سرِعام پھانسی دینا یا کیمیائی عمل سے بانجھ بنانا


موٹر وے پر اجتماعی جنسی زیادتی کے واقعے نے پوری قوم کو لرزا کر رکھ دیا۔ حالیہ واقعہ جونہی میڈیا میں رپورٹ ہوا پورے ملک میں غم وغصے کی لہر کا سبب بنا۔ مجرموں کو سخت سے سخت سزادینے کا مطالبہ کیا گیا۔ موٹر وے واقعہ سے پہلے بھی بچوں اور عورتوں سے جنسی زیادتی کرنے والوں کے لئے سرِعام پھانسی کی سزا ایک حلقے کی طرف سے مطالبہ رہا ہے لیکن موٹروے واقعے پر وزیرِاعظم کی طرف سے بیان کے بعد یہ موضوع زبان زدِعام ہے۔ وزیرِاعظم عمران خان نے ریپ کرنے والوں کوسرِعام پھانسی دینے یا کیمیائی طریقے سے ناکارہ بنا دینے کی تجویز دی ہے اور انھوں نے اس بات کا عندیہ بھی دیا ہے کہ ان کی حکومت جلد ہی اس پر ایک بل لے کر آئے گی۔ اُنھوں نے جنسی جرائم کے مرتکب افراد کو مثالی سزا دینے کی بات کی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مجرموں کے لئے بیچ چوراہے پر پھانسی پر لٹکانے کی سزا مخصوص ہونی چاہئیے۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں ، وکلا، صحافیوں ، کُچھ سیاسی رہنمائوں اور مختلف حلقوں کی طرف سے اس پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

Chemical Castration کسی مرد کے عضوِتناسل کو کاٹنا یا اسے تیزاب سے جلانا نہیں ہے۔ یہ ادویات کا استعمال ہے جس سے جنسی خواہش کم ہو جاتی ہے۔ یہSurgical Castration  کی طرح ایک وقت کا کام نہیں بلکہ باقاعدہ وقفوں سے دوائی استعمال کرنا ہوتی ہے اور اس کے لئے مطلوبہ شخص کی رضامندی اور تعاون درکار ہوتا ہے۔ دہلی گینگ ریپ کیس کے بعد بھارت میں بھی کچھ سیاستدانوں نےChemical Castration  کی تجویز دی تھی۔ تاہم جے ورما کمیٹی جو اس کیس کے بعد قانونی اصلاحات لانے کے لئے بنائی گئی اس نے تجویز یہ کہہ کر مسترد کر دی کہChemical Castration  ریپ کی سماجی وجوہات کو دور نہیں کرتی جوsexually deviant behavior  اور طاقت سے متعلق ہیں۔ ریپ صرف ہوس کے لئے نہیں کیا جاتا بلکہ غلبہ پانے اور تشدد کے لئے بھی کیا جاتا ہے۔

موجودہ قوانین کے تحت ریپ کی سزا موت یا عمرقید ہے۔ یعنی مسئلہ سزا کے ہلکا ہونے کا نہیں بلکہ قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کا ہے۔ جس کی کئی وجوہات ہیں۔ وزیرِاعظم نے اپنے بیان میں زور اس بات پر دیا ہے کہ مجرم کو کتنی سخت سزا دی جائے جبکہ انھیں اس امر پر زور دینا چاہیے کہ ان وجوہات کو کس طرح دور کیا جائے جن کی وجہ سے ان گھنائونے جرائم کا ارتکاب ہوتا ہے۔ جنسی تشدد اورانتشارکو کیسے دور کیا جائے؟ پاکستان میں انصاف کا نظام کیوں ناقص ہے۔ ؟جرائم کے تدارک میں سزاصرف ایک عنصر ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے عناصر ہیں جیسے نظامِ تعلیم، عمومی رویے، معاشرتی قدریں ، انتظامی اور قانونی ڈھانچہ وغیرہ۔

اگر سنجیدگی سے ریپ کے واقعات کو کنٹرول کرنے کا سوچا جا رہا ہے تو اصلاحات کا ایک جامع فریم ورک درکار ہے۔ چار سطحوں پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سب سے پہلے جنسی زیادتی کے کیس رپورٹ ہونا چاہیے۔ ایسے کیسوں کو عصمت دری اور عزت لٹنے کا نام دے کر ان پر چُپ سادھ لی جاتی ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس میں شکار ہونے والی عورت یا بچے کا کوئی قصور نہیں ہوتا اور وہ عزت دار اور پُروقار انسان ہی رہتے ہیں۔ ان کی عزت کہیں نہیں جاتی۔ اس لئے جنسی زیادتی کے واقعے کو رپورٹ کر کے جنسی درندوں کو سامنے لانا چاہیے اور معاشرے کو بتانا چاہیے کہ ریپسٹ بے عزت اور ظالم ہیں۔ معاشرے سے جنسی تشدد کاخاتمہ کرنا ہے تو پولیس کے محکمے کی از سرِنو تشکیل کی جائے۔ یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ جب ریپ کا کیس رپورٹ کرنے کے لئے کوئی خاتون تھانے جاتی ہے تو اسے ہر طرح سے ڈراایا، دھمکایا جاتا ہے۔ صلح کا کہا جاتا ہے۔ پرچہ درج کرنے میں اس کے ساتھ پولیس تعاون نہیں کرتی۔

دوسرا مرحلہ ہے تحقیقات کا۔ پولیس کی ناقص کارکردگی کے باعث بہت سے مجرم آزادانہ گھومتے رہتے ہیں اور بے گناہ شہری جرائم میں پھنسا دیے جاتے ہیں۔ پولیس محکمے کے لوگ خود بہت سے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔ کئی ایک کی ذہنیت پولیس افسر عمرشیخ جیسی ہے جو ریپ کا ذمہ دار ریپ ہونے والے میں ڈھونڈتے ہیں۔ پھر پولیس شواہد اکٹھے کرنے کے معاملے میں ضروری مہارتوں سے لیس نہیں ہوتی۔ اہم شواہد کو چھپا لیا جاتا ہے۔ میڈیکل رپورٹس میں گڑبڑ کر دی جاتی ہے۔

اگلا مرحلہ ہے فوجداری نظامِ انصاف اور قانونی چارہ جوئی کا جس میں بہت سے Lacunae ہیں۔ لا اینڈ آرڈر اور انصاف کے نظام سمیت عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے ذمہ دار اداروں کی کارکردگی بہتر بنائی جائے۔ حکومت کی طرف سے   Psychological counseling  اور Trauma healing کے لئے باقاعدہ اقدامات ہونے چاہیے۔ عورت کے لئے یہ بات کسی عذاب  سے کم نہیں ہوتی کہ اسے تھانیدار سے لے کر جج تک اور گھر والوں سے ڈاکٹر تک سب کو اپنے پر ظلم کی تفصیل پوری جزیات سے سنانا پڑتی ہے۔ اکثر اوقات سوالات اور جرح نہایت تکلیف دہ اور ظالمانہ ہوتے ہیں جو کہ متاثرہ شخص کے صدمہ میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔ ان تینوں مراحل کے دوران کیس خارج کروانے اور مصالحت کرنے کا مشورہ بار بار ملتا رہتا ہے۔

چوتھی سطح ریپ کے کیس میں سزا ہے جس پر عمل درآمد کی شرح بہت کم ہے۔ یہ اوپر بیان کئے گئے تینوں مراحل کی وجہ سے ہے۔ حکومتی وزیر فواد چوہدری نے قومی اسمبلی میں کہا ہے کہ سزائوں کو بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں جبکہ پہلے سے موجود سزائوں پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ پاکستان میں ہر سال ریپ کے تقریباً پانچ ہزار کیس رپورٹ ہوتے ہیں۔ ہزاروں اور ہوں گے جو رپورٹ نہیں کئے جاتے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ریپ کیسز کے پانچ فیصد سے بھی کم مجرموں کو سزا ملتی ہے۔ یہ ریاستِ پاکستان پر شہریوں کی حفاظت کے حوالے سے بہت بڑا سوال ہے۔

اگر سزائیں موجودہ سزائوں سے بھی سنگین کرلی جاتی ہیں اور رپورٹنگ، تحقیقات اور انصاف کے نظام میں بہتری نہیں لائی جاتی تو سزا تو پانچ فیصد مجرموں کو ملے گی۔ باقی پچانوے فیصد تو یونہی دندناتے پھریں گے، کئی اور وارداتیں کریں گے۔ ہمارے ہاں جرم کرتے ہوئے سزا کا نہیں سوچا جاتا بلکہ یہ کہ پکڑا نہیں جانا اور اگر پکڑا بھی گیا تو چھوٹنا کیسے ہے؟ریپ کی روک تھام سزاPunishmentبڑھانے میں نہیں بلکہ سزادینے Convictionمیں ہے۔ ہر قسم کے جرائم خاص طور پر جنسی جرائم کے لئے آفنڈرز رجسٹری بنانا بہت اہم ہے تاکہ مجرموں کا ریکارڈ موجود ہو۔

مندرجہ بالا چاروں سطح پر اصلاحات کے متوازی مائنڈ سیٹ میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ ایسے معاشرے جہاں امن ہو، صنفی احترام ہو، وہاں جنسی زیادتی کے واقعات کم ہوتے ہیں۔ معاشرے میں اخلاقی اقدار جتنی پختہ ہوں گی، جرائم اتنے ہی کم ہوں گے۔ ریسرچ بتاتی ہے Sex Education جنسی تشدد کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے مگر ہمارے ہاں اس پر بات بھی نہیں کی جا سکتی۔ ریسرچ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سرِعام سزائیں ریپ کو کم نہیں کرتیں بلکہ ان سے تشدد میں اضافہ ہوتا ہے۔ راستہ یہی رہا اور سوچنے کا طریقہ نہ بدلا تو بہتری ممکن نہیں۔ لاکھ پھانسیاں دے دیں ، بانجھ بنا دیں کچھ بدلنے کا نہیں۔ عمران نقشبندی کو جس دن پھانسی پہ لٹکایا جاتا ہے، اُسی دن تین بچیاں اور ریپ ہوتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).