گلگت بلتستان کا مختصر سیاسی ارتقا (تیسری قسط)


گلگت بلتستان اسمبلی سیکریٹریٹ کی مرتب کردہ رپورٹ ”گلگت بلتستان کا مختصر سیاسی ارتقاء“ کا مطالعہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ 180 صفحات پر مشتمل ایک جامع رپورٹ وہ بھی گلگت بلتستان کے سب سے بڑے اور اہم فورم سے متعلق ہو تو اس کا ایک ہی نشست میں مطالعہ اور پھر اس پر اپنی بساط کے مطابق تبصرہ مجھ جیسے طالب علموں کے لئے کسی صورت ممکن نہیں۔ چناں چہ فرصت کے لمحات میں ہی اس کتابچے پر نظر دوڑا کر کچھ نہ کچھ کھنگالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

رپورٹ کے ابتدائی اوراق سے متعلق معلومات گزشتہ کالموں میں گوش گزار کی گئی تھی۔ جوکہ خطے کی سیاسی تاریخ پر مبنی تھیں۔ اب کے بار کا کالم گلگت بلتستان اسمبلی 2020۔ 2015 کی مجموعی کارکردگی پر ایک طائرانہ نظر ہوگا۔ وہ اس لئے کہ ایک طرف رپورٹ میں اس موضوع کا تفصیلی تذکرہ شامل ہے۔ دوسری طرف آمدہ انتخابات کے سلسلے میں علاقے میں اچھی خاصی سیاسی گہما گہمی ہے۔ ایسے میں عوام کو اس بات کا علم ہونا ضروری ہے کہ ان کے گزشتہ نمائندوں کی اسمبلی میں کیا کارکردگی رہی ہے۔

گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی (جو بعد ازاں آرڈر 2018 کے نفاذ کے بعد گلگت بلتستان اسمبلی کہلانے لگی ہے ) کے عام انتخابات 2015 کے نتیجے میں علاقے میں پاکستان مسلم لیگ نواز سادہ اکثریت کے ساتھ حکومت میں آ گئی جو 24 جون 2020 کو اپنی مقررہ مدت کے اختتام پر تحلیل ہوگئی۔

گلگت بلتستان آرڈر 2018 کے آرٹیکل ( 3 ) 53 کے تحت گلگت بلتستان اسمبلی کے لئے ایک پارلیمانی سال کے دوران کم سے کم 130 دن تک ورکنگ میں رہنا چاہیے۔ اس حساب سے گلگت بلتستان اسمبلی کے اجلاس کا پانچ سالہ دورانیہ 650 ورکنگ دنوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ اسمبلی سیکریٹریٹ کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان اسمبلی ( 2020۔ 2015 ) کی کل کارروائی 183 ایام بشمول تعطیلات پر مشتمل رہی۔

اس دوران گلگت بلتستان اسمبلی سے مختلف امور سے متعلق 60 قوانین، 174 قراردادیں، 28 توجہ دلاؤ نوٹسز، 10 تحریک استحقاق، 14 نشان زدہ سوالات، 116 غیر نشان زدہ سوالات اور چھ بجٹ میزانیہ کی منظوری دی گئی۔ چونکہ گلگت بلتستان اسمبلی کا بنیادی کام علاقائی امور سے متعلق قانون سازی کرنا ہی ہے۔ چنانچہ کالم کی طوالت کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف ان 60 قوانین کا تذکرہ کرنا ہی بہتر ہے۔

گلگت بلتستان اسمبلی ممبران نے اس پانچ سالہ دور میں جن امور پر قانون سازی کی ان میں ( 1 ) اسپیکر کی تنخواہ، الاونسسز اور مراعات کا ترمیمی بل 2015۔ ( 2 ) ڈپٹی اسپیکر کی تنخواہ، الاونسسز اور مراعات کا ترمیمی بل 2015۔ ( 3 ) چیف منسٹر کی تنخواہ، الاونسسز اور مراعات کا ترمیمی بل 2015۔ ( 4 ) پارلیمانی سیکرٹریز کی تنخواہ، الاونسسز اور مراعات کا ترمیمی بل 2015۔ ( 5 ) اراکین اسمبلی کی تنخواہ، الاونسسز اور مراعات کا ترمیمی بل 2015۔

( 6 ) گلگت بلتستان ماحولیاتی تحفظ کا قانون 2015۔ ( 7 ) گلگت بلتستان میں بچوں کے خلاف جسمانی سزا کا قانون 2015۔ ( 8 ) گلگت بلتستان پبلک سروس کمیشن کا ترمیمی بل 2016۔ ( 9 ) گلگت بلتستان میں دیواروں پر اظہار خیال کی ممانعت کا قانون 2016۔ ( 10 ) گلگت بلتستان میں عارضی رہائش گاہوں کے بارے میں معلومات کا قانون 2016۔ ( 11 ) گلگت بلتستان کمزوروں کے لئے تحفظ کے قیام کا قانون 2016۔ ( 12 ) گلگت بلتستان طبی اور صحت کے اداروں کا قانون 2016۔

( 13 ) گلگت بلتستان میں میڈیکل کالجز کو چلانے کا قانون 2016۔ ( 14 ) گلگت بلتستان میں لاؤڈ سپیکر کے ضابطے کا قانون 2017۔ ( 15 ) گلگت بلتستان میں آفات کی روک تھام کا قانون 2017۔ ( 16 ) گلگت بلتستان انسداد بدعنوانی کا قانون 2017۔ ( 17 ) گلگت بلتستان میں نجی قرضوں میں سود کی ممانعت کا قانون 2017۔ ( 18 ) گلگت بلتستان میں بچوں کے تحفظ کا قانون 2017۔ ( 19 ) گلگت بلتستان میں پولیس کی فلاح و بہبود کا قانون 2018۔

( 20 ) گلگت بلتستان میں فنی و پیشہ ورانہ تعلیم کا قانون 2018۔ ( 21 ) گلگت بلتستان میں گروپ انشورنس اور رفاہی فنڈ کا قانون 2018۔ ( 22 ) اراکین اسمبلی کے مراعات کا ترمیمی قانون 2018۔ ( 23 ) گلگت بلتستان میں ایکسائز کا قانون 2018۔ ( 24 ) گلگت بلتستان میں ڈاکٹروں کی مستقلی کا قانون 2018۔ ( 25 ) گلگت بلتستان لیویز فورس کا قانون 2018۔ ( 26 ) گلگت بلتستان میں صدقات و خیرات کا قانون 2018۔ ( 27 ) گلگت بلتستان میں انسداد بدعنوانی کا ترمیمی قانون 2018۔

( 28 ) گلگت بلتستان کے ملازمین کی صحت اور تحفظ کا قانون 2018۔ ( 29 ) گلگت بلتستان میں تحفظ جنگلات کا قانون 2019۔ ( 30 ) گلگت بلتستان میں عوام کی نجی شراکت داری کا قانون 2019۔ ( 31 ) گلگت بلتستان میں معذور افراد کا قانون 2019۔ ( 32 ) گلگت بلتستان میں بورڈ آف انوسٹمنٹ کا قانون 2019۔ ( 33 ) گلگت بلتستان میں سرکاری ملازمین کا ترمیمی قانون 2019۔ ( 34 ) گلگت بلتستان کی ماتحت عدالتوں کے سروسز ٹریبونل کے قیام کا قانون 2019۔

( 35 ) گلگت بلتستان میں مستقلی سیپ سکول ٹیچرز کا قانون 2019۔ ( 36 ) گلگت بلتستان میں استغاثہ کے افعال و اختیار کا قانون 2019۔ ( 37 ) گلگت بلتستان سروس ٹریبونل کا ترمیمی قانون 2019۔ ( 38 ) گلگت بلتستان میں کم عمری میں ملازمت کا قانون 2019۔ ( 39 ) گلگت بلتستان میں کم سے کم اجرت کا قانون 2019۔ ( 40 ) گلگت بلتستان سروس ٹریبونل کا ترمیمی قانون 2020۔ ( 41 ) گلگت بلتستان میں جبری مزدوری کا قانون 2020۔ ( 42 ) گلگت بلتستان میں جنگلات کا ترمیمی قانون 2020۔

( 43 ) گلگت بلتستان میں عارضی ملازمین کی مستقلی کا قانون 2020۔ ( 44 ) گلگت بلتستان میں بنیادی تعلیم کا قانون 2020۔ ( 45 ) گلگت بلتستان میں پرائیویٹ سکول و کالجز کا قانون 2020۔ ( 46 ) گلگت بلتستان میں تمباکو کنٹرول کا قانون 2020۔ ( 47 ) گلگت بلتستان پی پی ایچ آئی کا قانون 2020۔ ( 48 ) گلگت بلتستان پریس فاؤنڈیشن کا قانون 2020۔ ( 49 ) گلگت بلتستان ہوٹل، کیمپنگ سائیڈ ودیگر سہولیات کا قانون 2020۔ ( 50 ) گلگت بلتستان ٹور آپریٹرز کا قانون 2020۔

( 51 ) گلگت بلتستان ٹوریسٹ گائیڈ کا قانون 2020۔ ( 52 ) گلگت بلتستان Covid۔ 19 کا قانون 2020۔ ( 53 ) گلگت بلتستان انفیکشن ڈیزیز کا قانون 2020۔ ( 54 ) گلگت بلتستان ہوٹل لیوی کا قانون 2020۔ ( 55 ) گلگت بلتستان اسمبلی سیکریٹریٹ ریکروٹمنٹ، ٹرمز اینڈ کنڈیشنز کا ترمیمی قانون 2020۔ ( 56 ) گلگت بلتستان ناظرہ و قرآنی تعلیم کا قانون 2020۔ ( 57 ) گلگت بلتستان میں سٹیز ڈیولپمنٹ (شہری ترقی) کا قانون 2020۔ ( 58 ) گلگت بلتستان میں ڈاکٹروں کی سروس مستقلی کا قانون 2020۔ ( 59 ) گلگت بلتستان سیف سٹیز اتھارٹی کا قانون 2020۔ ( 60 ) گلگت بلتستان ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کا قانون 2020 شامل ہیں۔

یاد رہے کہ ان قوانین میں سے اکثریت کو دوسری اور تیسری مرتبہ مختلف ترامیم کے ساتھ پاس کیا گیا۔ جبکہ بعض قوانین ایسے بھی پاس کیے گئے ہیں جن کا عوام یا علاقے کے اجتماعی مفاد سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ مثلاً اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور ممبران اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات کا قانون۔

گلگت بلتستان آرڈر 2018 کے تحت گلگت بلتستان اسمبلی کی ایک پارلیمانی سال میں کم از کم تین اجلاس جبکہ مجموعی طور پر 130 روز کی کارروائی لازمی ہے۔ مگر گلگت بلتستان کی گزشتہ اسمبلی کے ایک پارلیمانی سال کے دوران کم سے کم پانچ اجلاس اور زیادہ سے زیادہ بارہ اجلاس بھی منعقد ہوئے۔ لیکن اس کے باوجود پانچ سال میں اسمبلی کا کل دورانیہ 150 دنوں کی نشست پر مشتمل رہا۔ اس دوران بھی وزیر اعلیٰ سمیت ٹرثری بنچوں کے ذمہ داران کی حاضری اپوزیشن کی نسبت کم اور انتہائی مایوس کن رہی ہے۔

بحیثیت وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان صاحب اسمبلی کی اس 150 روزہ کارروائی کے دوران صرف 38 دن اسمبلی اجلاس میں حاضر رہے ہیں۔ جبکہ ان کے مقابلے میں اسلامی تحریک پاکستان کے رکن اسمبلی و چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کیپٹن ریٹائرڈ سکندر علی 137 اور پاکستان تحریک انصاف کے راجہ جہانزیب 134 دن ایوان کی کارروائی میں حاضر رہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوامی حقوق کے تحفظ اور علاقائی امور پر قانون سازی کے نام پر عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے نمائندوں کی اپنے اصل کام میں اس قدر عدم دلچسپی کی آخر کیا وجوہات ہیں؟

سوال یہ بھی ہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی سے پانچ سال کے اس عرصے میں منظور شدہ ان قوانین پر کس حد تک عملدرآمد ہو رہا ہے؟ اور ان قوانین کے اطلاق سے علاقے میں کون سی نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں؟ اگر کسی قانون پر اب تک عمل درآمد نہیں ہورہا ہے تو اس میں قصور وار کون ہے؟

سوال یہ بھی ہے کہ کیا اسمبلی میں آنے والے ممبران اس قدر غریب اور لاچار ہوتے ہیں جو عوامی نمائندگی کو روزگار کا ایک ذریعہ بنا کر اولین فرصت میں اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے قوانین کی منظوری دیتے ہیں؟

سوال یہ بھی ہے کہ گلگت بلتستان کا یہ سب سے بڑا عوامی فورم عوام کے بنیادی حقوق اور علاقے کے وسائل کے تحفظ سے متعلق قانون سازی میں کیونکر بھیگی بلی بنی رہی؟

یہ تمام سوالات عوام کو آمدہ الیکشن کے امیدواروں سے ضرور پوچھنے چاہیے کہ انہوں نے گزشتہ پانچ سال میں انہیں کیا گل کھلائے جو اب دوبارہ نمائندگی کی غرض سے ووٹ مانگنے آئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).