبڑائے۔

جان پہچان کی درخواست گزاری گئی جو منظور ہو گئی۔ اب تجسس تو تھا کہ اتنا عرصہ کہاں رہیں؟ لکھنا کیوں چھوڑ دیا ؟ کیا گزری؟ سو ابتدائی مرحلوں سے گزرنے کے بعد سوال و جواب کی بیٹھک ہو ہی گئی۔

ہم نے اپنی کہی کہ ہم انہیں اس زمانے سے پہچانتے ہیں جب قلم سے بندھے ان رستوں کا مسافر ہونا ہمارے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا۔ تب زندگی کسی پرسکون ندی کی طرح ہولے ہولے بہتی تھی اور پانی پہ بننے والے نقش دیرپا ہوا کرتے تھے۔ ہما کو گزشتہ صدی سے تعلق رکھنے والی اپنی قاری کے منہ سے پرانی شناسائی کی بات پہ مزا تو آیا ہی لیکن ہماری باچھیں بھی کھل گئیں یہ سن کر کہ اب وہ ہمیں پڑھتی ہیں۔

ہم دونوں زندگی کی نیرنگی پہ ششدر تھے۔ ہم عمر ہونے کے علاوہ ہم دونوں ایک ہی زمانے اور ایک ہی وقت میں موجود تھے۔ خاندانی بیک گراؤنڈ بھی ملتا جلتا تھا۔ کتاب سے دونوں کی دل لگی تھی۔ زندگی کو سر کرنے کا سودا بھی دونوں کے سر پہ سوار تھا۔ شوق اور خواہشات بھی مختلف نہیں تھیں لیکن ہمارے راستے ریل کی دو پٹڑیوں کی طرح متوازی ہی رہے، ان زمانوں میں مل نہیں سکے۔

اب کیا کیجیے کہ بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی کے آخیر سے شروع ہونے والا نادیدہ اور مخفی تعلق اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے آخیر میں سامنے آیا جب درمیان میں سات سمندر حائل تھے۔ لیکن تعلق کی ڈور جو ایک صدی کا دروازہ بند ہونے کے بعد دوسری صدی تک کھچ آئی تھی وہ ڈور دو لکھاریوں کے درمیان بندھی تھی۔ کیا ہوا جو وقت نے لکھاری اور قاری کی ترتیب بدل ڈالی تھی۔ برسوں پہلے بھی تعلق کی کنجی کتاب تھی اور آج بھی وہی ہے لیکن آج اس کے ہر صفحے پہ محبت، خلوص اور چاہت کے پھول کھلتے ہیں۔

نہ صرف کتاب میں بلکہ یہ پھول کتاب سے نکل کر اپنی دلفریب مہک اور رنگوں کے ساتھ ہماری میز تک آن پہنچتے ہیں جب کورئیر سروس والا فلپائنی ہمارے گھر کی گھنٹی بجاتے ہوئے ہمیں نہ صرف سالگرہ مبارک کہتا ہے بلکہ ہاتھ میں تھامے ہوئے کاسنی پھول ‘سرپرائز ‘ کا نعرہ لگا کے ہمارے حوالے کرتا ہے۔

ہمیں علم ہے کہ یہ سرپرائز بخشنے والی ہماری جڑواں دوست ہے جو دنیا میں آئی تو ساتھ ساتھ تھی لیکن نہ جانے انسانوں کے اس جنگل میں ہم ایک دوسرے کو اب سے پہلے کیوں نہیں مل سکے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).