دنیا کی صدیوں پرانی قدیم کاروباری کمپنیاں جاپان میں ہی کیوں ہیں؟


جاپان بدل رہا ہے۔ جاپانی معاشرہ بہت تیزی سے عمر رسیدہ ہو رہا ہے، یہاں تارکین وطن کا ایک سیلاب اُمڈ آیا ہے اور اب یہاں پہلے سے بہت زیادہ ربورٹس ہیں۔

اور یہ وہ موقع ہے جہاں ملک کی نوجوان آبادی سامنے آتی ہے۔

’جین جے‘ بی بی سی ورک لائف کی ایک نئی سیریز ہے جس کے ذریعے ہم آپ کو آگاہ کریں گے کہ کس طرح جاپان کی نئی نسل ملک کے مستقبل کی صورت گری کر رہی ہے۔

جاپان کے قدیم دارالحکومت کیوٹو کے خوابیدہ نواحی علاقے میں ایک گلی کے کونے پر بہتے دریا اور اس پر بنے پُل کے کنارے ’سوین ٹی‘ نامی چائے خانہ ہے۔

کیوٹو اپنے غیر معمولی مزارات، مندروں اور باغات کی وجہ سے جانا جاتا ہے جہاں سیاحوں کی کثیر تعداد ہاتھوں میں سیلفی سٹکس لیے گھومتی پھرتی نظر آتی ہے۔

ایسے شہر میں سوین ٹی ایک ایسی پُرسکون جگہ ہے جہاں بیٹھ کر آپ آئس کریم یا سبز چائے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

سوین ٹی کے بارے میں کچھ خاص بات ہے۔

یہ چائے خانہ سنہ 1160 میں معرض وجود میں آیا تھا اور اس کے منتظمین کا دعویٰ ہے کہ یہ دنیا کا سب سے قدیم چائے خانہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کارلوس غصن جاپان سے کس طرح فرار ہوئے؟

دنیا بھر سے لوگ ٹیٹو بنوانے جاپان کیوں جا رہے ہیں؟

جاپان اپنے ہوٹل کس طرح از سر نو ایجاد کر سکتا ہے؟

آج کل اس کا انتظام و انصرام 38 سالہ یوسوکی سوین چلا رہے ہیں جو کاؤنٹر کے عقبی حصے میں ایک فرشی نشست پر آلتی پالتی مارے بیٹھے ہیں اور چائے کی کیتلیوں سے گرین ٹِی پیالیوں میں انڈیل انڈیل کر دے رہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم نے صرف چائے پر اپنی توجہ مرکوز کی اور اپنے اس کاروبار میں کبھی توسیع نہیں کی۔ ہمارے اس کاروبار کے اتنے طویل عرصے سے قائم و دائم رہنے کی یہی ایک وجہ ہے۔‘

ہو سکتا ہے کہ یہ اتنی حیرت کی بات نہ ہو کہ یہ 900 سال قدیم چائے خانہ ایک ایسے شہر میں اپنا وجود صدیوں سے برقرار رکھے ہوئے ہے جو روایت اور دستکاری کے لیے جانا پہچانا جاتا ہو۔

مگر یہ باعثِ حیرت ضرور ہے کہ سوین ٹی جاپان میں واحد کاروبار نہیں ہے جو اس قدر قدیم ہے۔

سنہ 2008 میں بینک آف کوریا نے دنیا کے قدیم کاروباری اداروں پر ایک رپورٹ مرتب جس میں پتا چلا کہ دنیا بھر کے 41 ممالک میں 5586 کمپنیاں ایسی ہیں جو 200 سال سے زیادہ پرانی ہیں۔ اور ان 200 سال سے زائد قدیم کمپنیوں میں سے 56 فیصد جاپان میں ہیں۔

ریسرچ کمپنی ’ٹیکوکو ڈیٹا بینک‘ کے مطابق سنہ 2019 میں جاپان میں 33 ہزار سے زائد ایسی کمپنیاں اور کاروبار اپنا وجود رکھتے تھے جو ایک صدی یعنی 100 سال سے زیادہ قدیم ہیں۔

سنہ 705 سے قائم کردہ دنیا کا قدیم ترین ہوٹل ’یامانسی‘ اور سنہ 1000 میں بننے والی مٹھائیوں کی دوکان ’ایچیمونجیا وسوکی‘ کیوٹو میں ہی موجود ہیں۔

اوساکا سے تعلق رکھنے والی بڑی تعمیراتی کمپنی ’تاکیناکا‘ کی بنیاد سنہ 1610 میں رکھی گئی تھی۔

جبکہ عالمی سطح پر مشہور جاپانی برانڈز جیسا کہ ’سنٹوری‘ اور ’نیٹینڈو‘ کی تاریخ کا سلسلہ بھی 18ویں صدی تک محیط ہے۔

لیکن جاپان کے بارے میں ایسا کیا ہے جو یہ اتنے دیرپا کاروباری اداروں کی بنیاد رکھتا ہے؟ اور کیا اس میں کچھ ایسا ہے جس سے ہم بھی کچھ سیکھ پائیں؟

’روایات کا احترام‘

کیوٹو یونیورسٹی کے گریجوئیٹ سکول آف مینیجمینٹ کے سربراہ پروفیسر یوشینوری ہارا نے بتایا کہ جاپان میں 100 سال سے زائد قدیم کاروبار کو ’شینیسی‘ کہا جاتا ہے جس کا لفظی مطلب ’پرانی دکان‘ ہے۔

پروفیسر ہارا ایک دہائی سے زائد عرصہ تک سیلیکان ویلی سے وابستہ رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ جاپانی کمپنیاں تیزی سے اور زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی بجائے استحکام اور دیرپا ہونے پر زیادہ زور دیتی ہیں اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ جس کی وجہ سے ملک کے زیادہ تر کاروبار اپنی جگہ طویل عرصے تک کھڑے رہتے ہیں۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے پروفیسر کا کہنا تھا کہ ’جاپان میں اس بات کا بہت دھیان رکھا جاتا ہے کہ آگے کیسے بڑھا جائے۔ اور آگے بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ کمپنی یا کاروبار اپنے بچوں اور پھر ان کے بچوں کو کیسے منتقل کیا جائے؟‘

سوین ٹی کو چلانے والے یوسوکی سوین کہتے ہیں کہ وہ کیوٹو میں موجود اپنے بہت سے بچپن کے ایسے دوستوں کو جانتے ہیں جو ایسے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو صدیوں پرانی خاندانی کمپنیوں اور کاروباروں کو چلا رہے ہیں۔

یوسوکی کے لیے خاندانی پیشے کو اپنانا کسی بھی سوال سے بالاتر ہے۔ ’یہ وہ کاروبار نہیں ہے جو میں نے شروع کیا تھا بلکہ میں اُس کاروبار کو چلا رہا ہوں جس کی داغ بیل میرے آباؤ اجداد نے ڈالی تھی۔ اگر میں اس کاروبار کا انتظام نہ سنبھالتا تو یہ خاندانی میراث ختم ہو جاتی۔‘

’جب آپ چھوٹے ہوتے ہیں، جیسا کہ کنڈرگارٹن یا ایلیمنٹری سکول میں، تو آپ سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ مستقبل میں کیا کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ میں اپنا خاندانی کاروبار سنبھالوں گا۔ یہ ایک فطری سوچ تھی۔‘

جاپان کے شہر اور قصبے صدیوں پرانے ہیں لہذا یہ چونکا دینے والی بات نہیں ہونی چاہیے کہ اس ملک میں بہت سے ایسی کمپنیاں اپنا وجود رکھتی ہیں جو صدیوں پرانی ہیں۔

یونیورسٹی آف واروِک کے بزنس سکول سے وابستہ اسٹنٹ پروفیسر اینان ساساکی کہتی ہیں کہ قدیم کمپنیوں کے قائم رہنے کی چند دیگر مخصوص وجوہات بھی ہیں۔

اینان ساساکی قدیم جاپانی کمپنیوں پر مضامین لکھتی رہی ہیں۔

’عام طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایسا طویل مدتی واقفیت کی وجہ سے ہے۔ روایات اور آباؤ اجداد کا احترام کرنے کی ثقافت کے باعث اور اس حقیقت کی وجہ سے کہ جاپان جزیرہ نما ہے جس کے ساتھ دیگر ممالک کے باہمی رابطے نسبتاً محدود ہیں۔‘

انھوں نے جاپانی لوگوں کی اس جبلت کی جانب بھی اشارہ کیا کہ ان کے پاس جو ہوتا ہے وہ اسے جتنا ممکن ہو اتنا زیادہ عرصے تک اپنے پاس رکھتے ہیں اور یہی معاشرتی جبلت مقامی کمپنیوں کے حوالے سے بھی ہے۔

ان قدیم کمپنیوں میں سے بیشتر چھوٹی کمپنیاں ہیں جو خاندان در خاندان چلتی آ رہی ہیں۔ یہ کمپنیاں کھانے پینے اور مہمان نوازی کے شعبے سے تعلق رکھتی ہیں۔

یہاں تک کے متعدد جاپانی کمپنیوں نے ملک میں رائج اس روایت، جاپانی مرد کارکنوں کو اپنے خاندان میں شامل کرنا، سے فائدہ اٹھایا ہے تاکہ جانشینی کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہاں تک کہ سوزوکی موٹرز اور ’پینا سانک‘ جیسی بڑی کمپنیاں بھی اس روایت سے مستفید ہوئی ہیں۔

’بنیادی مہارت اور کسٹمر سروس‘

کیوٹو میں ایک اور کمپنی بھی ہے جو اتنی پرانی تو نہیں ہے جتنی سوین ٹی مگر بڑی ضرور ہے۔

یہ ویڈیو گیم کمپنی ’نیٹینڈو‘ ہے جو عالمی سطح پر اپنی پہچان رکھتی ہے۔ اس کمپنی نے سنہ 1980 کی دہائی میں ہوم انٹرٹینمنٹ کو فروغ دے کر اپنا نام بنایا۔

شاید آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ کیونکہ یہ ایک ٹیکنالوجی سے متعلقہ کمپنی ہے تو یہ اتنی پرانی نہ ہو۔ مگر نیٹینڈو کی بنیاد سنہ 1889 میں رکھی گئی اور ابتدائی طور پر یہ تاش کے روایتی جاپانی کھیل ’ہانافوڈا‘ میں استعمال ہونے والے کارڈز بناتی تھی۔

تاش کے اس روایتی کھیل میں پھولوں کے نقش و نگار سے مزین تاش کے پتے اکھٹے کرنے ہوتے ہیں اور ہر کارڈ کے مختلف پوائنٹ ہوتے ہیں۔

کیوٹو یونیورسٹی کی پروفیسر ہارا کہتی ہیں کہ نیٹینڈو ’بنیادی مہارت‘ کے اصول سے پیوستہ رہنے والی کمپنیوں کی ایک عمدہ مثال ہے۔

’کوئی کمپنی کیا بنا رہی ہے یہ انتہائی بنیادی عوامل میں سے ایک ہے اور یہی مہارت کمپنی کو اپنا وجود قائم رکھنے میں مدد دیتی ہے، اس کے باوجود بھی کہ ٹیکنالوجی تبدیل ہو جائے یا پرانی ٹیکنالوجی متروک ہو جائے۔‘

پروفیسر ہارا کے مطابق نیٹینڈو کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ’تفریح کا سامان کیسے مہیا کیا جائے۔‘

پروفیسر ہارا کہتی ہیں کہ جاپان کا روایتی لباس ’کیمومو‘ تیار کرنے والی کمپنیاں اپنا وجود قائم رکھنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں کیونکہ زیادہ تر جاپانی خواتین اب روایتی لباس نہیں پہنتیں۔

کیوٹو میں قائم ایسی ہی ایک کمپنی ’ہوسو‘ ہے جو سنہ 1688 میں قائم ہوئی۔

اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے اس کمپنی نے اپنا کاروبار وسیع کرتے ہوئے کاربن فائبر کپڑے کی تیاری پر کام شروع کیا۔ اس کمپنی کے بارے میں بات کرتے ہوئے پروفیسر ہارا بتاتی ہیں کہ ’اس کمپنی کی بنیادی مہارت اب بھی وہی ہے یعنی تھری ڈی کپڑا بُننے کا کام۔‘

کیوٹو میں قائم ایسی بہت سے قدیم کمپنیوں کا کہنا ہے کہ اچھی کسٹمر سروس ان کے کاروبار کے طویل عرصے تک قائم رہنے میں ایک اہم عنصر ہے۔ خاص طور پر جب ہم ’یوکان‘ کی بات کرتے ہیں جو کہ ایک ہوٹل سرائے ہے جو اپنے گاہکوں کا خیال خاندان کے افراد کی طرح کرتا ہے۔

پروفیسر ہارا کہتی ہیں کہ جاپان میں کاروباری افراد کسٹمر سروس پر بہت دھیان دیتے ہیں اور اس عمل کو ’اوموتیناشی‘ کہا جاتا ہے۔ اس اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ گاہکوں کی ضرورت کا وقت سے پہلے بندوبست کرنا اور یہ جاپانی کمپنیوں کا ایک خاصہ ہے جو ان کے طویل المدت قائم رہنے کی ایک وجہ ہے۔

ایکیمی نیشیمورا کا خاندان گذشتہ چھ نسلوں سے کیوٹو میں روایتی جاپانی سرائے کے کاروبار سے منسلک ہے۔

اس سرائے نے سنہ 2018 میں اپنے قیام کی دو سو سالہ تقریبات کا اہتمام کیا تھا۔ اس سرائے نے چارلی چپلن اور لوئس ؤوٹون جیسی شخصیات کی مہمان نوازی بھی کی ہے۔

پروفیسر ہارا کہتی ہیں کہ ’اس سرائے کی سب سے اچھی بات، ایک نسل سے دوسری نسل کے درمیان ہونے والی کمیونیکیشن ہے۔‘

انھوں نے اس سرائے میں موجود 80 سالہ قدیم کتاب کے اوراق پلٹتے ہوئے بتایا کہ اس کتاب میں لکھا ہے کہ روایتی سرائے کو کیسے چلایا جائے۔ اس میں لکھا کہ کہ کسی مہمان کے رومال کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا جائے، اسے کیسے دھویا جائے، تہہ کیا جائے اور کس انداز میں دُھلا ہوا اور تہہ شدہ رومال گاہک کو واپس پیش کیا جائے۔

اس کتاب میں لکھا ہے کہ چند مہمان اپنے رومال کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے اس لیے یہ سب کرنے سے پہلے ان سے پیشگی اجازت طلب کی جائے۔

پروفیسر اینان ساساکی کہتی ہیں کہ ’یہ کمپنیاں خاندانی کاروبار سے وابستگی ، تسلسل ، معیار ، برابری اور روایت جیسی اقدار کو مالی فائدے پر ترجیح دیتی ہیں۔‘

اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ کمپنیاں اپنی موجودہ بلند معاشرتی حیثیت سے لطف اندوز ہو رہی ہیں، خاندانی کمپنیوں سے کہیں آگے یہ کمپنیاں اپنے آپ کو ایلیٹ کلاس کے ادارے بنا چکی ہیں۔

کیا یہ سب جدت کے لیے اچھا ہے یا بُرا؟

ان پرانی اور قدیم کمپنیوں کی موجودگی کا ایک تاریک پہلو بھی ہے خاص کر جب ہم جاپان میں نئے کاروبار کی شروعات یعنی سٹارٹ اپ کی بات کرتے ہیں۔

اگرچہ اس پہلو میں بھی سست روی سے تبدیلی آ رہی ہے مگر پھر بھی اگر اس کا تقابل کسی اور ملک سے کیا جائے تو یہ بہت سست رفتار ہے۔

27 سالہ ماری میٹسوزاکی ’کیو‘ نامی کمپنی میں کام کرتی ہیں۔ یہ ایجوکیشن ٹیکنالوجی کی ایک سٹارٹ اپ کمپنی ہے۔ یہ کمپنی بین الاقوامی کمپنی ’سلش‘ کا جاپانی ورژن ہے۔

ماری کا کہنا ہے کہ ’سٹارٹ اپ کا حصہ ہونے کو (جاپان میں) معاشرتی سطح پر قبولیت حاصل نہیں ہے۔ سٹارٹ اپ لفظ کو اتنی قبولیت حاصل نہیں ہے جتنی ’شینائس‘ (پرانی دکان) کو حاصل ہے۔ مجھے اپنے والدین اور دوستوں کو یہ وضاحت دینے میں کافی دِقت ہوتی ہے کہ میں کیا کرتی ہوں اور کہاں کام کرتی ہوں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’تعلیم مکمل کرنے والی اپنی پوری کلاس میں سے شاید میں واحد طالبعلم ہوں جس نے ایک سٹارٹ اپ کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔‘

’دیگر ممالک میں نیا کاروبار شروع کرنے اور اپنی ناکامیوں کو قابل قدر تجربات میں بدلنے کے عمل کی تعریف کی جاتی ہے مگر جاپان میں خطرہ اور ناکامی کی طرف غالب ذہنیت ایک ایسی لڑائی ہے جس پر بہت سارے نئے کاروباری منتظمین کو ابھی قابو پانا ہے۔‘

میسیچیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ پروفیسر مائیکل کوسومانو اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں۔

پروفیسر مائیکل نے سنہ 2016 سے سنہ 2017 تک ٹوکیو یونیورسٹی آف سائنس میں جدت پر مبنی اقدامات اور کاروباری شراکت داری کا مضمون پڑھایا ہے۔ انھوں نے زندگی کے آٹھ برس جاپان میں گزارے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کسی کمپنی کو بند کرنا یا اسے فروخت کرنا جاپان میں باعث شرمندگی اور ناکامی سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ احساس وہاں صدیوں سے موجود ہے۔ چنانچہ یہ ثقافتی مسائل بھی خاندانوں کو اپنا خاندانی کاروبار آگے بڑھانے اور چلائے رکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ جاپان کا معاشرہ اور معیشت اتنی لچکدار نہیں ہے جتنی امریکہ کی اور یہی وجہ ہے کہ جاپان اتنی آسانی سے نئی اور بڑی کمپنیوں کو جنم نہیں دیتا۔ رجحان یہی ہے کہ آپ کے پاس جو ہے اسے محفوظ کر لیا جائے۔‘

مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ قدیم کمپنیوں کو مشکلات کا سامنا نہیں ہوتا۔

سنہ 578 میں بننے والی تعمیراتی کمپنی ’کونگو گومی‘ 1400 سال قائم رہنے کے بعد سنہ 2006 میں قرض کے بوجھ کے باعث تحلیل کر دی گئی۔

میٹسوزاکی کہتی ہیں کہ مستقبل میں دو بزنس ماڈلز کو یکجا کرنے سے فوائد حاصل ہوں گے۔

’اس سلسلے میں قدیم کمپنیوں اور سٹارٹ اپس میں مطابقت پیدا کرنا اہم بات ہو گی۔‘

ان کا خیال ہے کہ ’قدیم کمپنیوں کے طاقت یعنی ان کے وسائل، انڈسٹری میں ان کی ساکھ اور مضبوط نیٹ ورک کو اگر نئی ٹیکنالوجی اور جلد فیصلہ سازی سے منسلک کر دیا جائے تو سٹارٹ اپ جاپان کے مستقبل کے لیے بہت بڑا ہتھیار بن سکتے ہیں۔‘

مگر دوسری جانب سوین ٹی کے موجودہ مالک کے بالکل بھی ایسے ’سرکش‘ مقاصد نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں اتفاقی طور پر یہاں (اس خاندان میں) پیدا ہوا۔ میرے آباؤ اجداد نے چائے کا کاروبار جاری رکھا اور میں بھی اس کو جاری رکھوں گا۔‘

’میرا مقصد بالکل یہ نہیں ہے کہ میں اس کمپنی کو توسیع دوں اور اسے دنیا کے طول و عرض میں پھیلاؤ یا اپنی کمائی میں اضافہ کروں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں اس کام کو جاری رکھوں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp