فن سین فائلز: ایچ ایس بی سی بینک کے ذریعے کیسے کروڑوں ڈالر کے فراڈ کی رقم منتقل کی گئی؟


منی لانڈرنگ، ایچ ایس بی سی، فن سین فائلز

مالیاتی جرائم کی تحقیقات کرنے والے امریکی ادارے فن سین سے لیک ہونے والی دستاویزات سے علم ہوا ہے کہ برطانیہ کے سب سے بڑے بینک ایچ ایس بی سی نے دھوکے بازوں کی دھوکہ دہی کا علم ہونے کے باوجود انھیں کروڑوں ڈالر دنیا بھر میں منتقل کرنے کی اجازت دی۔

ایچ ایس بی سی نے اپنے امریکی کاروبار کے ذریعے یہ رقم 2013 اور 2014 میں ہانگ کانگ میں ایچ ایس بی سی کے اکاؤنٹس میں منتقل کی۔

فن سین فائلز کہلانے والی یہ لیک دستاویزات درحقیقت ‘مشتبہ سرگرمیوں کی رپورٹس’ (ایس اے آر) پر مبنی ہیں جو بینکوں کی اندرونی دستاویزات ہوتی ہیں۔

ان دستاویزات میں پونزی سکیم کے ذریعے اس آٹھ کروڑ ڈالر کے فراڈ میں اس بینک کا کردار سامنے آیا ہے۔

تاہم ایچ ایس بی سی کا کہنا ہے کہ اس نے ہمیشہ ایسی سرگرمیوں کی رپورٹ کرنے میں اپنی قانونی ذمہ داری پوری کی ہے۔

ان فائلوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سرمایہ کاری کا یہ فراڈ بینک پر امریکہ میں منی لانڈرنگ کی وجہ سے ایک اعشاریہ نو ارب ڈالر کا جرمانہ عائد ہونے کے بعد شروع ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان: ’جائیداد کےذریعے کالا دھن سفید کرنے کا قانون منظور‘

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس: پاکستان اگلے چار ماہ تک ’گرے لسٹ‘ میں رہے گا

آغا حسن عابدی: ’عالمی اسلامی بینک‘ کے خواب سے بی سی سی آئی تک

دھوکے کے شکار ہونے والے سرمایہ کاروں کے وکلا کا کہنا ہے کہ بینک کو فراڈیوں کے اکاؤنٹس بند کرنے کے لیے جلد از جلد اقدامات کرنے چاہیے تھے۔

لیک دستاویزات میں مزید کئی انکشافات سامنے آئے ہیں۔ ان سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ امریکہ کے سب سے بڑے بینکوں میں سے ایک بینک نے ایک بدنامِ زمانہ مجرم کو ایک ارب ڈالر سے زائد رقم منتقل کرنے میں مدد کی۔

فن سین فائلز کیا ہیں؟

فن سین فائلز 2657 لیک شدہ دستاویزات ہیں جن میں 2100 دستاویزات مشتبہ سرگرمیوں کے بارے میں رپورٹس یا سسپیشیئس ایکٹیوٹی رپورٹس (ایس اے آر) ہیں۔

ایس اے آر کسی غلط کام کا ثبوت نہیں ہوتیں۔ بینک یہ رپورٹس حکام کو اس وقت بھیجتے ہیں جب انھیں یہ شک ہوتا ہے کہ ان کے صارف کچھ غلط کر رہے ہیں۔

قانون کے تحت ان کے علم میں ہونا چاہیے کہ ان کے کلائنٹس کون ہیں، صرف ایس اے آر فائل کرتے رہنا اور کلائنٹس سے جرائم کا پیسہ لیتے رہنا کافی نہیں ہے کیونکہ اس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے یہ امید باندھ لی جاتی ہے کہ وہ مسئلے سے خود ہی نمٹ لیں گے۔

اگر بینکوں کے پاس مجرمانہ سرگرمی کا ثبوت ہو تو انھیں رقم کی منتقلی کو روکنا ہوتا ہے۔

لیک دستاویزات سے علم ہوتا ہے کہ کیسے دنیا کے سب سے بڑے بینکوں کے ذریعے کالا دھن سفید کیا گیا اور کیسے مجرموں نے گمنام برطانوی کمپنیوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنا پیسہ چھپایا۔

یہ ایس اے آر دستاویزات میڈیا ادارے بزفیڈ کی ویب سائٹ کو لیک کی گئیں اور ان کا تبادلہ تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کے ساتھ کیا گیا اور بی بی سی کے پینوراما پروگرام نے بی بی سی کے لیے اس تحقیق کی سربراہی کی۔

یاد رہے کہ آئی سی آئی جے وہی تنظیم ہے جس نے پاناما پیپرز اور پیراڈائز پیپرز پر رپورٹنگ کی قیادت کی تھی جن میں دولتمند اور مشہور لوگوں کی بیرونِ ملک مالیاتی سرگرمیوں کے بارے میں خفیہ دستاویزات سامنے آئی تھیں۔

کنسورشیم سے تعلق رکھنے والے فرگوس شیل نے کہا کہ فن سین فائلز ‘اس بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں کہ بینکوں کو دنیا بھر میں منتقل ہوتے ہوئے کالے دھن کے بارے میں کیا کیا معلوم ہوتا ہے۔ جس نظام کو کالے دھن کی منتقلی کو منضبط کرنا ہے وہ نظام خامیوں کا شکار ہے۔’

لیک ہونے والی یہ رپورٹس سنہ 2000 سے 2017 کے درمیان امریکہ کے فنانشل کرائمز انویسٹیگیشن نیٹورک یا فن سین کو جمع کروائی گئی تھیں اور ان میں تقریباً 20 کھرب (2 ٹریلین) ڈالر کی لین دین کا احاطہ کیا گیا ہے۔

فن سین کا کہنا ہے کہ یہ لیک امریکہ کی قومی سلامتی پر اثرانداز ہو سکتی ہے، تحقیقات کو خطرے میں ڈال سکتی ہے، جبکہ ان سے رپورٹس فائل کرنے والے افراد بھی خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔

مگر گذشتہ ہفتے اس نے اپنے منی لانڈرنگ پروگراموں کو از سرِ نو مرتب کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا تھا۔

برطانیہ نے بھی منی لانڈرنگ اور فراڈ کو روکنے کے لیے کمپنیوں کے بارے میں اپنے ڈیٹابیس میں اصلاحات لانے کے منصوبوں کا اعلان کیا تھا۔

یہ پونزی سکیم کیا تھی؟

رینالڈو پیچیکو

Handout
رینالڈو پیچیکو اس سکیم میں پیسہ لگانے والے سرمایہ کار تھے جنھیں بعد میں قتل کر دیا گیا

جس سرمایہ کاری فراڈ کے بارے میں ایچ ایس بی سی کو خبردار کیا گیا تھا اس کا نام ڈبلیو سی ایم 777 تھا۔ اس کی وجہ سے سرمایہ کار رینالڈو پیچیکو کی موت ہوئی جنھیں اپریل 2014 میں کیلیفورنیا کے علاقے ناپا میں باغ میں پانی میں مردہ پایا گیا تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں پتھروں سے مارا گیا تھا۔

انھوں نے اس فراڈ سکیم میں حصہ لیا تھا اور انھیں دیگر سرمایہ کاروں کو بھرتی کرنا تھا۔ وعدہ یہ تھا کہ سبھی اس میں امیر ہوجائیں گے۔

44 سالہ پیچیکو نے جن خاتون کو متعارف کروایا، وہ تقریباً تین ہزار ڈالر گنوا بیٹھیں جس کی وجہ سے انھیں اغوا کاروں کے ذریعے قتل کروا دیا گیا۔

اس قتل کی تحقیقات کرنے والے افسران میں سے ایک سارجنٹ کرس پیچیکو (کوئی رشتہ نہیں) نے کہا: ‘وہ صرف لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے کی کوشش کر رہے تھے اور انھیں خود ہی دھوکہ ہوا، اور بدقسمتی سے انھوں نے اس کی قیمت اپنی زندگی سے ادا کی۔’

انھوں نے کہا کہ رینالڈو ‘کو اس فراڈ سکیم کا شکار ہونے پر قتل کیا گیا۔’

اس فراڈ منصوبے میں کیا وعدہ کیا گیا تھا؟

یہ منصوبہ چینی شہری مِنگ ژو نے شروع کیا تھا۔ اس حوالے سے کم معلومات ہیں کہ وہ امریکہ کیسے پہنچے تاہم ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے کیلیفورنیا سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی ہے۔

لاس اینجلس میں سکونت اختیار کر کے ژو یا ڈاکٹر فل (جیسا کہ وہ خود کو کہلانا پسند کرتے ہیں) ایونجلیکل گرجا گھروں میں پادری کی خدمات انجام دیتے۔

ژو نے کہا کہ وہ ایک عالمی سرمایہ کاری بینک ورلڈ کیپیٹل مارکیٹ چلا رہے ہیں جو 100 دنوں میں 100 فیصد منافع دے گا۔ درحقیقت وہ ڈبلیو سی ایم 777 نامی فراڈ سکیم چلا رہے تھے۔

سیمینارز، فیس بک اور یوٹیوب ویبینارز کے ذریعے انھوں نے آٹھ کروڑ ڈالر کی رقم کلاؤڈ کمپیوٹنگ میں سرمایہ کاری کے مواقع کا جھانسہ دے کر اکٹھی کر لی۔

منی لانڈرنگ، ایچ ایس بی سی، فن سین فائلز

ڈبلیو سی ایم پونزی سکیم کی تشہیر کرنے والی چند فیس بک پوسٹس

ایشیائی اور لاطینی برادریوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد اس کا نشانہ بنے۔ فراڈیوں نے مسیحی تصویر کشی کا استعمال کرتے ہوئے امریکہ، کولمبیا اور پیرو میں غریب برادریوں کو ہدف بنایا۔ اس کے علاوہ دیگر ممالک بشمول برطانیہ میں بھی لوگوں کو دھوکہ دیا گیا۔

امریکی ریاست کیلیفورنیا میں حکام نے ایچ ایس بی سی کو ستمبر 2013 میں خبردار کیا تھا کہ وہ ڈبلیو سی ایم 777 کے بارے میں تحقیقات کر رہے ہیں اور انھوں نے اپنے شہریوں کو اس فراڈ کے بارے میں مطلع کر دیا تھا۔

اس کے علاوہ ریاست کولوراڈو اور میساچوسیٹس نے ڈبلیو سی ایم کے خلاف بے ضابطہ سرمایہ کاری فروخت کرنے پر اقدامات اٹھائے۔

ایچ ایس بی سی نے اپنے سسٹم کے ذریعے رقم کی مشتبہ منتقلی کا پتا لگایا مگر امریکہ کے مالیاتی ریگولیٹر سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کی جانب سے الزامات عائد کیے جانے کے بعد اپریل 2014 میں ڈبلیو سی ایم 777 کے ایچ ایس بی سی ہانگ کانگ میں موجود اکاؤنٹس بند کیے گئے۔

تب تک ان اکاؤنٹس میں کچھ بھی باقی نہیں بچا تھا۔

ان ایس اے آر رپورٹس سے کیا معلوم ہوتا ہے؟

ایچ ایس بی سی نے اس فراڈ کے بارے میں اپنی پہلی مشتبہ سرگرمیوں کی رپورٹ (ایس اے آر) 29 اکتوبر 2013 میں فائل کی تھی جس کا تعلق ہانگ کانگ میں فراڈیوں کے اکاؤنٹس میں بھیجے گئے 60 لاکھ ڈالر سے تھا۔

منی لانڈرنگ، ایچ ایس بی سی، فن سین فائلز


بینک حکام نے کہا کہ اس منتقلی کا ‘بظاہر کوئی معاشی، کاروباری یا جائز مقصد نہیں’ تھا اور اس نے ‘فراڈ سکیم کی سرگرمی’ کے الزامات درج کیے۔

فروری 2014 میں ایک اور ایس اے آر فائل کی گئی جس میں ایک کروڑ 54 لاکھ ڈالر کی مشتبہ منتقلی اور ایک ‘مبینہ فراڈ سکیم’ کی نشاندہی کی گئی۔

مارچ میں ایک تیسری رپورٹ فائل کی گئی جس کا تعلق ڈبلیو سی ایم 777 سے متعلق ایک کمپنی سے تھا۔ اس میں 92 لاکھ ڈالر کی منتقلی کی نشاندہی کی گئی تھی جبکہ امریکی ریاستوں کی جانب سے ریگولیٹری اقدامات اور کولمبیا کے صدر کی جانب سے تحقیقات کا حکم دیے جانے کا بھی تذکرہ تھا۔

منی لانڈرنگ، ایچ ایس بی سی، فن سین فائلز


ایچ ایس بی سی نے کیا کیا؟

ڈبلیو سی ایم 777 سکیم ایچ ایس بی سی کی جانب سے میکسیکو کے منشیات فروشوں کی منی لانڈرنگ پر امریکہ میں فوجداری کارروائی سے بچنے کے کچھ ہی ماہ بعد سامنے آئی۔ یہ بینک اپنے طریقہ کار میں بہتری لانے کے وعدوں پر بچ پایا تھا۔

آئی سی آئی جے کے تجزیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سنہ 2011 سے 2017 کے درمیان ایچ ایس بی سی نے ہانگ کانگ میں موجود اکاؤنٹس میں رقوم کی مشتبہ منتقلیوں کی نشاندہی کی تھی جن کی مالیت ڈیڑھ ارب ڈالر سے زیادہ تھی۔ اس میں سے تقریباً 90 کروڑ ڈالر مجموعی مجرمانہ سرگرمیوں سے منسلک تھے۔

مگر رپورٹس میں صارفین کے بارے میں اہم حقائق شامل نہیں کیے گئے اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ ان اکاؤنٹس سے حتمی فائدہ اٹھانے والے (بینیفیشل اونرز) کون ہیں اور یہ کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا تھا۔

بینکوں کو ایس اے آر رپورٹوں کے بارے میں بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

ایچ ایس بی سی نے کہا: ‘سنہ 2012 سے ایچ ایس بی سی نے 60 سے زائد عملداریوں میں مالیاتی جرائم سے نمٹنے کی صلاحیت بہتر بنانے کے اپنے کئی سالہ منصوبے کا آغاز کیا تھا۔ ایچ ایس بی سی اب 2012 کے مقابلے میں کہیں زیادہ محفوظ ادارہ ہے۔’

بینک نے مزید کہا کہ امریکی حکام نے پایا ہے کہ بینک ‘[امریکی استغاثہ کے ساتھ ہونے والے معاہدے] کے تحت اپنی تمام ذمہ داریوں پر پورا اترا۔’

مِنگ ژو کو بالآخر چینی حکام نے سنہ 2017 میں گرفتار کر لیا اور فراڈ پر تین سال کے لیے جیل بھیج دیا۔

چین سے آئی سی آئی جے سے بات کرتے ہوئے ژو نے کہا کہ ایچ ایس بی سی نے ان سے ان کے کاروبار کے بارے میں رابطہ نہیں کیا۔ انھوں نے ڈبلیو سی ایم 777 کے فراڈ ہونے کو بھی مسترد کیا اور کہا کہ امریکہ کے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے اسے ناجائز طور پر ہدف بنایا۔

انھوں نے کہا کہ ان کا مقصد کیلیفورنیا میں 400 ایکڑ سے زیادہ زمین پر ایک مذہبی کمیونٹی بنانا تھا۔

پونزی سکیم کیا ہوتی ہے؟

پونزی سکیم فراڈ کی ایک قسم ہے جس کا نام 20 ویں صدی کے ایک دھوکے باز چارلس پونزی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس میں لوگوں سے حاصل کی جانے والی نقد رقم سے منافع نہیں کمایا جاتا بلکہ سرمایہ کاروں کو نئے آنے والے سرمایہ کاروں سے حاصل ہونے والے پیسے سے منافع دیا جاتا ہے۔

منی لانڈرنگ، ایچ ایس بی سی، فن سین فائلز


مثال کے طور پر سرمایہ کاروں کا پیسہ دوگنا کرنے والی ایک سکیم ایسے کام کرتی ہے کہ دو سرمایہ کار ایک ایک ہزار ڈالر سکیم کے مالک کو ادا کرتے ہیں۔

ان ادائیگیوں کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ نئے سرمایہ کار چاہیے ہوتے ہیں۔ اس دوران سکیم کے مالکان پیسہ اپنے اکاؤنٹس میں منتقل کرتے رہتے ہیں۔

اگر یہ ابتدائی سرمایہ کار ہزار ہزار ڈالر لگانے والے چار مزید سرمایہ کار اکٹھے کریں تو ان کا پیسہ واپس مل جاتا ہے۔ اب سکیم کے سرمایہ کاروں کو ادا کرنے کے لیے آٹھ ہزار ڈالر درکار ہوتے ہیں اور کوئی بھی اضافی رقم سکیم کے مالک کو چلی جاتی ہے۔

چوتھے راؤنڈ تک سرمایہ کاروں کو رقم کی فراہمی کے لیے 16 ہزار ڈالر چاہیے ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے سکیم بڑھتی جاتی ہے، زیادہ سے زیادہ لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے اور بالآخر یہ بکھر جاتی ہے۔

اس لیک میں مزید کیا پایا گیا؟

فن سین فائلز سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ کثیر القومی بینک جے پی مورگن نے ممکنہ طور پر روسی مافیا کے سربراہوں کے بھی سرغنہ ایک شخص کو ایک ارب ڈالر سے زائد کی رقم مالیاتی نظام سے منتقل کرنے میں بھی مدد دی ہوگی۔

سیمیون موگیلیویچ پر اسلحے کی تجارت، منشیات فروشی اور قتل جیسے جرائم کا الزام ہے۔

انھیں مالیاتی نظام استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے مگر سنہ 2015 میں اکاؤنٹ بند ہونے کے بعد جے پی مورگن کی فائل کی گئی ایس اے آر میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ کیسے بینک کے لندن آفس نے کچھ رقم منتقل کی ہوگی۔

اس میں یہ تفصیلات ہیں کہ کیسے جے پی مورگن نے 2002 سے 2013 کے درمیان اے بی ایس آئی انٹرپرائزز نامی ایک خفیہ آف شور کمپنی کو بینکنگ خدمات فراہم کیں بھلے ہی بینک کے ریکارڈز میں یہ واضح نہیں تھا کہ کمپنی کا مالک کون ہے۔

بینک کے مطابق ایک پانچ سالہ دور میں جے پی مورگن کے ذریعے ایک اعشاریہ صفر دو ارب ڈالر سے زیادہ کی رقوم بھیجی اور وصول کی گئیں۔

منی لانڈرنگ، ایچ ایس بی سی، فن سین فائلز

اس ایس اے آر میں کہا گیا کہ اے بی ایس آئی کی سرپرست کمپنی 'ممکنہ طور پر سیمیون موگیلیویچ سے منسلک ہو سکتی ہے جو کہ ایف بی آئی کو انتہائی مطلوب 10 افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔'

ایک بیان میں جے پی مورگن نے کہا: ‘ہم حکومت کی جانب سے مالیاتی جرائم کے انسداد کو یقینی بنانے کے لیے تمام قواعد و ضوابط کی پاسداری کرتے ہیں۔ ہم اس اہم کام کے لیے ہزاروں افراد اور کروڑوں ڈالر مختص کرتے ہیں۔’

FinCEN Files strap

فن سین فائلز لیک ہونے والی خفیہ دستاویزات ہیں جن میں انکشاف ہوا ہے کہ کیسے بڑے بینکوں نے مجرموں کو جرائم سے حاصل ہونے والا پیسہ دنیا بھر میں منتقل کرنے میں مدد دی۔ ان دستاویزات سے یہ بھی سامنے آیا کہ کیسے برطانیہ کو اکثر مالیاتی نظام کی کمزور کڑی سمجھا جاتا ہے اور کیسے لندن روسی دولت سے بھرا ہوا ہے۔

یہ فائلز میڈیا ادارے بزفیڈ نیوز نے حاصل کیں جس نے انھیں انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) اور دنیا بھر میں 400 صحافیوں تک پہنچایا۔ پینوراما نے بی بی سی کے لیے اس تحقیق کی سربراہی کی۔ اس کے بارے میں مکمل کوریج یہاں ملاحظہ کریں۔



Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp