مرتضیٰ بھٹّو: ذوالفقار علی بھٹّو کے ’حقیقی سیاسی جانشین‘ جو اپنی ہی بہن بےنظیر کے دورِ حکومت میں مارے گئے


مرتضیٰ بھٹوKeystone/Hulton Archive/Getty Imagesذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے دوسرے دن ان کے بیٹے مرتضیٰ بھٹو نے لندن میں ایک پریس کانفرنس کی (یہ اسی دن کی تصویر ہے)

’وزیر اعظم کے صرف ایک پیر میں چپّل تھی، دوسرے میں نہیں۔۔۔ وہ بھی بےنظیر بھٹّو جیسی وزیراعظم۔۔۔‘

یہ منظر ہے 20 ستمبر 1996 کی اس رات کا جب پاکستان کی اُس وقت کی وزیراعظم بےنظیر بھٹّو اپنے بھائی میر مرتضیٰ بھٹّو کی موت پر شدّتِ غم سے نڈھال ہو کر کراچی کے متموّل علاقے کلفٹن کے ’مڈ ایسٹ‘ ہسپتال پہنچی تھیں۔

42 سالہ مرتضیٰ بےنظیر کی ہسپتال آمد سے چند گھنٹے قبل ہی اپنے محافظین اور پولیس اہلکاروں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے میں چار گولیاں لگنے کے بعد شدید زخمی حالت میں ہسپتال لائے گئے تھے اور طبّی امداد فراہم کیے جانے کے دوران دم توڑ گئے تھے۔

لیکن کیا یہ انتہائی متنازع اور ہمیشہ پراسرار سمجھی جانے والی کارروائی واقعی پولیس مقابلہ تھا، یا مرتضیٰ بھٹّو کا قتل ایک سوچی سمجھی سازش تھا؟

یہ اور ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات میں اور میری طرح اس واقعے کو رپورٹ کرنے والے صحافی، دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ، کراچی پولیس سے لے کر برطانوی پولیس (سکاٹ لینڈ یارڈ) تک کے تمام تفتیشی افسران، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام، عدالتیں، تحقیقاتی کمیشن اور سب سے بڑھ کر بھٹّو خاندان 24 برس سے تلاش کر رہے ہیں۔

اس کہانی پر موقف جاننے کے لیے مرتضیٰ بھٹّو کے خاندان خاص طور پر غنویٰ بھٹّو سے رابطے کی بارہا کوششیں کی گئیں مگر نہ تو وہ دستیاب ہو سکیں اور نہ ہی فون پر بھیجے گئے کسی پیغام کا جواب دیا گیا۔

مرتضیٰ بھٹّو کیسے، کن حالات میں اور کیوں ہلاک ہوئے؟ یہ جاننے کے لیے بھٹّو خاندان کی نجی اور سیاسی زندگی پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے، ورنہ شاید یہ کہانی سمجھ میں نہ آئے۔

18 ستمبر 1954 کو پیدا ہونے والے میر غلام مرتضیٰ بھٹّو پاکستانی سیاستدان ذوالفقار علی بھٹّو کی دوسری اولاد اور بڑے صاحبزادے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹّو کی پہلی شادی 1943 میں شیریں امیر بیگم سے اور دوسری شادی 1951 میں کرد نژاد ایرانی نصرت بھٹّو سے ہوئی۔ ذوالفقار اور نصرت بھٹّو کے چار بچّے تھے جن میں بے نظیر بھٹّو، میر مرتضیٰ، صنم بھٹّو اور شاہنواز بھٹّو شامل تھے۔

مرتضیٰ بھٹّو نے کراچی گرامر سکول سے ابتدائی تعلیم کے بعد پہلے امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی اور پھر برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی۔

پانچ جولائی 1977 کو پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل ضیا الحق نے مرتضیٰ کے والد اور پاکستان کے نویں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹّو کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا نافذ کیا اور جب 16 ستمبر 1977 کو ذوالفقار بھٹّو کو گرفتار کیا گیا تو انھوں نے میر مرتضیٰ کو ملک سے باہر بھیج دیا۔

چار اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹّو کو پھانسی دے دی گئی جبکہ جنرل ضیا کی فوجی حکومت نے نصرت بھٹّو اور بے نظیر بھٹّو کو گرفتار کر لیا اور یہ دونوں خواتین طویل عرصے تک اسیر اور نظر بند رکھی گئیں۔

’الذولفقار‘ کا قیام

جب ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دی گئی تو مرتضیٰ اور شاہنواز بھٹو لندن کے ایک فلیٹ میں رہ رہے تھے۔ اس کے علاوہ دونوں بھائیوں نے افغانستان اور شام سمیت کئی دیگر ممالک میں بھی وقت گزارا۔

افغانستان میں قیام کے دوران مرتضیٰ اور شاہنواز نے اپنے والد کا تختہ الٹے جانے کا انتقام لینے کے لیے (مبیّنہ طور پر) ’الذوالفقار‘ نامی تنظیم قائم کی۔ اس تنظیم میں پیپلز پارٹی اور اس کی ذیلی طلبہ تنظیم پی ایس ایف کے ارکان شامل تھے۔

اُس وقت کے اخبارات کے جائزے، سیاستدانوں، پولیس اور سرکاری اداروں کے موجودہ و سابق افسران کی غیر رسمی گفتگو کے مطابق ’الذوالفقار‘ مرتضیٰ بھٹّو یا اُن کے ساتھیوں نے قائم کی یا نہیں، مگر یہ تنظیم وجود ضرور رکھتی تھی اور پاکستان کے ریاستی اداروں کے پاس اطلاعات اور شواہد تھے کہ ’الذوالفقار‘ کے رابطے انڈین اور افغان خفیہ اداروں سے بھی تھے۔

’الذوالفقار‘ نے مزاحمت کے لیے مسلّح جدوجہد کا راستہ اپنایا اور دو مارچ 1981 کو پی آئی اے کی پشاور جانے والی پرواز PK-326 کو ہائی جیک کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔

کراچی سے پشاور کے لیے روانہ ہونے والی یہ فلائٹ کابل لے جائی گئی جہاں فوجی افسر میجر طارق رحیم کو جہاز پر ہی قتل کر کے اُن کی لاش رن وے پر پھینک دی گئی۔ ان ہائی جیکرز نے جنرل ضیا کی فوجی حکومت کو دھمکی دی کہ جن 53 افراد کی رہائی کا وہ مطالبہ کر رہے تھے، اگر انھیں رہا نہ کیا گیا تو جہاز میں سوار تمام 143 افراد کو ہلاک کر دیا جائے گا۔ 13 دن تک جاری رہنے والی یہ ہائی جیکنگ اس وقت ختم ہوئی جب ہائی جیکرز کے مطالبات کی منظوری کے بعد مسافروں کو رہا کر دیا گیا۔

مرتضیٰ بھٹّو کا خاندان، خاص طور پر اُن کی صاحبزادی فاطمہ بھٹّو، ہمیشہ ’الذولفقار‘ کی مسلّح کارروائیوں یا اُن سے مرتضیٰ بھٹّو کی وابستگی کی تردید اور دفاع کرتے رہے ہیں اور اس الزام کو تسلیم کرنے پر کبھی تیار دکھائی نہیں دیے۔

دوسری جانب مرتضیٰ بھٹّو کی بہن بےنظیر بھٹّو والدہ کے ساتھ پارٹی کی شریک سربراہ کے طور پر پارٹی کی قیادت اور سیاسی جدوجہد کرتی رہیں اور 17 اگست 1988 کو طیارے کے حادثے میں فوجی آمر جنرل ضیا کی ہلاکت کے بعد 16 نومبر 1988 کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں بےنظیر پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن گئیں۔

پارٹی میں دھڑا بندی اور بہن، بھائی کے درمیان اختلافات

اس دوران پیپلز پارٹی کی اندرونی کشمکش بھی پورے زور و شور سے جاری رہی۔ بےنظیر کو اپنی جماعت کے بعض ناراض ارکان کا سامنا رہا جن کا موقف تھا کہ انھوں نے اقتدار کو فوقیت دیتے ہوئے اپنے والد ذوالفقار بھٹّو کی سیاسی روش ترک کر دی ہے اور پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتہ کر لیا۔

خود اُن کے بھائی مرتضیٰ بھٹّو کا موقف بھی یہی رہا کہ بےنظیر اور ان کے شوہر آصف زرداری کی پالیسیوں کی وجہ سے پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور یہ اب ذوالفقار علی بھٹّو کی پیپلز پارٹی نہیں رہی۔

پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل بھی بہن بھائی کی درمیان اختلاف کو تسلیم کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا: ’اختلاف تھا مگر آخری دنوں میں بہت کم رہ گیا تھا اور دونوں جانب بے انتہا لچک پیدا ہو گئی تھی۔ بےنظیر بھٹّو ’پرچی‘ کے ذریعے تبدیلی پر یقین رکھتی تھیں اور جمہوری طریقوں کی بات کرتی تھیں۔ بی بی ڈیل نہیں ڈائیلاگ کرتی تھیں۔ ڈیل کا تاثر قطعاً نہیں تھا۔‘

عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ ’بعد میں مرتضیٰ بھٹّو بھی یہ مان گئے تھے اور خود بھی سیاسی نظام کا حصّہ بنے، الیکشن لڑا اور پارلیمانی طرز سیاست اختیار کی۔ مگر وہ کبھی ’برچھی‘ کی بھی بات کرتے تھے اور ان کی طرز سیاست جارحانہ انداز لیے تھی اور ظاہر ہے کہ اس کی وجوہات بھی تھیں۔ ان کے والد اور بھائی کا قتل ہوا تھا۔‘

مرتضیٰ بھٹّو اور اُن کے ساتھیوں کا خیال رہا کہ آصف زرداری سے شادی کے بعد بےنظیر بھٹّو جب پہلی بار وزیر اعظم بنیں تو عہدوں اور وزارت پر فائز بعض ارکان کی مبینہ بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔

اس موقف کو رد کرتے ہوئے قادر پٹیل نے کہا ’کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ سیاست میں تو آپ مخالفت کرتے ہی ہیں ان کے خاندان میں کوئی خلیج نہیں تھی۔‘

مگر مرتضیٰ بھی بےنظیر اور آصف زرداری پر کھلے عام تنقید کرتے اور پریس کانفرنس ہو یا جلسے جلوس، وہ اپنی بہن کی حکومت کی پالیسیوں، طرزِ سیاست اور مبینہ بدعنوانیوں پر کڑی نکتہ چینی کرنے سے نہیں چوکتے تھے۔

عبدالقادر پٹیل کہتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا جب مرتضیٰ بھٹّو ’انتہائی مطلوب شخص‘ بھی تھے، پھر وہی مرتضی بھٹّو پاکستان آ کر الیکشن بھی لڑتے ہیں۔ ’تو بہت ساری چیزیں تبدیل ہوتی ہیں۔‘

پیپلز پارٹی کے بعض سخت گیر عناصر میں یہ سوچ بھی پروان چڑھی کے دراصل بےنظیر کے بجائے مرتضیٰ بھٹّو ہی کو ذوالفقار بھٹّو کا سیاسی جانشین ہونا چاہیے۔

پارٹی کی اسی اندرونی کشمکش کے نتیجے میں بے نظیر بالآخر اپنی والدہ کو عہدے سے ہٹاتے ہوئے خود پارٹی کی مکمل سربراہ منتخب ہو جانے میں کامیاب ہوئیں۔

مگر پارٹی میں ناراض ارکان کی سوچ پھر بھی باقی و برقرار رہی اور ان عناصر نے مرتضی بھٹّو کی قیادت میں پیپلز پارٹی (شہید بھٹّو گروپ) کے نام سے نئی سیاسی جماعت یہ موقف اختیار کرتے ہوئے قائم کی کہ دراصل یہی ذوالفقار بھٹّو کی اصل جماعت ہے۔

بالآخر خود نصرت بھٹّو نے بھی اپنے بیٹے مرتضی کی حمایت کا اعلان کیا اور اس وقت تک ان کی حمایت کرتی رہیں جب تک وہ شدید بیماری کی وجہ سے عوام کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہو گئیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ پر کلک کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp