میثاق جمہوریت ۔ 2 کی ضرورت


اتوار کو اسلام آباد میں ملک کی تمام اپوزیشن پارٹیوں کی کانفرنس منعقد ہورہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ترجمان قمر زمان کائرہ کے بقول اس کانفرنس میں موجودہ حکومت کو ختم کرنے کے منصوبہ کو حتمی شکل دی جائے گی۔ البتہ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے اس اے پی سی میں شامل ہونے والے سیاست دانوں کو ’شکست خوردہ عناصر ‘ کا ایسا گروہ قرار دیا ہے جو ’ ایک دوسرے کے گلے لگ کر دھاڑیں ماریں گے‘۔

اس بات کا اندازہ تو آل پارٹیز کانفرنس کے بعد ہی ہوسکے گا کہ اپوزیشن لیڈر اس کانفرنس کے دوران یا بعد میں کیسی پریشانی یا بدحواسی کا سامنا کرتے ہیں یا اس امتحان سے سرخرو نکلتے ہیں اور ملک کو ایک ایسا سیاسی لائحہ عمل دینے میں کامیاب ہوتے ہیں جس سے حقیقی جمہوریت کا راستہ ہموار ہوسکے۔ تاہم اس کانفرنس میں مسلم لیگ (ن) کے رہبر نواز شریف کی لندن سے بذریعہ ویڈیو لنک شرکت اور ممکنہ خطاب کی خبر سن کر فی الوقت حکومت کے اوسان خطا دکھائی دیتے ہیں۔ اس خبر کے سامنے آتے ہی وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل نے ایک ٹوئٹ میں متنبہ کیا کہ’ اگر ایک مفرور مجرم نواز شریف نے کل جماعتی کانفرنس سے خطاب کیا اور وہ نشر ہوا تو پیمرا سمیت دیگر قانونی آپشنز استعمال کیے جائیں گے‘۔

یہ انتباہ اپوزیشن کی بجائے ملکی میڈیا کو دیا گیا ہے اور حکومت کے نمائیندے نے واضح کیا ہے کہ نواز شریف کی تقریر کو نشر کرنےوالے میڈیا گروپس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ آزادی رائے کے خلاف کسی سرکاری نمائیندے کا ایسا افسوسناک بیان کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ اس بیان سے فی الوقت یہ واضح ہورہا ہے کہ اپوزیشن کی دھاڑوں سے پہلے حکومت کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ مریم نواز نے اسی صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ’اب نواز شریف بولنے لگا ہے تو کیوں جان پر بن گئی ہے؟ ان کی آواز انشااللہ گھر گھر گونجے گی۔ روک سکو تو روک لو‘۔

آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد اپوزیشن کی صفوں میں انتشار اور اختلاف کی خبروں کی روشنی میں ہی ہو رہا ہے۔ بظاہر اپوزیشن جماعتوں کے پاس عمران خان کے استعفیٰ اور تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کرنے کے طریقے سوچنے کے علاوہ کوئی دوسرا پروگرام بھی نہیں ہے۔ تاہم اس کانفرنس کے انعقاد کے سلسلہ میں تیزی سے پیش رفت ہوئی ہے اور ویڈیو لنک کے ذریعے پہلے نواز شریف اور اب آصف زرداری کی شرکت کے اعلان سے معاملات تیزی سے تبدیل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومتی نمائیندوں سمیت ملک کا ہر شخص جانتا ہے کہ اپوزیشن کے اتحاد اور کسی واضح حکمت عملی میں نواز شریف اور آصف زرداری کا کردار فیصلہ کن ہوسکتا ہے۔ ان دونوں رہنما ؤں کو کوئی بات کہنے یا وعدہ کرنے کے لئے کسی سے اجازت لینے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ خاص طور سے نواز شریف کی اچانک شرکت اور تقریر کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے اور اس پر حکومت کی پریشانی قابل فہم ہونی چاہئے۔

عمران خان کی حکومت نعروں کی بنیاد پر ہر مشکل سے نکلنا چاہتی ہے اور اپنی ناکامیوں کا جواب چند نئے نعروں سے دینے کی کوشش کرتی ہے۔ آج کل نواز شریف کو لندن سے واپس لانے کے حوالے سے وفاقی کابینہ سے لے کر تحریک انصاف کے لیڈروں تک سب ہی اظہار خیال کرنے میں پورا سیاسی زور صرف کر رہے ہیں۔ حالانکہ سب کو یہ علم ہے کہ برطانیہ سے نواز شریف یا کسی ممتاز سیاسی لیڈر کی بازیابی ممکن نہیں ہے۔ پاکستانی حکومت ان پر جو بھی الزام عائد کرے لیکن مغربی ممالک کے نزدیک یہ ساری کارروائیاں انتقامی ہوتی ہیں جو سیاسی آزادی کو محدود کرنے کے لئے کی جاتی ہیں۔

اس پس منظر میں شہباز گل کے ٹوئٹ ہوں یا وزیر اطلاعات شبلی فراز کی پریس کانفرنس، اس سے اپوزیشن کی ناکامی سے زیادہ حکومت کے خوف کا اظہار ہو رہا ہے۔ اسی لئے وزیر اطلاعات نے اپنی پریس کانفرنس میں اپوزیشن اور نواز شریف کے خلاف ہر وہ ہتھکنڈا استعمال کرنے کی کوشش کی ہے جس سے انہیں غلط اور ناکام ثابت کیا جاسکے۔ شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ’اپوزیشن کے پاس نہ تو کوئی حکمت عملی ہے اور نہ ہی ہم ان سے خوف زدہ ہیں۔ ایسے سزایافتہ مجرم اس آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کریں گے جو عدالت کے سامنے پیش ہونے سے گریز کررہے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیاں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلنے کی پاکستانی کوششوں میں رکاوٹ ڈالتی رہی ہیں۔ ملک میں ہر مثبت تبدیلی اپوزیشن کے لئے بری خبر ہے۔ وہ معیشت اور ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں‘۔

 یہ بیان اعتماد سے بھرپور کسی حکومت کے نمائندے کا نہیں ہوسکتا بلکہ اس کی ہر سطر سے سرکاری حلقوں میں پائے جانے والے خوف و ہراس کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ اپوزیشن کا اتحاد یا ان کا کوئی اعلیٰ منصوبہ نہیں ہے بلکہ گزشتہ دو برس کے دوران تحریک انصاف کی پے در پے ناکامیاں، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری اور امن و امان کی ابتر صورت حال ہے۔ حالانکہ کسی بھی انتخابی عمل کے نتیجے میں قائم ہونے والی کسی سیاسی حکومت کو ملک میں سیاسی عمل اور سرگرمیوں پر اطمینان کا اظہار کرنا چاہئے اور اس بات کا خیر مقدم کرنا چاہئے تھا کہ اپوزیشن حکومت کی اصلاح اور ملک کو درپیش مسائل کے حل میں کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کی بجائے قانون سازی کے عمل میں اختلاف رائے کو بلا تخصیص اپوزیشن لیڈروں کی ’ملک دشمنی‘ کا نعرہ بنانے سے حکومت کا اپنا اخلاص مشکوک ہوتا ہے۔

دوسری طرف اپوزیشن کی طرف سے جو اعلانات اور اشارے سامنے آئے ہیں، ان میں بھی فی الوقت کوئی ایسی بات نہیں کی گئی جس سے یہ امید کی جاسکے کہ اتوار کو اسلام آباد کی میریٹ ہوٹل میں منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس تقریروں اور نعروں سے آگے بڑھ سکے گی۔ نواز شریف اور آصف زرداری کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر اپوزیشن 2006 میں میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان طے پانے والے میثاق جمہوریت طرز کی کسی دستاویز یا معاہدے پر متفق ہونے میں کامیاب ہوجائے تو اس سے ملک میں جمہوری سیاست کی تاریخ کو ایک نیا موڑ ضرور دیا جاسکتا ہے۔ درحقیقت حالات کا تقاضہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں عمران خان کے استعفیٰ پر اصرار کی بجائے میثاق جمہوریت۔2 پر اتفاق کرنے کی کوشش کریں اور اس میں ان نکات کو شامل کیا جائے جو بوجوہ پہلے میثاق جمہوریت کا حصہ نہیں بن سکے تھے۔

اس وقت ملک کو ایسے کسی میثاق کی شدید ضرورت ہے۔ ایسی ہی کسی دستاویز کی بنیاد پر ملک میں جمہوری حقوق کی جدو جہد کو سمت دی جا سکتی ہے۔ خاص طور سے اس نئے سیاسی معاہدے میں اگر درج ذیل نکات پر اتفاق کیا جا سکے تو واقعی ملکی سیاست میں طوفان برپا ہوسکتا ہے۔ یہ نکات درج زیل بنیادوں پر استوار ہوسکتے ہیں:

1۔وقت کی اہم ترین ضرورت ملکی پارلیمانی سیاست کو اداروں کی مداخلت اور سرپرستی سے نجات دلانا ہے۔ اس مقصد کے لئے ضروری ہوگا کہ جمہوریت کی دعوے دار سب سیاسی جماعتیں اپنی صفوں کو ایسے تمام عناصر سے پاک کرنے کا عزم کریں جو ’مفاہمت‘ کے نام پر عسکری اداروں سے کسی ایسی افہام و تفہیم کی خواہش کا اظہار کرتے رہتے ہیں جو 1973 کے آئین سے متصادم ہے۔

2۔سب سیاسی جماعتیں جمہوریت کی بالادستی کے لئے اس بات کا عہد کریں کہ وہ اپنی صفوں میں نام نہاد الیکٹ ایبلز کو قبول کرنے سے انکار کریں گی۔ یہ عناصر اداروں کا آلہ کار بن کر ہر دور میں جمہوری حکومتوں کے لئے مشکلات کا سبب بنتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود سب سیاسی جماعتوں نے ان عناصر کے لئے اپنے دروازے کبھی بند نہیں کئے۔ اب اس اقدام کا وقت آگیا ہے۔

3۔سیاسی پارٹیاں جس جمہوریت کو ملک میں نافذ العمل کرنا چاہتی ہیں، اس کا اطلاق سب سے پہلے تمام جماعتوں کے اپنے ڈھانچوں پر کیاجائے۔ جمہوری روایت سے سیاسی جماعتوں میں نئے خیالات سامنے آسکیں گے اور نئی قیادت کو قومی ذمہ داریاں پوری کرنے کا موقع ملے گا۔

4۔ نت نئے الزامات کے ذریعے گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاست دانوں پر عوام کے اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے۔ ان میں سے سب سے مؤثر اور خطرناک بدعنوانی اور لوٹ مار کے الزامات ہیں۔ ملک کے تقریباً ہر سیاست دان کو ایسے الزامات اور مقدمات کا سامنا ہے اور عدالتی کارروائیوں کے بارے میں سیاسی انتقام کا جوابی الزام سننے میں آتا ہے۔ ایک باقاعدہ معاہدے کے ذریعے اپوزیشن پارٹیاں یہ عہد کرسکتی ہیں کہ کسی تبدیلی کی صورت میں ملک میں سیاسی لیڈروں کے خلاف دہائیوں سے قائم کرپشن کے تمام مقدمات کے فیصلے کرنے کے لئے خود مختار اور سرکاری اثر و رسوخ سے پاک ایسے کمیشن یا اعلیٰ اختیاراتی عدالتیں قائم کی جائیں گی جو شواہد اور دستاویزات کی بنیاد پر تمام مقدمات کو ایک خاص مدت میں طے کریں۔ سیاست دان عہد کریں کہ ایسا کوئی انتظام ہونے کی صورت میں اس میثاق میں شامل ہر پارٹی اور لیڈر رضاکارانہ طور پر اپنے وسائل اور املاک کے بارے میں تمام معلومات ایسے کمیشن یا عدالت کو پیش کرے گا۔ اس طریقے سے ملکی سیاست پر کرپشن نے نام سے تھوپی گئی غلاظت کو صاف کیا جاسکتا ہے۔

اپوزیشن کو یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ عمران خان مسائل کی جڑ نہیں ہے۔ وہ تو اقتدار کا خوہاں ایک عام سا انسان ہے۔ اس لئے وزیر اعظم کو ہٹانے یا حکومت گرانے کا مطالبہ کرنا کسی مسئلہ کو حل نہیں کرے گا۔ مسائل کی بنیاد وہ نظریہ ہے جو ملک کے اداروں نے ملکی نظام پر مسلط کیا ہے۔ یہ نظریہ ایک خاص انداز میں قومی مفاد کا تعین کرتا ہے اور پھر افواج کو ان ’نظریاتی سرحدوں‘ کا محافظ قرار دیتا ہے۔ اسی نظریہ کے بطن سے وہ تمام علتیں جنم لیتی ہیں جو ملک میں غیرجمہوری روایات کے فروغ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سبب بنی ہیں۔ ملک میں ایسا متبادل سیاسی نظریہ متعارف کروانے کی ضرورت ہے جو شہری حقوق کی ضمانت دے اور ملکی مفاد کی اونرشپ منتخب پارلیمنٹ کے حوالے کر سکے۔

اسلام آباد میں منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس اگر ان خطوط پر کوئی پیش رفت کرنے میں کامیاب ہو گئی تو عمران خان کو ہٹانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ درست سیاسی نظریہ کی بنیاد پر استوار نظام میں ایسے لوگ پیدا ہونا بند ہو جائیں گے جو صرف اقتدار کے لئے سیاست کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali