فن سین فائلز: متحدہ عرب امارات کا مرکزی بینک ایران پر عائد پابندیوں کے باوجود لین دین روکنے میں ناکام رہا


فن سین فائلز، متحدہ عرب امارات کے مرکزی بینک

بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے مرکزی بینک کو ایک مقامی کمپنی کے بارے میں متنبہ کیا گیا تھا کہ وہ ایران پر عائد پابندیوں کے باوجود اس کی مدد کر رہی ہے لیکن انھوں نے ان معلومات کی بنا پر کوئی کارروائی نہیں کی۔

لیک ہونے والی دستاویزات میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سنہ 2011 اور 2012 کے دوران دبئی میں قائم گونز جنرل ٹرینڈنگ نامی کمپنی نے اماراتی مالیاتی نظام کے ذریعے 142 ملین (14 کروڑ 20 لاکھ) ڈالر کی مشکوک منتقلی کی۔

ان سرگرمیوں کی شکایت ایک برطانوی بینک نے کی تھی لیکن اس کے باوجود یہ کمپنی مقامی مالیاتی اداروں کو استعمال کرتی رہی۔

سنہ 2016 میں امریکہ نے بتایا تھا کہ ان کے ادارے رقم کی منتقلی کو منظر عام پر لانے والی ایک تحقیقات میں ملوث تھے۔

بی بی سی کی جانب سے رابطہ کیے جانے پر متحدہ عرب امارات کے مرکزی بینک نے جواب نہیں دیا۔

یہ بھی پڑھیے

ایچ ایس بی سی بینک کے ذریعے کیسے کروڑوں ڈالر کے فراڈ کی رقم منتقل کی گئی؟

ملائیشیا کا مالی سکینڈل جس کے جھٹکے ساری دنیا میں محسوس ہوئے

پاکستان منتقل ہونے والی رقوم میں اضافہ: کیا ہنڈی، حوالہ میں کمی آئی ہے؟

پاناما کیس میں کب کیا ہوا؟

گونز جنرل ٹریڈنگ کمپنی گذشتہ دو برسوں کے دوران ختم ہوچکی ہے۔ بی بی سی تاحال اس کمپنی سے منسلک کسی شخص سے رابطہ قائم نہیں کرسکا۔

ان دستاویزات کو فن سین فائلز کا نام دیا گیا ہے اور انھیں بزفیڈ نیوز نے لیک کیا ہے جس کے بعد انھوں نے ان دستاویزات کو انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) اور بی بی سی نیوز عربی کے ساتھ شیئر کیا۔

ایران پر عائد کن پابندیوں کی خلاف ورزی ہوئی؟

امریکہ نے پہلی مرتبہ ایران پر اس وقت پابندیاں عائد کی تھیں جب 1979 سے 1981 کے دوران تہران میں امریکی سفارتی حکام اور شہریوں کو یرغمال بنایا گیا تھا۔

اس کے بعد سے امریکہ کی ہر انتظامیہ نے ایران پر اس کا رویہ بدلنے کے لیے پابندیاں متعارف کرائیں۔ ان میں سے ایک اس کے جوہری منصوبے کو محدود کرنا تھا۔

سنہ 2012 میں ایرانی بینکوں کو بینکاری کے عالمی نظام سے الگ کر دیا گیا تھا جس کے تحت رقم کی منتقلی ڈالر میں کی جاتی ہے۔

امریکی استغاثہ نے الزام لگایا کہ گونز جنرل ٹریڈنگ ایک ایسے نیٹ ورک کا حصہ ہے جسے سونے کے ترک ایرانی تاجر رضا ضراب چلاتے ہیں۔ اس کمپنی نے امریکی پابندیوں کے باوجود ایرانی حکومت اور ایرانی کمپنیوں کے لیے لاکھوں ڈالرز کی رقم کی منتقلی کی ہے۔

اس کمپنی کی سرگرمیوں سے متعلق تمام تشویش اس وقت ختم ہوگئی تھی جب ضراب کو امریکہ میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

سنہ 2017 میں ضراب نے جعلسازی، سازش اور منی لانڈرنگ جیسے جرائم کا اعتراف کر لیا تھا۔ لیکن انھیں اب تک سزا نہیں سنائی گئی۔

دستاویزات میں کیا تھا؟

متحدہ عرب امارات میں قائم بینک امریکی ڈالر میں رقم منتقل کرنے کی نگرانی اور منظوری کے لیے بڑے امریکی بینکوں پر انحصار کرتے ہیں۔ اس سروس کو ‘کارسپونڈنٹ بینکنگ’ کہتے ہیں۔

کارسپونڈنٹ بینک کے لیے حکام کو الرٹ کرنا لازم ہوتا ہے اگر وہ جرائم کی کسی ممکنہ سرگرمی کا علم رکھتے ہوں، جیسے منی لانڈرنگ یا دہشت گردی کی مالی معاونت۔ یہ کرنے کے لیے انھیں سسپیشیئس ایکٹیویٹی رپورٹ (ایس اے آر) نامی دستاویزات درج کرنی ہوتی ہیں۔

گونز جنرل ٹریڈنگ

فن سین فائلز میں ایک ایس اے آر کے مطابق برطانیہ کے سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کی نیویارک برانچ نے 2012 میں یو اے ای کے مرکزی بینک سے رابطہ کیا تھا اور انھیں گونز جنرل ٹریڈنگ کی سینکڑوں مشکوک سرگرمیوں (رقم کی منتقلی) سے متعلق بتایا تھا۔ ان دستاویزات میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ ان سرگرمیوں کا تعلق ایران پر عائد پابندیوں سے ہے۔

ایس اے آر کے ذریعے حکومتی نگراں اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو غیر معمولی سرگرمیوں سے متعلق آگاہ کیا جاتا ہے تاکہ ان کی چھان بین ہوسکے۔ تاہم ضروری نہیں کہ یہ کسی غیر قانونی سرگرمی کے خلاف ثبوت بھی ہوں۔

یو اے ای کے مرکزی بینک نے سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کو بتایا تھا کہ ‘یہ کیس قانون نافذ کرنے والے اداروں کو منتقل کیا جاچکا ہے’ اور یہ کہ ‘ان اکاؤنٹس کو ستمبر 2011 میں بند کر دیا گیا تھا۔’

لیکن سٹینڈرڈ چارٹرڈ نے شکایت کی کہ یہ کمپنی ‘دوسرے بینکوں میں اپنے کئی اکاؤنٹ استعمال کر کے مشکوک سرگرمیاں جاری رکھ سکتی ہے۔’

درحقیقت مرکزی بینک گونز جنرل ٹریڈنگ کو روکنے میں ناکام رہا تھا اور یو اے ای کے دو بینکوں راک بینک (نیشنل بینک آف ناردرن امارات راس الخیمہ) اور نیشنل بینک آف دبئی (این بی ڈی) میں اکاؤنٹ فعال رہے۔

فن سین فائلز کے مطابق گونز جنرل ٹریڈنگ ستمبر 2012 تک مزید 108 ملین (10 کروڑ 80 لاکھ) ڈالر رقم کی منتقلی کرنے میں کامیاب رہی۔ اس کا اکثر حصہ راک بینک کے ذریعے منتقل کیا گیا۔

راک بینک کا کہنا ہے کہ وہ رازداری کی بنا پر مخصوص منتقلیوں پر بات نہیں کرسکتے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ انسداد منی لانڈرنگ اور پابندیوں کے قوانین پر عمل کرتے ہیں اور انھوں نے اس کی نگرانی کے لیے سخت پالیسیاں اختیار کی ہوئی ہیں۔

بی بی سی نے این بی ڈی سے بھی رابطہ کرنا چاہا لیکن انھوں نے جواب نہیں دیا۔

اپریل 2013 میں امریکی بینک آف نیو یارک میلن نے ایک ایس اے آر درج کیا تھا۔ یہ تب ہوا جب امریکی حکومت نے گونز جنرل ٹرینڈنگ کے خلاف تحقیقات شروع ہوئی۔ اس ایس اے آر کے مطابق کمپنی ایک ایسے طریقے سے رقم کی منتقلی کر رہی تھی جس کا مقصد ایران پر عائد پابندیوں کے سلسلے میں اس کی مدد کرنا تھا۔

رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے ٹام کیٹنج کے مطابق ‘حکومتی اداروں کو مالیاتی جرائم کے مبینہ واقعات کی چھان بین کرنی چاہیے اور مالیاتی نظام کی ساکھ کا بچانا چاہیے۔’

‘اس کیس میں سوال اٹھتا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے دوسرے حصے کی ذمہ داری کتنی سنجیدگی سے لی۔ جرائم پیشہ افراد (اداروں کی جانب سے) معلومات منتقل نہ ہونے کے نتیجے میں کامیاب ہوتے ہیں اور یہ اس ناکامی کی بہترین مثال ہے۔’

FinCEN Files strap

فن سین فائلز لیک ہونے والی خفیہ دستاویزات ہیں جن میں انکشاف ہوا ہے کہ کیسے بڑے بینکوں نے مجرموں کو جرائم سے حاصل ہونے والا پیسہ دنیا بھر میں منتقل کرنے میں مدد دی۔ ان دستاویزات سے یہ بھی سامنے آیا کہ کیسے برطانیہ کو اکثر مالیاتی نظام کی کمزور کڑی سمجھا جاتا ہے اور کیسے لندن روسی دولت سے بھرا ہوا ہے۔

یہ فائلز میڈیا ادارے بزفیڈ نیوز نے حاصل کیں جس نے انھیں انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) اور دنیا بھر میں 400 صحافیوں تک پہنچایا۔ پینوراما نے بی بی سی کے لیے اس تحقیق کی سربراہی کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp