شوپیاں انکاؤنٹر: ‘ہمیں اپنے بیٹوں کی میتیں چاہییں تاکہ ہم ان کی باقاعدہ تدفین کر سکیں‘


انڈین فوجی

(فائل فوٹو)

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ضلع شوپیاں کے امشی پورہ علاقے میں سکیورٹی فورسز نے مسلح افواج کو حاصل خصوصی قانون (اے ایف ایس پی اے) میں دیے گئے اختیارات سے ’تجاوز‘ کر کے ایک کارروائی میں حصہ لیا تھا۔

18 جولائی سنہ 2020 کو ہونے والی اس کارروائی کے بعد انڈین فوج نے مقابلے میں تین ’نامعلوم شدت پسندوں‘ کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم اب ہونے والی تحقیقات کے نتیجے میں کچھ ابہام سامنے آئے ہیں اور فوج کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرے گی۔

آپریشن میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نے تحقیقات کے نتائج کا خیرمقدم کیا ہے اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

شوپیاں انکاؤنٹر: ’جوانوں نے اختیارات سے تجاوز کیا‘، انڈین فوج کا اعتراف

شوپیاں ’شدت پسندی‘ کا مرکز کیوں بن رہا ہے؟

کشمیریوں کے دل و دماغ پر چھائی مایوسی کی چادر

ہلاک ہونے والے تینوں افراد کو شمالی کشمیر کے ضلع بارہ مولہ کے گنٹمولہ قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا تھا، یہ قبرستان انکاؤنٹر کی جگہ سے تقریباً 100 کلومیٹر دور ہے۔

گنٹمولہ قبرستان سکیورٹی فور‎سز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے ’غیر ملکی شدت پسندوں‘ کے لیے مخصوص ہے۔

معاملے کی گتھی کیسے سلجھی؟

انکاؤنٹر کے 22 دن بعد تین نوجوانوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ تینوں لڑکے دراصل جموں و کشمیر کے ضلع راجوری میں مزدور تھے۔

10 اگست 2020 کو سرینگر میں مقیم فوج کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم نے 18 جولائی 2020 کو شوپیاں میں آپریشن سے متعلق لنک پر غور کیا ہے۔‘

انڈین فوجی

انھوں نے کہا ’اس آپریشن میں مارے گئے تین دہشت گردوں کی شناخت نہیں ہو سکی ہے اور انھیں موجودہ قواعد کے مطابق دفن کیا گیا ہے۔ فوج اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔‘

ایک ہفتہ بعد 18 اگست کو فوج نے کہا کہ ’جیسا کہ 11 اگست کو اطلاع دی گئی تھی کہ امشی پورہ میں 18 جولائی 2020 کو ہونے والے آپریشن کے بارے میں ایک اعلیٰ سطحی عدالتی انکوائری جاری ہے۔‘

جموں وکشمیر پولیس کی ایک ٹیم راجوری گئی اور ہلاک ہونے والے افراد کے اہلخانہ کے ڈی این اے نمونے حاصل کیے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج ابھی آنا باقی ہیں۔

اس کے بعد فوج نے 18 اگست کے اپنے بیان میں کہا کہ ’اہم گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے جا رہے ہیں اور تحقیقات کی پیشرفت کی نگرانی کی جا رہی ہے۔‘

’اضافی گواہوں کو عدالتی انکوائری میں طلب کیا جا رہا ہے۔ نیز جموں و کشمیر پولیس کے تحت راجوری سے ڈی این اے کے نمونے بھی جمع کیے گئے ہیں۔‘

18 ستمبر 2020 کو سرینگر میں مقیم دفاعی ترجمان راجیش کالیا نے کہا کہ ’آپریشن امشی پورہ کیس میں فوج کی جانب سے کی جانے والی تفتیش مکمل ہو چکی ہے۔ اس تفتیش کے دوران بادی النظر میں کچھ شواہد سامنے آئے ہیں جو یہ اشارہ کرتے ہیں کہ آپریشن کرنے میں اے ایف ایس پی اے (افسپا) 1990 میں دیے گئے اختیارات کی حد سے تجاوز کیا گیا ہے اور سپریم کورٹ کے منظور شدہ کوڈ کہ فوجی افسران کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔‘

’اس کے نتیجے میں انضباطی اتھارٹی نے ہدایت کی ہے کہ وہ ان لوگوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت تادیبی کارروائی شروع کرے جو پہلی نظر میں جوابدہ ہیں۔‘

راجیش کالیا نے کہا کہ ’تحقیقات میں پائے جانے والے شواہد سے پہلی نظر میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپریشن امشی پورہ میں مارے گئے تین نامعلوم دہشت گرد امتیاز احمد (21)، ابرار احمد (25) اور محمد ابرار (17) تھے جو راجوری میں رہتے تھے۔ ان کی ڈی این اے رپورٹ آنے والی ہے۔ پولیس ان کی دہشت گردی یا اس سے وابستہ دیگر سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی تحقیقات کر رہی ہے۔‘

ایک پولیس افسر نے خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کو بتایا کہ پولیس ان تینوں نوجوانوں کی کال تفصیلات کی تحقیقات کر رہی ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی پتا لگا رہی ہے کہ جب ان کے کرائے کے مکان میں آپریشن شروع ہوا تو انھوں نے کھڑکی سے کیوں چھلانگ لگائی۔

انھوں نے بتایا کہ ان لڑکوں کی آمد کے بعد سے شوپیاں میں سٹریٹیجک مقامات کے آس پاس ان کی موجودگی کی تحقیقات بھی کی جا رہی ہیں۔

قواعد کے مطابق اب فوجی جوانوں کے خلاف سمری آف ایویڈینس کا آغاز کیا جائے گا جس کے بعد کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہو گی۔

افسپا کے تحت سکیورٹی فورسز کے پاس وسیع اختیارات ہیں۔ افسپا کی دفعہ سات انھیں یہ استثنیٰ دیتی ہے کہ ان کے خلاف کوئی بھی سرکاری کارروائی حکومت سے منظوری لینے کے بعد ہی کی جا سکتی ہے۔

جموں و کشمیر میں افسپا 10 ستمبر 1990 کو نافذ کیا گیا تھا۔ ریاستی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وادی کشمیر اس قانون کی دفعہ تین کے تحت ایک شورش زدہ علاقہ ہے۔ بعد ازاں 10 اگست 2001 کو ریاستی حکومت نے اس کا دائرہ جموں تک بڑھا دیا۔

انڈین فوجی

اہلخانہ صدمے میں ہیں

ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نے اس انکوائری رپورٹ کا خیرمقدم کیا ہے۔ انھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ان کے بچوں کی لاشوں کو فوری طور پر ان کے حوالے کیا جائے۔

متوفی محمد ابرار کے والد محمد یوسف نے بی بی سی ہندی کے ساتھ فون پر گفتگو میں کہا ’سب سے پہلے میں فوج، انتظامیہ اور پولیس کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنھوں نے اس مشکل وقت میں میری مدد کی۔‘

’اب ہم اپنے بیٹوں کی لاشیں چاہتے ہیں۔ نہ صرف میں بلکہ تمام کنبے کے افراد اپنے بیٹوں کی لاشوں کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ ہم انھیں صحیح طور پر دفن کر سکیں۔ اس کے علاوہ میں ان فوجیوں کو دیکھنا چاہتا ہوں جنھوں نے یہ کام کیا۔ میں انھیں کچھ نہیں کر سکتا لیکن میں ان کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ ہمیں انصاف ملے گا۔‘

اپنے بیٹے کے کشمیر جانے والے دن کو یاد کرتے ہوئے محمد یوسف کہتے ہیں کہ ’جب وہ لوگ 17 جولائی کو کشمیر پہنچے تو انھوں نے مجھے فون کیا اور بتایا کہ وہ کشمیر پہنچ چکے ہیں۔ اس کال کے بعد ان سے رابطہ نہیں ہو سکا کیونکہ اس کا فون بند تھا۔ یہ اس کی آخری کال تھی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد وہ پہلے کی طرح مویشیوں کو چراگاہ لے کر چلے گئے۔ جب وہ 20 دنوں کے بعد گھر لوٹے تو ان کی بیٹی نے بتایا کہ ابرار کا فون بند جا رہا ہے۔

محمد یوسف نے کہا کہ ’نو اگست کو میں پولیس سٹیشن گیا اور تینوں لڑکوں کی گمشدگی کی اطلاعات لکھی۔ اس کے بعد میڈیا والے تینوں لڑکوں کی تصاویر ہمیں دکھانے آئے۔‘

اہلخانہ نے بتایا کہ تینوں لڑکے بھائی (کزن) تھے اور راجوری کے ایک ہی گاؤں میں رہتے تھے۔ وہ مزدوری کا کام کرتے تھے۔

ابرار چھ ماہ بعد کویت سے واپس آئے تھے اور گھر میں اپنے والد کی مدد کرتے تھے۔

محمد یوسف کہتے ہیں کہ ’میرا بیٹا مزدوری کے لیے کویت گیا تھا۔ وہ حال ہی میں کویت سے واپس آیا تھا۔ اس نے وہاں کچھ پیسہ کمایا اور کنبے کے لیے دو کمروں کا مکان تعمیر کیا۔‘

ابرار احمد اور امتیاز احمد طالب علم تھے۔ ابرار نے 12ویں پاس کی تھی اور امتیاز کو بارہویں جماعت میں داخلہ ملنے والا تھا۔

یوسف نے کہا کہ ابرار اپنے اہل خانہ کا بہت بڑا سہارا تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر کوئی باپ اپنے بیٹے کو کھو بیٹھا ہے جس نے اپنے پیچھے ایک سال کا بچہ چھوڑا ہے تو وہ کیا سوچ سکتا ہے؟ ان کے بیٹے سے زیادہ قیمتی کوئی چیز نہیں تھی، اور بیٹے اور باپ کے رشتے سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ جو بھی باپ اپنے بیٹے کو اس طرح کھو دیتا ہے وہ نہ زندہ رہتا ہے اور نہ ہی مرتا ہے۔ میرے بیٹے نے بچپن سے ایک منٹ ضائع نہیں کیا۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ بہت ایماندار تھا۔‘

راجوری سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن گفتار احمد کا کہنا ہے کہ تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ خوش آئند ہے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ مجرموں کو سزائے موت دی جائے۔

انھوں نے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کل (جمعہ) کو آنے والی تحقیقات کے نتائج متاثرین کے اہل خانہ کے لیے امید کی کرن ہیں۔ لیکن اب ہم جلد سے جلد لاشیں واپس چاہتے ہیں۔ اب ڈی این اے کی رپورٹ آنی چاہیے۔ ہم مجرموں کی پھانسی کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘

انڈین فوجی

تحقیقات کے نتائج میں ابہام

اس دوران انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سماجی کارکن فوج کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات کے نتائج میں ابہام کا ذکر کرتے ہیں۔

سرینگر میں مقیم سماجی کارکن اور وکیل پرویز امروز نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’یہ ایک بہت ہی مبہم بیان ہے جس میں فوج نے کہا ہے کہ ابتدائی شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ فوج نے اے ایف ایس پی اے کے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔‘

’لیکن یہ نہیں بتایا کہ کیا ہے؟ اس طرح کا کوئی بیان نہیں ہے کہ یہ ایک جعلی انکاؤنٹر تھا۔ بیان میں یہ بھی نہیں کہا گیا ہے کہ وہ انتہا پسند نہیں تھے بلکہ صرف مزدور تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اہم بات یہ ہے کہ یہ رائے بنائی جا رہی ہے کہ فوج نے قبول کیا ہے کہ ان کے لوگوں نے جعلی انکاؤنٹر کا ارتکاب کیا ہے، لیکن حقیقت میں انھوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ فوج نے صرف اتنا کہا ہے کہ فوجیوں نے اختیارات کی حد پار کی تھی۔ لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ کس حد کو عبور کیا گیا تھا۔‘

امروز کا خیال ہے کہ یہ مشکل امر ہے کہ قصوروار فوجیوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

ایسے معاملات جن میں فوجیوں کو قصوروار ٹھہرایا گیا

سنہ 2000 میں جنوبی کشمیر کے اننت ناگ ضلع کے پتھریبالا گاؤں میں ایک انکاؤنٹر میں سات افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ فوج نے بتایا کہ وہ لشکر طیبہ کے پاکستانی شدت پسند تھے جو چٹی سنگھ پورہ میں 35 سکھوں کو ہلاک کرنے کے ذمہ دار تھے۔

پولیس نے پھر بعد میں کہا کہ ہلاک ہونے والے ساتوں افراد مقامی شہری تھے۔ سی بی آئی نے اس کیس کی تحقیقات کے بعد کہا کہ یہ ’جعلی انکاؤنٹر اور قتل‘ تھا۔

14 سال بعد فوج نے کہا کہ ملزم فوجیوں کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا اور یہ کیس سنہ 2014 میں بند کردیا گیا۔

سنہ 2010 میں شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ میں ماچھل کے علاقے میں فوج کے ساتھ مقابلے میں تین افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

مقتولین کے لواحقین کا کہنا تھا کہ وہ بے قصور تھے۔

ان کی موت کے بعد دو ماہ تک پورے کشمیر میں مظاہرے ہوئے تھے جس میں سو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اس معاملے میں سات فوجی جوانوں سمیت ایک میجر اور دو افسران کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سنہ 2015 میں ملزمان نے نئی دہلی میں ٹریبونل کے مرکزی بینچ کے سامنے کورٹ مارشل کی کارروائی کو چیلنج کیا تھا۔

اور 25 جولائی سنہ 2017 کو ٹریبونل نے ملزمان کی عمر قید کی سزا کو معطل کردیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp