فیٹف: ماضی کے فریب سے باہر نکلا جائے


افغانستان اور پاکستان کے تعلقات یوں تو 1947 سے ہی مد و جزر کا شکار رہے ہیں لیکن 1978 میں افغانستان میں بائیں بازو کے انقلاب کے بعد افغانستان میں مداخلت کے فیصلے نے پاکستان کے داخلی سیاسی، معاشی اور سماجی زندگی پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔

افغانستان میں بائیں بازو کی غیر مقبول بغاوت نے افغانستان میں دیرینہ معاشرتی اور ثقافتی اقدار کو چیلنج کیا تھا۔ افغانستان میں بائیں بازو کے نظریات کو سیاسی یا معاشرتی بنیاد پر کبھی قبولیت حاصل نہیں تھی۔

افغان فوج کے ذریعے برپا کی گئی بغاوت کو صرف دو چھوٹے شہری گروپوں کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن عوامی سطح پر بائیں بازو کو وہ غیر معمولی حمایت حاصل نہیں ہو سکی جو کسی کامیاب انقلاب کے لیے درکار ہوتی ہے۔

افغانستان جیسے قبائلی ملک میں صرف دارالحکومت پر قبضہ کر لینے سے پورے ملک میں انقلاب نہیں لایا جا سکتا تھا۔ اس غیر فطری انقلاب کے نتیجے میں بغاوتوں اور خانہ جنگی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا جس میں بے پناہ جانیں ضائع ہوئیں، جان سے جانے والوں میں خود بائیں بازو کے رہنما اور کارکن بھی شامل تھے۔ آپس کے اختلافات سے بائیں بازو کی محدود حمایت تقریباً ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ دوسری طرف افغانستان کی اندرونی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوششوں نے پاکستان کو نسل در نسل جاری تنازعہ کی دلدل میں دھکیل دیا۔

ظاہر شاہ اور داؤد کے دور میں پاکستان حکومت کے کچھ مخالفین کو افغانستان میں پناہ دی گئی تھی جس کے جواب میں پاکستان نے داؤد حکومت کے مخالفین کو پاکستان میں پناہ دی۔ مگر یہ اقدامات ہمیشہ مخصوص سطح تک محدود تھے اور 1960 کے قریب پیش آنے والے واقعات کے استثنا کے ساتھ دونوں حکومتیں سفارتی سطح پر معمول کے مطابق کام جاری رکھتی تھیں۔

1978 میں داؤد حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد تعلقات تیزی سے خرابی کی طرف بڑھنے لگے۔ نئی افغان حکومت نے اندرونی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے پاکستان سے جاری پرانے حل طلب سرحدی تنازعوں پر زیادہ زور دینا شروع کر دیا۔ ڈیورنڈ لائن اور پشتونستان پر ایک زور دار پروپیگنڈا مہم شروع ہو گئی۔ پاکستان سے بھی جوابی کارروائی میں مختلف گروپوں کی حمایت شروع کر دی گئی۔

جلد ہی حالات ایسے مقام پر پہنچ گئے کہ کابل حکومت نے سویت یونین سے فوجی مدد کی درخواست کر دی۔ سوویت افواج کے آنے بعد امریکہ کو بھی خطہ میں مداخلت کا موقع مل گیا۔ کچھ عرصہ قبل شایع ہونے والے ڈاکومنٹس سے یہ بات واضح ہوئی کہ سویت یونین اپنی فوجیں بھیجنے کے فیصلے پر خود بھی کچھ زیادہ مطمئن نہیں تھا۔

طالبان کی تحریک پاکستان نے منظم کی اور افغانستان میں طالبان حکومت کی حمایت پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی جزو تھی۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان سے فرار ہونے والے کچھ جنگجوؤں نے افغان سرحد کے ساتھ ملحق پاکستان کی قبائلی پٹی میں پناہ حاصل کر لی۔

پاکستان کے شمال مغربی سرحدی علاقے میں قدامت پسند ”قرآن بیلٹ“ میں طالبان کو خاطر خواہ حمایت حاصل ہے اور کچھ پشتون قبائلیوں نے طالبان جنگجوؤں اور القاعدہ کے ارکان کو فرار میں مدد دینے کے لیے سیکیورٹی کور بھی فراہم کیا ہے۔ اس صورت حال سے پاکستان میں موجود غیر ملکی مشنوں اور مذہبی اقلیتوں کو بھی سیکیورٹی خطرات لاحق ہو چکے ہیں لیکن پاکستانی حکام اس پہلو کی طرف زیادہ سنجیدگی سے توجہ دینے کے لیے مائل نظر نہیں آتے۔

پاکستان اسلامی عسکریت پسندوں کے محاصرے میں ضرور ہے لیکن ان کے قبضے میں نہیں جا سکا ہے۔ پاکستان اب بھی ایک اعتدال پسند اسلامی ملک ہے، لیکن ملک میں متشدد اسلامی عسکریت پسندوں کی بڑھتی ہوئی قوت بھی موجود ہے۔ فوج کی گرفت اب بھی مضبوط ہے لیکن کلیدی عسکریت پسند گروہوں کی سرپرستی کی وجہ سے وہ ان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہیں کر سکتی۔ افغانستان اور کشمیر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اہداف کو آگے بڑھانے کے لئے عسکریت پسند گروپوں اور مذہبی جماعتوں کی سرپرستی کا عنصر اہم رہا ہے۔

نمایاں بین الاقوامی دباؤ کے باوجود، پاکستان نے ان پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کے بجائے صرف عالمی دباؤ کو کم کرنے کے لئے بے دلی سے کچھ اقدامات کیے ہیں۔

افغانستان کے 40 سال طویل سائے کے تجربوں کے باعث اسٹیبلشمنٹ کی حکمت عملیوں میں بھی چند تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن کے نفاذ کے لئے انٹیلی جنس تنظیموں کو آگے لایا گیا ہے۔ اس طرح پاکستان ایک سیکورٹی اسٹیٹ سے انٹیلی جنس اسٹیٹ میں موثر طریقے سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ریٹائرڈ جنرل شاہد عزیز نے 2013 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب میں اس رجحان کا حوالہ دیتے ہوئے مسلح افواج اور انٹیلی جنس جمع کرنے والے اداروں کے مابین فرق واضح کیا تھا۔ انہوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ہیڈ کوارٹر اور انٹیلی جنس تنظیمیں الگ الگ ادارے ہیں۔

سنہ 2001 کے واقعات نے افغانستان میں پاکستان کے کردار کو بدل دیا ہے۔ گو کہ پاکستان نے امریکہ سے معاہدہ اور وعدہ کیا کہ وہ عسکریت پسندوں کی حمایت نہیں کرے گا لیکن کچھ طاقتور عناصر سخت فیصلوں کی راہ میں شدید رکاوٹ بنے رہے اور عسکریت پسندی کو کمزور کرنے میں ریاست زیادہ کامیاب نہیں ہو سکی۔ پاکستان نے امریکہ کی مدد سے ایجنسیوں کے کردار، معلومات اکٹھا اور اس کا تجزیہ کرنے نیز فیصلہ ساز اداروں میں کچھ حد تک تبدیلی کی ہے مگر بنیادی پالیسی میں کوئی نمایاں تبدیلی اب تک نہیں آ سکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف (فیٹف) جیسے فورم میں پاکستان کی پالیسیوں پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔

امریکہ، چین، ہندوستان، روس، یورپ اور عرب ملکوں کے باہمی اختلافات اپنی جگہ لیکن عسکریت اور شدت پسندی کے خلاف ان سب کا موقف یکساں ہے۔ کسی جانب سے غیر مشروط حمایت کی توقع کرنا بے سود ہو گا۔ اس لیے دانشمندی کا تقاضا ہے کہ ماضی کے فریب سے باہر نکلا جائے اور درست سمت میں آگے بڑھنے میں تاخیر نہ کی جائے ورنہ ایسا نہ ہو کہ دنیا میں جو بچے کھچے دوست باقی رہ گئے ہیں، ان سے بھی محروم ہونا پڑ جائے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).