اپوزیشن کے پھوکے فائر


سیاستدان اپوزیشن کے دور میں ایویں ”پھوکے“ فائر کرتے رہتے ہیں اور عوام یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ان کے بڑے ہمدرد ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ سیاستدانوں کو عوام کا احساس صرف اپوزیشن کے دور میں ہی یاد آتا ہے۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے، بے روزگاری ہوگئی ہے، دوائیاں نہیں مل رہیں، انفراسٹکچر تباہ ہوگیا ہے، کرپشن بڑھ گئی ہے، آزادی رائے پر پابندی ہے، بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں، وغیرہ وغیرہ۔۔۔ سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتا ہے تو وہ عام آدمی کے دل کی بات کرتا ہے۔

آج بچے بچے کو یاد ہوگا کہ آج کے وزیراعظم عمران خان کل اپوزیشن کے دور میں کس طرح بلند بانگ دعوے کیا کرتے تھے۔ رول آف لاء کی بات کرتے تھے، ڈکٹیٹرشپ کے کتنے خلاف ہوا کرتے تھے بلکہ فوجیوں کی سیاست میں مداخلت کے سب سے بڑے نقاد ہوا کرتے تھے۔ کرپٹ سیاستدانوں کو الٹا لٹکانے کی بات ہوتی تھی، میڈیا کی آزادی اور انسانی حقوق کی بات ہوتی تھی۔ اور تو اور جس سیاستدان کو چپڑاسی رکھنے کے لئے تیار نہیں تھے آج انہیں وزارت دینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

یہ باتیں وہ شاید بھول گئے ہوں گے مگر جدید ٹیکنالوجی نے محفوظ کرلی ہیں۔ پھر کیا ہوا جب حکومت ملی دوسال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے مگر وہ بھول چکے ہیں کہ جن سیاستدانوں کو وہ الٹا لٹکانے کی بات کیا کرتے تھے آج وہ ان کے اتحادی ہیں اور حکومت میں شراکت دار ہیں۔ میڈیا جس نے اپوزیشن کے دور میں عمران خان کا سب سے زیادہ ساتھ دیا اور میڈیا کے جتنے لوگ عمران خان کے حکمران بننے کے بعد بے روزگار ہوئے ہیں شاید ہی کسی دور میں ہوئے ہوں گے ۔

پھر جتنی فرمانبرداری اور جی حضوری عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کی ہے وہ بھی شاید ہی کسی حکمران نے کی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے دور حکمرانی میں دھرنوں اور احتجاج سیاست دیکھنے کو نہیں ملی۔ آ ج لگ بھگ پچیس، چھبیس ماہ کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا ایک اجلاس ہوا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی میزبانی میں وفاقی دارالحکومت میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کا اجلاس منعقد ہوا جس میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے لندن سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کیا۔

میاں صاحب فرماتے ہیں کہ وطن سے دور ہوتے ہوئے جانتا ہوں کہ وطن عزیز کن مشکلات سے دوچار ہے۔ جمہوریت کی روح عوام کی رائے ہوتی ہے۔ جب ووٹ کی عزت کو پامال کیا جاتا ہے توجمہوری عمل بے معنی ہوجاتا ہے۔ انتخابی عمل سے قبل یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ کس کو ہرانا، کس کو جتانا ہے، کس کس طرح سے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلاشبہ نواز شریف نے ٹھیک فرمایا کہ انتخابی عمل سے پہلے طے کر لیا جاتا ہے کہ کس کو ہرانا ہے کس کو جتوانا ہے۔

کیونکہ سال 2013 ء کے انتخابی نتائج سے قبل میاں صاب کو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ کون جیتے گا اور انہوں نتائج کا اعلان ہونے سے قبل فتح کا اعلان کر دیا تھا اور مسلم لیگ (ن) نے واضح برتری کے ساتھ قومی اسمبلی میں حکومت بنائی، وہ اگر چاہتے تو پنجاب کے ساتھ ساتھ اتحادیوں کے ساتھ خیبر پختونخوا میں بھی حکومت بنا سکتے تھے۔ لیکن کیا مسلم لیگ (ن) نے حکمران بننے کے بعد ووٹ کو عزت دی؟ ہم نے اپنی آنکھوں سے مسلم لیگ (ن) کے ورکرز کو پارلیمنٹ کی راہداریوں میں ”رلتے“ دیکھا۔

وزیر اعظم صاحب حلف برداری کی تقریب کے بعد کئی کئی ماہ ایوان میں نہیں گئے اور اسی طرح کابینہ کا اجلاس بلانے کی زحمت گوارا نہ کی۔ پارٹی ممبران تو دور کی بات وزراء کو قسمت سے وقت ملتا تھا۔ فواد حسن فواد بالکل اسی طرح ہوا کرتا تھا جیسے آج اعظم خان ہے۔ اور خیر سے پاکستان پیپلزپارٹی کا دور تو ویسے ہی ماشا اللہ تھا۔ قسمت کی دیوی مشکل سے مہربان ہوئی تھی اور پھر ایسی صورتحال میں آئیڈئلزم کس کو یاد رہتا ہے۔

بس کھاؤ اور کھلاؤ کی پالیسی پر عمل پیرا رہے۔ انہیں شاید اتنا افسوس نہیں ہوگا، کیونکہ سب کو خوش رکھا۔ مگر کیا کسی کو یاد ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں بجلی کتنے گھنٹے بند ہوا کرتی تھی، گیس اسٹیشن پر کتنی کتنی بڑی بڑی قطاریں نظر آتی تھیں اور لاء اینڈ آرڈر کے جو حالات تھے اس سے پوری دنیا واقف تھی، بلکہ بیشتر دنیا کے لوگ تو آج بھی پاکستان کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔

بیشتر غیر ملکی سفارتکاروں کو جب پاکستان بھیجنے کے احکامات ملتے ہیں تو وہ آج بھی فیصلہ کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچتے ہیں۔ لہذا جو نعرے آج اے پی سی میں لگائے گئے ہیں وہ سب کے سب کھوکھلے ہیں اور ”پھوکے“ فائر ہیں۔ اگر موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اندر انتظامی ڈھانچے کو بہتر کرنے کے لئے صوبائی، ضلعی اور یونین کونسل کی سطح پر ری سٹکچررنگ کی جارہی ہے تو بھی مرکز میں اکثریت حاصل کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

جب کہ دوسری جانب چاچے، بھتیجی کے درمیان معاملات طے نہیں ہوئے۔ اور پھر ان دو برس کے دوران جو کردار اپوزیشن جماعتوں نے ادا کیا ہے اس سے بہتر اپوزیشن تو ہو نہیں سکتی۔ اپوزیشن جماعتوں میں اگر اتنی ”تڑ“ ہوتی تو چیئرمین سینیٹ کی عدم اعتماد کی تحریک کیوں ناکام ہوتی۔ کیا انہوں نے اپنے ان ارکان کے خلاف کوئی کارروائی کی ہے جنہوں نے در پردہ پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا۔ اس وقت تو اقلیتی نشستوں سمیت خواتین کی مخصوص نشستیں کارکردگی نہیں بلکہ سرخی پاؤڈر یا وفاداریاں /رشتہ داریاں دیکھ کر تقسیم کی گئی تھیں۔ اس سارے ماحول میں ”ڈور“ کنگ میکر کے ہاتھ میں ہے اور ایسا ہی جوڑ توڑ کیا جانا ہے جو آج پی ٹی آئی کی شکل میں نظر آ رہا ہے تو۔ پپو یار تنگ نہ کر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).