اوکاڑہ ملٹری فارمز تنازع اور مہر عبدالستار کی رہائی: ’مقدمات جوں کے توں رہے، کمیشن کے کسی فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا‘


اوکاڑہ ملٹری فارمز، مہر عبدالستار

مہر عبدالستار: مقدمات جوں کے توں رہے۔ ہم نے اپنی بے گناہی عدالتوں کے ذریعے ثابت کی اور ہمیں عدالت سے ہی انصاف ملا۔ کمیشن کے فیصلے پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا

’جبر کے بعد تحریک ٹوٹ پھوٹ کا شکار تو ہوتی ہے۔ لوگ ہراسانی کا شکار ہوتے ہیں، مقدمات کی زد میں رہتے ہیں اور پھر وہ منظرِ عام سے غائب ہو جاتے ہیں۔ تاحال لوگوں نے اس طرح دماغ بنا لیا ہے کہ ’فضا نہیں ہے کھل کر بات کرنے کی، بدل رہے ہیں زمانے کو ہم اشاروں سے۔‘ ابھی تو لوگ اشاروں کنایوں سے کام چلا رہے ہیں، ابھی میری واپسی (یعنی جیل سے رہائی) پر تحریک والی بات مجھے نظر نہیں آئی۔‘‬‬

‫یہ کہنا تھا انجمنِ مزارعینِ پنجاب کے جنرل سیکریٹری مہر عبدالستار کا، جب ان سے اوکاڑہ میں مزارعوں کی تحریک کی موجودہ صورتحال کے بارے میں پوچھا گیا۔‬‬

‫چار سال جیل میں گزارنے کے بعد مہر عبدالستار کو ان پر چلائے گئے مقدمات میں ثبوت نہ ہونے کی صورت میں رہائی مل گئی اور آخرکار ان کو 12 ستمبر کو بری کر دیا گیا۔‬

‫ان کی اوکاڑہ جیل سے رہائی کے بعد کے مناظر یہ تھے کہ لوگوں کا ایک ہجوم ان کے ساتھ جیل سے لے کر چک 4/4 ایل ملٹری فارم میں ان کے گھر تک ساتھ رہا۔ اب بھی ان کے گھر میں صبح نو بجے سے رات 12 بجے تک لوگ مبارکباد دینے، ملنے اور اپنے مسائل بتانے پہنچ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

مہر ستار اور نواز شریف

’ایک بار کرائے دار ہیں تو آپ ہمیشہ کرائے دار رہیں گے‘

’سب فوج کو دے دیں گے تو ہمارے پاس کیا بچے گا‘

’پاک فوج اوکاڑہ فارمز کی ملکیت کے دعوے سے دستبردار‘‬‬

‫مہر عبدالستار نے انٹرویو اپنے والد کے گھر میں کرنے کو کہا جہاں پر ان کی بیوی اور دو بچوں سمیت ان کے خاندان کے دیگر افراد بھی ساتھ رہتے ہیں۔‬‬

‫مہر عبدالستار کے چار سال جیل میں گزارنے کے دوران مزارعوں کے معاملے پر پاکستان میں انسانی حقوق کے قومی ادارے نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر) میں پہلی بار مزارعوں اور فوج کے اہلکاروں کو آمنے سامنے بٹھا کر اوکاڑہ فارمز کے معاملات سلجھانے کا کہا گیا۔‬‬

‫لیکن بات پھر بھی نہیں بن پائی اور اب لگتا ہے کہ معاملات رک گئے ہیں۔ ان معاملات کو سمجھنے سے پہلے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اوکاڑہ ملٹری فارمز کا تنازع ہے کیا۔ لیکن اس سے پہلے یہ کہ مہر عبدالستار ہیں کون؟

‫تین پشتوں سے مزارع ہیں

‫جب انڈیا کا بٹوارہ ہوا تو مہر عبدالستار کے خاندان نے انڈیا میں پنڈ مرسیاں ضلع لدھیانہ سے پاکستان کی طرف ہجرت کی اور اوکاڑہ پہنچے۔ اُن کے نانا پاکستان بننے سے پہلے ہی ملٹری فارمز میں کاشتکار تھے جبکہ ان کے دادا پاکستان آنے کے بعد اوکاڑہ ملٹری فارمز پر کاشت کرتے رہے۔ ‬

‫اُن کے بعد مہر عبدالستار کے والد نے انہی زمینوں کی دیکھ بھال کی۔ اب یہ ان کی تیسری نسل ہے جو ان زمینوں کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔ ‬

‫مہر عبدالستار نے ابتدائی تعلیم چک 4/4 ایل ملٹری فارمز اوکاڑہ سے ہی حاصل کی جبکہ ایف ایس سی گورنمنٹ کالج اوکاڑہ سے مکمل کیا۔ ‬

انھوں نے بی ایس سی آنرز اور ایم ایس سی زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے مکمل کی۔ ‬

‫سنہ 2000 میں ان کے ایم ایس سی کے دوران مزارعوں کا پاکستان کی فوج کے ساتھ ملٹری فارمز پر تنازع شروع ہوا۔ ’اس دوران مزارعین کو ملٹری فارمز سے بے دخل کرنے کے اقدامات اٹھائے گئے۔ ایک طرف ان کی بطور کسان حیثیت ختم کرنے کے کوشش کی گئی، جبکہ دوسری جانب ان پر جبراً ٹھیکیداری نظام نافذ کرنے کی کوشش کی گئی۔‘ ‬

‫سال 2000 میں انجمنِ مزارعینِ پنجاب نے مہر عبدالستار کی رہنمائی میں اوکاڑہ ملٹری فارمز کی ملکیت حاصل کرنے کے لیے ’مالکی یا موت‘ کا نعرہ یہ کہہ کر بلند کیا کہ ان زمینوں پر مزارعین کا حقِ وراثت ہے اور پاکستان میں ٹھیکے پر کام کرنے والوں یا رہنے والوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔‬

مالکی یا موت‬‬

‫اوکاڑہ ملٹری فارمز 18 ہزار ایکڑ کی زمین ہے جس میں سے پانچ ہزار ایکڑ فوج کے ہاتھ میں ہے جبکہ 13 ہزار ایکڑ مزارعین کے پاس ہے۔‬‬

‫ان زمینوں پر زیادہ تر گندم، مکئی اور چاولوں کی کاشت ہوتی ہے۔ فوج کا پہلے مؤقف تھا کہ ریوینیو اتھارٹی کے مطابق زمین ان کی ہے جو برٹش راج کے بعد ان کے حصے میں آئی تھی اس لیے کسانوں کو اگائی ہوئی فصل کا کچھ حصہ بٹائی کے طور پر ان کو دینا ہوگا، ‫لیکن کسانوں نے اس بات سے انکار کر دیا۔

اس کے بعد اس زمین پر کاشت کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج ہونے شروع ہوگئے۔

اوکاڑہ ملٹری فارمز، مہر عبدالستار

مزارعے اس زمین کی ملکیت چاہتے ہیں جبکہ پاکستانی فوج فصل میں سے حصہ چاہتی ہے جس پر مزارعین رضامند نہیں

مہر عبدالستار پر لگنے والے الزامات کیا ہیں؟‬‬

‫گرفتاریوں کے بارے میں مہر عبدالستار نے بتایا کہ ’2014 میں یہاں پر پنجاب کانسٹیبلری اور رینجرز کو تعینات کیا گیا تھا۔ 2016 میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت تحریک میں شامل ہر دوسرے فرد پر دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے‬۔‘

انہی مزارعوں میں سے مہر عبدالستار کے خلاف دہشت گردی کے تقریباً 36 مقدمات درج کیے گئے جس کے بعد ان کی گرفتاری اپریل 2016 میں عمل میں آئی۔ ‬

‫ان پر ساہیوال کی عدالت میں دہشت گردی کا مقدمہ چلا اور دو سال بعد انھیں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی جس کے بعد انھیں ساہیوال کی ہائی سکیورٹی جیل میں رکھا گیا۔‬

‫مہر عبدالستار پر روڈ بلاک کے دوران پولیس اہلکار پر فائرنگ کرنے، پاکستان کی فوج پر الزامات عائد کرنے غیر ملکی ایجنسیوں سے روابط رکھنے اور ملک کو بدنام کرنے کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام عائد کیے گئے تھے۔‬‬

‫سنہ 2001 سے لے کر 2016 تک ان کے خلاف 36 مقدمات درج کیے گئے تھے۔ ان میں سے دو کے سوا باقی تمام مقدمات میں ان کی ضمانت منظور کی جا چکی ہے۔‬

‫مہر عبدالستار نے دھیمے لہجے میں مسکراتے ہوئے کہا کہ، “دہشتگردی تو لوگوں کو مارنے کا اقدام ہے۔ جو ہماری تحریک ہے یہ لوگوں کو بچانے کا اقدام ہے۔ یہ تو ایک معاشی مسئلہ ہے، حکمران اس معاملے کا اگر کوئی سیاسی حل نکال سکتے ہیں تو وہ اس پر غور و فکر کرسکتے ہیں۔‘‬

‫اس پورے انٹرویو کے دوران مہر عبدالستار کے لہجے اور انداز سے غصہ یا تلخی عیاں نہیں ہوئی، لیکن ان کی باتوں سے یہ ضرور واضح ہوا کہ ان کے خیالات آج بھی وہ ہی ہیں جو چار سال پہلے یا اس سے قبل تھے۔ ‬‬

نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس نے اپنی رپورٹ میں کیا کہا؟‬‬

31 دسمبر 2018 کو ہونے والی این سی ایچ آر کی سماعت میں یہ بات سامنے رکھی گئی تھی کہ مزارعین کو تنگ نہیں کیا جائے گا اور ان کے خلاف فوجداری نوعیت کے 80 مقدمات واپس لے لیے جائیں گے۔

کمیشن کے سابق چیئرپرسن جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان نے اس سماعت کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی فوج نے واضح کردیا ہے کہ ان کو ملٹری فارمز کی ملکیت نہیں چاہیے کیونکہ زمین دراصل پنجاب حکومت کی ہے۔

اس کے جواب میں مزارعوں کی طرف سے یہ بات سامنے رکھی گئی تھی کہ بٹائی ملٹری فارمز انتظامیہ کو نہیں دی جائے گی، بلکہ جو اس کا مالک ہے اس سے بات کی جاسکتی ہے۔

اوکاڑہ ملٹری فارمز، مہر عبدالستار

اوکاڑہ ملٹری فارمز پر خبریں لکھنے کے نتیجے میں صحافی حسنین رضا نے 23 ماہ جیل کاٹی اور 2018 میں رہائی پائی

فوج کی طرف سے موجود نمائندے نے 31 دسمبر 2018 کو اسلام آباد میں کمیشن کی سماعت میں بتایا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ فوج اوکاڑہ ملٹری فارمز کی ملکیت چاہتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘فوج کے پاس صرف زمین کا کنٹرول ہے۔’

سنہ 2019 میں این سی ایچ آر نے اوکاڑہ ملٹری فارمز پر حتمی نتائج کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک بورڈ آف ریوینیو (بی او آر) کے ذریعے اوکاڑہ کے مزارعین کو زمینوں کی ملکیت نہیں مل جاتی تب تک ان کو پاکستان کی فوج کو فصل کا حصہ یعنی بٹائی دینی ہوگی۔‬‬

‫حکم نامے کے مطابق اوکاڑہ مزارعین کو ہراساں نہیں کیا جائے گا اور ان کے خلاف جو فوجداری مقدمے قائم کیے گئے ہیں وہ واپس لیے جائیں گے۔ یہ یقین دہانی بھی کروائی جائے گی کہ اس طرح کے مقدمات انسدادِ دہشت گردی عدالت کے تحت نہیں چلائے جائیں گے۔‬

‫مہر عبدالستار نے کہا کہ ’ہم جو استدعا لے کر این سی ایچ آر گئے تھے، اس کا مقصد یہ تھا کہ مقامی سطح پر جو ماورائے عدالت اقدامات اٹھائے جا رہے تھے، گرفتاریاں ہو رہی ہیں، لوگ اٹھائے جا رہے ہیں، لوگوں کو جبراً ٹھیکہ دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے، ان تمام تر باتوں کو ایک کمیشن کے تحت نوٹ کروایا جائے۔ وہ نہیں ہوا۔‘‬‬

‫ان کا کہنا ہے کہ ’وہ مقدمات جوں کے توں رہے۔ ہم نے اپنی بے گناہی عدالتوں کے ذریعے ثابت کی اور ہمیں عدالت سے ہی انصاف ملا۔ کمیشن کے فیصلے پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا۔ کوئی مقدمہ خارج نہیں کیا گیا۔ اگر انھوں نے مقدمات واپس لے لیے ہوتے تو شاید انھیں کوئی ردِعمل مل جاتا۔‘‬‬

‫ابھی مہر عبدالستار کی بات جاری تھی کہ ان کو پھر بتایا گیا کہ ان سے ملنے والوں کی قطار بڑھتی جا رہی ہے اور وہ پاس والی سرائے میں انتظار کر رہے ہیں۔‬‬

‫اٹھتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میرا اصل اثاثہ یہ لوگ ہیں کیونکہ میری ترجیحات میں پیسہ تو ہے نہیں۔ جیل میں بھی میں نے یہی دعا کی تھی کہ یہ جبر بمقابلہ صبر ہے۔ تو جبر کرنے والوں نے جبر کرنا ہے اور صبر تیری ذات نے دینا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp