کمبوڈیا: جہاں ’چھوٹے کپڑے‘ پہننے پر پابندی کی تیاریاں ہو رہی ہیں


کمبوڈیا کی ماڈلز

کمبوڈیا کی ماڈلز

جب 18 سالہ مولیکا ٹین نے پہلی بار یہ سنا کہ کمبوڈیا میں حکومت ایک ایسے قانون کا مسودہ تیار کررہی ہے جس میں خواتین کو ‘مختصر لباس’ پہننے پر جرمانہ عائد کیا جائے گا تو وہ اس قدر پریشان ہوگئیں کہ انھوں نے اس کے خلاف ایک آن لائن مہم شروع کر دی۔

مجوزہ قانون کے تحت کمبوڈیا کی خواتین کو ‘بہت کم یا ہیجان پیدا کرنے والے’ لباس پہننے کی ممانعت ہوگی اور مردوں کے ٹاپ لیس ہونے پر بھی پابندی ہوگی۔

یہ بھی پڑھیے

عورت کیا پہنے، کیا کرے اختیار کس کا؟

کمبوڈیا: فحش فلمیں بنانے کے الزام میں سیاح ملک بدر

یہ ’فیمنسٹ‘ اصل میں کیسی ہوتی ہیں؟

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ثقافتی روایات اور معاشرتی وقار کو بچانے کی کوششوں کے طور پر یہ قانون متعارف کرا رہی ہے۔ لیکن بہت سارے لوگ اس طرح کے قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں۔

مولیکا اسے خواتین کے حقوق پر حملہ قرار دیتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں: ‘ایک نوجوان کمبوڈین ہونے کے ناطے میں گھر کے باہر محفوظ محسوس کرنا چاہتی ہوں اور ایسے کپڑے پہننا چاہتی ہوں جس میں مجھے راحت محسوس ہو۔ میں اپنے کپڑوں کے ذریعے اپنا اظہار کرنا چاہتی ہوں اور میں نہیں چاہتی کہ حکومت مجھ پر پابندیاں لگائے۔’

وہ کہتی ہیں: ‘میرا خیال ہے کہ خواتین کو شارٹ سکرٹ پہننے سے روکنے والے قانون نافذ کرنے کے بجائے ثقافتی روایات اور وراثت کو برقرار رکھنے کے اور بھی طریقے ہیں۔’

انھوں نے گذشتہ ماہ ایک آن لائن پٹیشن شروع کی تھی اور اب تک 21 ہزار سے زیادہ لوگ اس پر دستخط کر چکے ہیں۔

اس بابت دوسری خواتین بھی اپنے خیالات شیئر کر رہی ہیں اور ایک سوال کے ساتھ اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر رہی ہیں کہ ‘کیا اس وجہ سے مجھ پر جرمانہ لگایا جائے گا؟’ اس کے ساتھ وہ ‘مائی باڈی مائی چوائس’ ہیش ٹیگ استعمال کررہی ہیں۔

مولیکا کا کہنا ہے کہ ‘ہم سے ہمیشہ توقع کی جاتی ہے کہ ہم مردوں کے ماتحت رہیں۔’

وہ یہ بات تسلیم کرتی ہیں کہ عقائد سے لوگوں کا رویہ طے ہوتا ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ خواتین کو دوسروں کی اطاعت کرنی چاہیے اور انھیں شائستہ ہونا چاہیے۔

حالیہ برسوں میں حکومت نے ‘اشتعال انگیز’ یعنی جسم کی نمائش کرنے والے خواتین کے لباس پہننے کے ساتھ ہی ان اداکاروں اور گلوکاروں کی پرفارمینسز پر بھی پابندی عائد کی ہے جن کے لباس پر اعتراض کیا گیا تھا۔

اپریل میں ایک خاتون کو چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

سوشل میڈیا پر کپڑے بیچنے والی اس خاتون کو ’فحاشی بڑھانے‘ اور ‘اشتعال انگیز’ کہے جانے والے لباس پہننے کا قصور وار ٹھہرایا گیا تھا۔

وزیر اعظم ہون سین نے اس وقت عورت کی براہ راست نشریات کو ‘ہماری ثقافت اور روایات’ کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کے سلوک جنسی ہراس اور خواتین کے خلاف تشدد کا باعث بن سکتے ہیں۔

مجوزہ ضابطے کے خلاف مہم میں حصہ لینے والی 18 سالہ آئیلین لم کا کہنا ہے کہ وہ ’وکٹم بلیمنگ‘ یعنی متاثرہ فرد کو ہی مورد الزام ٹھہرانے کی ’کمبوڈین روایت‘ کو سب کے سامنے لانا چاہتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں: ‘اگر یہ (قانون) منظور ہوجاتا ہے تو اس خیال کو تقویت ملے گی کہ جنسی ہراس کے مرتکب فرار ہوسکتے ہیں کہ اس میں ان کا قصور نہیں ہے۔’

وہ یہ بھی کہتی ہیں: ‘کمبوڈیا میں بڑے ہونے کے دوران مجھے ہمیشہ بتایا گیا کہ میں رات آٹھ بجے تک گھر آؤں اور اپنا جسم زیادہ نہ دکھاؤں۔’

مسودے کے بل میں لباس سے متعلق قوانین پر سب سے زیادہ بحث سوشل میڈیا پر کی جارہی ہے لیکن سماجی کارکن مسودے کے دیگر پہلوؤں پر بھی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

اس تجویز میں ‘ذہنی مریضوں’ کے ‘عوامی مقامات پر آزادانہ طور پر گھومنے پھرنے، بھیک مانگنے’ پر پابندی کے ساتھ ‘عوامی مقامات’ پر پُرامن اجتماع سے قبل انتظامیہ کی منظوری بھی شامل ہے۔

کمبوڈین سینٹر فار ہیومن رائٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر چک سوپے جیسی کارکنان کا کہنا ہے کہ اگر یہ قانون منظور ہوا تو اس سے معاشرے کے غریب ترین طبقات متاثر ہوں گے۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘اس سے غربت اور عدم مساوات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔’

اگر حکومت کی وزارتوں اور قومی اسمبلی نے اس کو منظوری دے دی تو یہ قانون اگلے سال سے نافذ ہوگا۔

وزارت داخلہ کے سیکریٹری اوک کملیکھ نے بی بی سی کی جانب سے انٹرویو کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون کا ‘پہلا مسودہ’ ہے۔

لیکن چک سوپے کو خوف لاحق ہے کہ اگر لوگ دباؤ نہ ڈالیں تو یہ بغیر جانچ کے منظور ہو سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں: ‘کمبوڈیا میں اکثر قوانین عجلت میں بنائے جاتے ہیں، جس میں متعلقہ لوگوں سے مشاورت یا تو بہت کم ہوتی ہے یا کبھی نہیں کی جاتی ہے۔’

مولیکا کو اب بھی امید ہے کہ ان کی عرضی اس طرح کی بیدار پیدا کرے گی کہ حکومت تبدیلیاں کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔

وہ کہتی ہیں؛ ‘میں یہ دکھانا چاہتی ہوں کہ ہمیں یہ ضابطے قطعی منظور نہیں ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp