نواز شریف نے جو کیا وہی بھگتا


نواز شریف کی آج کی آل پارٹیز کانفرنس میں تقریر دلچسپ تھی۔ اس میں بعض نکات شکوے شکایت پر مبنی تھے، مگر کیا وہ ان معاملات میں بڑی حد تک خود قصور وار نہیں ہیں؟ عدالتوں کے ہر ڈکٹیٹر کی حمایت کرنے اور بغاوت کو جائز قرار دینے کا شکوہ کرنے والے یہ بھی تو بتائیں کہ یہ جج تعینات کرتے وقت انہوں نے کیا سوچا تھا؟ کیا ایسے جج تعینات کرنے کا سوچا تھا جو جبر کے زمانے میں بھی حکومت وقت کی بجائے قانون کا ساتھ یقینی طور پر دیں؟ اس وقت تو انہیں بہت شوق تھا کہ جی ہمارا حامی جج تعینات ہو، جو ہمارے خلاف فیصلہ نہ دے۔ پھر ایسے جج تو حکومتِ وقت کا ہی ساتھ دیں گے۔ حکومت مشرف کی ہو گی تو اسے آئین میں تین برس کی من مانی تبدیلی کا اختیار بھی دیں گے۔ جج تعینات کرتے وقت یہ یقینی بنانا ہو گا کہ وہ حکومت نہیں بلکہ قانون کے ساتھ کھڑے ہونے کا ریکارڈ رکھتے ہوں۔

ایک عبرتناک مثال ثاقب نثار کی ہے جنہیں نواز شریف نے لاہور ہائی کورٹ کا جج جس میرٹ پر بنایا تھا وہی ان کے سامنے آیا۔ ججوں کی تعیناتی اور احتساب کا جو طریقہ میثاق جمہوریت میں طے کیا گیا تھا اس سے انحراف کیوں کیا گیا؟ تمام سپیشل کورٹس بشمول احتساب عدالتیں ختم کرنے کا عزم کیا ہوا؟ پھر وہی احتساب عدالتیں میاں صاحب کے لیے عبرتناک عدالتیں ثابت ہوئیں اور ثاقب نثار بھی میاں صاحب کی خواہش کے برعکس ان پر نثار نہ ہوئے بلکہ انہوں نے اپنا ممدوح کسی اور کو جانا۔

نواز شریف کہتے ہیں کہ کیا میں یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ آر ٹی ایس کس کے حکم پر بند رکھا گیا، گنتی کے وقت پولنگ ایجنٹس کو کیوں باہر نکالا گیا۔ کیا ہم نواز شریف اور آصف زرداری سے یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ وہ انتخابات فوج کی نگرانی میں کروانے پر آمادگی کیوں ظاہر کرتے ہیں؟ سنہ 2013 میں کراچی میں اے پی سی میں شریک اکیس میں سے سترہ جماعتوں بشمول مسلم لیگ نون نے پولنگ سٹیشنز اور بوتھ پر فوج کی تعیناتی کا مطالبہ کیا۔ پیپلز پارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم خاموش رہیں۔ سنہ 2018 میں پانامہ کیس کے بعد قائد نواز شریف نے انتخابات فوج کی نگرانی میں کرانے کی مخالفت کی۔ کیا انہوں نے باقی سیاسی جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی کو ساتھ ملا کر اس مخالفت کو وزن دینے کی کوشش کی؟ اگر مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی اس کی مخالفت کرتیں تو کیا انتخابات کروانا ممکن ہوتا؟

نواز شریف کی تقریر میں آٹے چینی ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے اور عوامی بیروزگاری کا ذکر بھی کیا گیا۔ شکر ہے کہ کسی لیڈر نے عوامی مشکلات کا ذکر تو کیا ورنہ عوام تو مایوس ہو چلے تھے کہ نہ حکومت اور نہ ہی اپوزیشن ان کے معاملات میں دلچسپی رکھتی ہے۔

نواز شریف نے اعتراف کر لیا کہ ڈکٹیٹر کے بنائے ہوئے نیب کو قائم رکھنا غلطی تھی، لیکن انہیں خیال ہی نہیں تھا نیب اس حد تک گر سکتا ہے۔ نواز شریف کا مسئلہ ان کی یہی کوتاہ نظری ہے۔ آصف زرداری اور پیپلز پارٹی عموماً کہیں زیادہ دانشمند ثابت ہوتے رہے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے وقت نواز شریف اپوزیشن میں تھے۔ پیپلز پارٹی نے کوشش کی تھی کہ نیب قانون اور اور باسٹھ تریسٹھ کو ختم کرنے کیا جائے جو نون لیگ کے انکار کے سبب ممکن نہیں ہوا۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے انہیں یہ دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ جب وہ حکومت میں آئیں گے تو خود بھی انہیں بھگتیں گے، بظاہر انہیں یہی لگ رہا تھا کہ یہ سب پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال ہو گا۔ انہوں نے باسٹھ تریسٹھ کے ذریعے اپنی وزارت عظمیٰ گنوائی اور نیب قانون کی بنیاد پر مجرم ٹھہرے۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران انہوں نے جس طرح جمہوریت دشمنی کی اور کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے، اس سے صرف پیپلز پارٹی کی حکومت کمزور نہیں ہوئی بلکہ ان کی اپنی مستقبل کی حکومت بھی کمزور پڑی۔ وہ سیاسی قوتوں کے خلاف ایک بڑا وار تھا۔ جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں انہوں نے آصف زرداری کے خلاف کام کیا، اور اس کا نتیجہ پھر انہوں نے ثاقب نثار کے چیف جسٹس بننے کے بعد بھگتا۔ بندہ جو بوتا ہے وہی اس کے سامنے آتا ہے۔

سنہ 2014 میں عمران خان کے دھرنے کے وقت نواز شریف کو پیپلز پارٹی اور دیگر تمام سیاسی جماعتوں نے حمایت فراہم کی۔ کیا انہوں نے اس کا فائدہ اٹھایا؟ کیا قومی اتفاق رائے پیدا کیا؟ انہوں نے تو کڑا وقت گزرتے ہی جس طرح آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کو تنہا چھوڑا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ آصف زرداری سے طے شدہ ملاقات کرنے سے وہ انکاری ہو گئے تھے۔

ڈان لیکس وغیرہ کا میاں صاحب نے ذکر کیا۔ کیا اس وقت انہوں نے دیگر سیاسی جماعتوں سے تعاون کی درخواست کی تھی؟ کیا انہوں نے سٹینڈ لیا تھا یا پھر پرویز رشید کو قربانی کا بکرا بنایا؟

ابھی گزشتہ دو برسوں میں ان کی جماعت کا سیاسی کردار کیا ہے؟ کیا انہوں نے اپوزیشن کا ساتھ دیا؟ کیا ان کی جماعت نے اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا کیا؟ کیا انہوں نے کسی عوامی مسئلے پر پارلیمان میں بات کی؟ کیا انہوں نے مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے والے واحد سیاست دان مولانا فضل الرحمان کو تنہا نہیں چھوڑا؟ کیا مختلف متنازع قوانین پر انہوں نے صدقے واری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ان کو اپنے ووٹ کی تائید فراہم نہیں کی؟

ٹھیک ہے کہ مشکل وقت میں عوام نواز شریف کا ساتھ نہیں دیتے لیکن کیا نواز شریف نے سوچا ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ ترکی میں فوج اور سیاست دانوں کی بعینہ پاکستان جیسی کشمکش رہی ہے، کیا نواز شریف نے سوچا ہے کہ ترکی میں عوام نے سیاست دانوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیوں کیا؟ رجب طیب ایردوان کے دور کے ابتدائی دس برس میں ترک عوام کی فی کس آمدنی پانچ گنا بڑھی تھی جس کے نتیجے میں عوام کی اکثریت ان کی بقا میں اپنی خوشحالی دیکھتی تھی، کیا نواز شریف نے اپنے عوام کے لیے ایسی کوئی سنجیدہ کوشش کی؟ کیا ایک عام آدمی کے حکومتی محکموں اور سرخ فیتے سے نجات کے لیے پر نواز شریف نے کوئی کام کیا؟

کیا الیکشن ریفارمز پر انہوں نے کوئی کام کیا؟ کیا سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت لانے کی کوشش کی؟ کیا مقامی حکومتوں کے نظام کو مستحکم کیا جہاں سے لیڈر شپ ابھر کر آئے؟ کیا طلبا کو سیاست میں واپس لائے جو تحریک پاکستان کے وقت سے کسی سیاسی تحریک کا ہراول دستہ ثابت ہوتے رہے ہیں؟ پھر وہ سڑک پر تنہا کیوں نہ ہوتے؟

آج نواز شریف کی اس تقریر کے بعد شریف خاندان اور نون لیگ کو اس کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ سفر آسان نہیں ہو گا۔ مگر کیا ان میں اتنا حوصلہ ہے کہ وہ اس راہ پر گامزن ہو سکیں؟ کہیں وہ ماضی کی طرح پلٹ تو نہیں جائیں گے اور ساتھ دینے والوں کو تنہا تو نہیں چھوڑیں گے؟ کیا وہ سیاسی قوتوں کی حمایت کریں گے یا انہیں بوقت ضرورت ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیں گے؟ بہرحال ان کی ہمت کو سلام ہے کہ وہ اپنی جماعت کی دو رنگی پالیسی ترک کر کے ایک واضح موقف تو سامنے لائے اور شہباز شریف کے موقف سے برات کا اظہار کرتے ہوئے مریم کے ساتھ کھڑے ہوئے۔

دوسری طرف انہیں عوام کی حمایت چاہیے تو انہیں عوام کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا اور کردار کا غازی بننا مشکل بھی ہو تو کم از کم گفتار کا غازی بن کر دکھانا ہو گا۔ ان کی ”گونگی بدمعاشی“ کسی کام کی نہیں۔ ایک واضح موقف اختیار کریں اور مسلسل کریں تاکہ عوام کو یہ احساس تو ہو کہ میاں صاحب خود بھی ووٹ کو عزت دیتے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar