ٹوٹا ہوا تسلسل،وہ بھی مسلسل


میں حوا کا پرتو ہوں۔ ہم دونوں آ منے سامنے کھڑی تھیں۔ میں نے اس کو دیکھا اس کے مدھر وجود سے محبت ناز، تخیل، فرصت، رنگ، موسیقی سب پھوٹے پڑتے تھے۔ وہ جنت کے حسین پھولوں سے لدے، دودھ اور شہد کی آبشاروں، جھرنوں اور ندیوں والے باغ کی مکیں تھی۔ اپنی حیران ہوتی صندلی آنکھوں سے وہ اس حسن کو دن رات گھونٹ گھونٹ پیتی تھی۔ وہ حوا تھی، خالق کے حسن و جمال کی انتہا۔ جب آدم کے کندھوں پر پیغمبری کی ذمہ داری ڈالی گئی، حوا اپنی فرصتوں کے دوش پر بہشت کی سیر کرتی تھی۔

میں اس کی پرچھائیں تھی، میں نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر وقت کے پیمانے پر اپنا سفر شروع کیا۔ تہذیبوں کا سفر شروع ہوا۔ میں نے محبت میں کی گئی غلطی دیکھی اور نفرت بھی کیے گئے گناہ بھی دیکھے۔ آدم اور حوا سے بھول ہوئی وہ شجر ممنوعہ کے اسیر ہوئے لیکن اس بھول کی اساس میں محبت تھی۔ معافی تو مل گئی لیکن انسانی تہذیب کے آغاز کا بہانہ بن گئی۔ حوا کا مدھر، خوبصورت نغمہ ازل سے گایا گیا اور رہتی دنیا تک گایا جائے گا۔ وہ محبت کا گیت تھی۔

میں نے ایک اور عکس دیکھا حوا کا۔ اس کے دبے ہوئے گیت اس پہ آگہی بن کے جب آشکار ہوئے تو وہ سسک اٹھی، ’میں جانتی ہوں قیدی پرندے کیوں گاتے ہیں‘ ۔ مایا اینجلو نفرت میں کیے گناہ کا شکار ہوئی۔ ریپ اور نسلی تفاخر کا کرب جھیلا اور اپنا نغمہ گنگناتی امر ہو گئی۔

میں وقت کے پیمانے پر بگولہ بنی محو سفر تھی۔ جب ایک اور پرچھائیں کا حواس پہ چھا جانے والا گیت سنا۔ ’اگرچہ جس جنس سے میرا تعلق ہے، تم اسے کمزور سمجھتے ہو، تا ہم تم مجھے وہ چٹان پاؤ گے جسے کوئی طوفان نہ توڑ سکا‘ ۔ اور لوح پہ نقش ہو گیا یہ نغمہ بھی جو ملکہ الزبتھ نے گایا تھا۔ مجھے حوا کے ہر عکس سے محبت ہو چکی تھی جب اچانک میں نے ایک نوحہ، ایک ماتم سنا۔ وقت کا پیمانہ ادھر خون سے لتھڑا تھا۔ میری روح کانپ گئی جب میں نے حوا کا یہ عکس دیکھا۔

یہ زینب تھی۔ میں اس کے بچپن کا خون ہوتا دیکھ رہی تھی۔ میری آنکھ کی پتلیاں خوف سے جامد ہو گئیں۔ میں پتھر کی ہو چکی تھی۔ میں نے نفرت میں کیے گناہ کو دیکھا۔ میرا وجود وزنی ہو چکا تھا۔ میری پرواز تھم گئی۔ میں روتی رہی، چیختی رہی، لیکن اس کو بچا نہ پائی۔ اور وہ میرے سامنے وقت کی دھول میں کھو گئی۔ اس کا گیت نوحہ بن کر کائنات کے کونوں کھدروں میں سہم کے جا دبکا۔ یہ وہ نغمہ تھا جو گنگنایا نہ گیا۔

لیکن مجھے سفر جاری رکھنا تھا۔ میں نے ایک حوا کا پرتو ایڈا لو لیس کا گیت سنا۔ وہ بہت اعتماد سے دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی دھن بنا رہی تھی، ’میرا ذہن محض فانی ہونے سے کچھ زیادہ ہے۔ جیسا کے وقت بتائے گا‘ ۔ اور اس کے الفاظ اس کے کارناموں کی شکل مجسمہ کائنات میں نقش ہو گئے۔

مجھے پھر سے خود سے دیوانگی کی حد تک محبت محسوس ہوئی۔ جب اچانک لوح پہ کنندہ ایک ٹوٹا بت دیکھا۔ یہ تو وہ عورت ہے، وہ ماں ہے، جو اپنے بچوں کے سامنے بربریت کا شکار ہوئی۔ اس کے نقصان کا مداوا کیسے ہو گا؟ وہ زندگی کیسی زندگی ہو گی؟ وہ یاد کیسی یاد ہو گی۔ اس کا وقار، اس کی شخصیت، اس کا بت ٹوٹ کر پوری کائنات میں بکھر گیا۔ وہ کس خاک سے چھان خود کو اکٹھا کرے گی؟ جنت کے باغوں سے اتری محبت کا تار تار وجود ادھورے نغمے، ششدر نوحے دے کر وقت کے سمندر میں ڈوب گیا۔ اور میری آنکھوں سے کئی موتی گرے، بنا سیپ وقت کی پاتال میں کھو گئے۔

میں بہت تھک گئی تھی۔ اس محبت اور نفرت کے تضاد نے میری روح میں رخنے ڈال دیے تھے۔ کس کی اجازت سے حوا کا وجود محبت اور نفرت دونوں کا تجربہ کرنے کی جگہ بنا؟ وہ تو ایک آزاد وجود تھا۔ سنو سنو مجھے تو غنودگی ہو رہی تم ایک آخری نغمہ سنو۔ ۔ ۔ وہ گنگنا رہی ہے۔ ۔ ۔ روزا پارک، ’میں ایک ایسے فرد کی طرح یاد رکھی جانا چاہتی ہوں جو آزاد رہنا چاہتی تھی‘ ۔

وقت کی دھول میں حوا کے کئی پر تو کھو گئے اور بہت سے دشت کے ذرے اسی دھول کو طاقت بنا کہ کائنات کے ماتھے پر جھومر کی طرح سج گئے۔ ہاں بہت سے مرثیے اور نغمے گھل مل گئے۔ میں اپنا سفر پورا کر کے اس کی آنکھوں سے نکلنے کو تھی، جب مجھ سے پوچھا گیا محبت یا نفرت؟ گیت یا نوحہ۔ ۔ ۔ کہ تمہیں بھی اپنا حصہ ڈالنا ہو گا، ایک ٹوٹا ہوا تسلسل وہ بھی مسلسل۔ تو سنو نہ محبت نہ نفرت، نہ نغمہ، نہ نوحہ۔ کہ اکثر ”نہ سنائی دینے والے گیت، سنائی دینے والے گیتوں سے زیادہ میٹھے ہوتے ہیں“ ۔

نغمانہ حسیب
Latest posts by نغمانہ حسیب (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).