اے پی سی کا آنکھوں دیکھا حال: طویل خاموشی کے بعد نواز شریف کا ‘ماسٹر سٹروک’ اور شہباز شریف کی ’مصالحت کاری‘


ماضی قریب میں بھی موجودہ حزبِ اختلاف کا کئی بار اتحاد بنتا ٹوٹتا رہا ہے، تو اب کی بار کیا خاص بات ہے؟ یہ جاننے کی کوشش آج آل پارٹیز کانفرنس کے دوران شاید سب ہی کی تھی۔

اسلام آباد کے ایک نجی ہوٹل میں ہونے والے اس اجلاس کے لیے سیکیورٹی کے انتظامات بھی کیے گئے تھے اور ہوٹل میں داخلے سے قبل صحافیوں کے کارڈز چیک کیے جا رہے تھے۔

پاکستان پیپلز پارٹی اس کل جماعتی کانفرنس کی میزبانی کر رہی تھی، تقریب شروع ہونے کا وقت دن 12 بجے کا تھا جبکہ بلاول بھٹو زرداری ایک گھنٹہ قبل ہی پہنچ گئے تھے۔

انھوں نے ہال میں آ کر انتظامات کا جائزہ بھی لیا، جبکہ مریم نواز شریف جو کہ اس کانفرنس کے مہمانوں میں اہم ترین سمجھی جا رہی تھیں، اپنے پارٹی رہنماؤں کے ساتھ آخر میں پہنچیں۔ اجلاس ایک گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا۔

ہوٹل کی لابیز اور کوریڈورز میں جگہ جگہ صحافی، کیمروں کے ہمراہ کھڑے تھے۔ ایسا نہیں کہ ان کے لیے کوئی مخصوص مقام طے نہیں کیا گیا تھا، بلکہ وجہ یہ تھی کہ اجلاس کے ہال میں جانے کی انھیں اجازت نہیں تھی۔

صحافی کوریڈورز اور لابیز میں سیاستدانوں کو روکتے کہ کوئی اپنی رائے کا اظہار کر لے یا کانفرنس کے ایجنڈے سے متعلق بات کر لے، یا یہی بتا دے کہ اب کی بار اتحاد کب تک چلے گا۔

مگر سوالات کی بوچھاڑ میں ان کا جواب صرف ایک مسکراہٹ میں ہی ہوتا۔ اب اس مسکراہٹ کا مطلب کیا لیا جائے، یہ جاننے میں ابھی شاید کچھ دن لگیں گے۔

سوائے پیپلز پارٹی کے چند اراکین کے دیگر جماعتوں کے رہنما میڈیا سے دور ہی رہے۔ ایسے میں میری ملاقات نفیسہ شاہ سے ہوئی۔ وہ کہنے لگیں کہ یہ ایک نیا کولیشن یعنی اتحاد بن رہا ہے۔

مگر اتحاد تو پہلے بھی بنتا رہا ہے۔ جیسا کہ خود آصف علی زرداری نے کانفرنس کے آغاز میں کہا کہ یہ پہلی اے پی سی نہیں ہے۔

پیپلزپارٹی کے ہی سینیئر رہنما اعتزاز احسن نے گذشتہ روز مقامی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ مسلم لیگ ن پر ‘اعتماد’ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ماضی میں بھی مسلم لیگ ن اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹتی رہی ہے۔

تاہم آج کانفرنس میں شریک پیپلز پارٹی کے رہنما مسلم لیگ ن پر آسرا کرتے نظر آئے۔ نفیسہ شاہ کہتی ہیں کہ پارٹی سیاست اپنی جگہ قائم رہے گی مگر قومی ایشوز پر ہم مسلم لیگ ن اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ہیں۔

یہاں موجود کئی صحافی یہی سمجھتے ہیں کہ یہ اتحاد بھی وقتی ہے اور دوررس نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔ یہاں موجود ایک صحافی نے کہا کہ سب اپنے مفاد کی خاطر اکٹھے ہو جاتے ہیں اور اگر اتحاد موثر ہونے لگے تو انہی میں سے بعض کے مطالبات پردے کے پیچھے مان لیے جاتے ہیں اور یوں وہ اتحادی، اتحادی نہیں رہتے۔ مگر کئی ایسے صحافی بھی ہیں جن کے خیال میں اتحاد اب کی بار کچھ عرصہ چل جائے گا۔

کانفرنس میں بی این پی کے اختر مینگل نے شرکت نہیں کی بلکہ پارٹی کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی نے ان کی نمائندگی کی، اسی طرح اسفندیار ولی خان طبیعت ناساز ہونے کے باعث خود نہیں آ سکے اور ان کی جماعت کے امیر حیدر ہوتی نے اجلاس میں شرکت کی۔

قمر زمان کائرہ، شیری رحمان سمیت پیپلز پارٹی کے چند دیگر سینئیر رہنماؤں نے ہوٹل لابی کے باہر مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی کا استقبال کیا۔

سب سے آخر میں مریم نواز شریف مسلم لیگ ن کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ آئیں۔ جس کے بعد بند کمرے میں اجلاس کا آغاز ہوا۔

ان کیمرہ اجلاس میں سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف، بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف کی تقاریر لائیو دکھائی گئیں۔ مولانا فضل الرحمان نے شکوہ کیا اور کہا کہ ان کی تقریر لائیو نہیں دکھائی گئی۔

نواز شریف کا خطاب ڈیوٹی پر موجود صحافیوں نے بھی موبائل فونز پر ہی سنا۔

سینیئر صحافی اعجاز احمد نے ان کے خطاب سے متعلق کہا کہ یہ ان کی طویل خاموشی کے بعد ایک ‘ماسٹر اسٹروک’ ہے، ‘اس سے ملک کے سیاسی ماحول میں کچھ ارتعاش پیدا ہونے کا امکان ہے۔

یہ ایک سخت خطاب تھا، پہلے انھوں نے خلائی مخلوق کی اصطلاح استعمال کی اور آج تو زیادہ سخت اور براہِ راست نام لیے گئے، لیفٹننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کا نام لیا گیا، آصف علی زرداری سے شکوے کی جھلک بھی نظر آئی مگر سب سے اہم یہ کہنا تھا کہ ان کا مقابلہ ان قوتوں سے ہے جو عمران خان کو لائیں، تو ان کا اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب ہی تھا۔ مگر شہباز شریف آج بھی کچھ مصالحت کار کے کردار میں ہی نظر آئے۔’

اس پر بھی بحث ہوئی کہ آج کس کی جیت ہوئی، مقامی میڈیا سے منسوب ایک اور صحافی نے رائے دی کہ آج ایک بار پھر آصف علی زرداری نے خود کو اور بلاول بھٹو کو متنازع بیانات سے باہر رکھتے ہوئے شاید پھر سے مسلم لیگ ن کو ٹریپ کرنے کی سیاست برقرار رکھی جس سے عین ممکن ہے کہ یہ پیپلز پارٹی کے لیے سانس لینے کا ایک موقع ثابت ہو۔ جبکہ عمران خان مضبوط بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ واضح ہوا ہے کہ مقابلہ تو نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہے۔’

میڈیا کے لیے بنائے گئے اس ہال میں موجود صحافیوں کا اس بات پر تو اتفاق تھا ہی کہ مولانا فضل الرحمان، آصف علی زرداری، اور نواز شریف ایک ہی پیج پر ہیں۔

’ان کی کوشش ہے کہ یہ کاوش ایک باقاعدہ اتحاد میں تبدیل کردی جائے، یہ چل تو سکتا ہے، مگر ماضی ایسے اتحادوں کے طول پکڑنے کے حوالے سے کچھ زیادہ تابناک نہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp