سمارٹ نانی


میاں نواز شریف کی آل پارٹیز کانفرنس سے تقریر کے بعد جس طرح مسلم لیگ (ن) کے راہنماؤں اور کارکنوں نے دادوتحسین کے ڈونگرے برسائے ہیں اس سے لگتا ہے کہ میاں نواز شریف نے اگر خود کو برا بھلا بھی کہہ دیا تو مسلم لیگی اس پر بھی یقینی طور پر واہ واہ ہی کریں گے۔

آل پارٹیز کانفرنس میں شریک راہنماؤں کے ساتھ میاں نواز شریف نے پورس کے ہاتھی والا ہی معاملہ کیا ہے۔ آصف علی زرداری، بلاول بھٹو، میاں شہباز شریف، مریم نواز، مولانا فضل الرحمان اور دیگر کو اس بات گمان تک نہیں تھا کہ وہ 9 گھنٹے جاری رہنی والی اے پی سی میں میاں نواز شریف کی فرینڈلی فائرنگ کی زد میں آ جائیں گے۔

مریم نواز چپ رہ کر اور میاں شہباز شریف اسٹیبلیشمنٹ کا منت ترلہ کر کے پاکستان میں گزربسر کر رہے ہیں اور مریم نواز کی چپ نے پورے ملک میں یہ تاثر پیدا کر رکھا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے درپردہ عمران خان سے منہ موڑ کر مسلم لیگ (ن) سے تعلقات استوار کر لئے ہیں۔ اور کچھ دیوانے تو یہ بھی کہتے سنے گئے کہ میاں نواز شریف واپس آ رہے ہیں اور جنہوں نے انہیں باہر جانے کی اجازت لے کر دی ہے انہوں نے ہی میاں صاحب کو اے پی سی میں دھواں دار خطاب کے لئے کہا ہے۔ مگر دنیا نے دیکھا کہ میاں نواز شریف دفاعی اداروں پر چڑھ دوڑے اور اپنے اندر لگی آگ کو اپنی زبان سے ظاہر کیا۔

میاں شہباز شریف کو بہت جدوجہد کرنا پڑی تھی اپنے بڑے بھائی کو جیل سے نکال کر لندن کے پرفضا ماحول میں بھجوانے کے لئے۔ اس ڈرامے کے لئے پلیٹلیٹس کی فلم الگ بنوائی گئی اور میاں نواز شریف کے لب گور ہونے کا ماتم الگ کروایا گیا۔ پھر کہیں جا کر مسلم لیگ (ن) کے چمن میں دیدہ ور پیدا ہوا اور میاں نواز شریف بیرون ملک علاج کے نام پر چلے گئے۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آصف علی زرداری اسٹیبلیشمنٹ سے ڈیل کے نتیجہ میں ہی گھر پر رہ کر کرونا کا علاج کرا رہے ہیں البتہ اے پی سی میں شرکت سیاسی طور پر زندہ رہنے کے لئے کی اور اپنے محسنون کے خلاف کچھ نہیں کہا۔ مولانا فضل الرحمان کو یہ یقین تھا کہ میاں نواز شریف کی تقریر سے وہ حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو دباؤ میں لانے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر جب میاں نواز شریف نے توپوں کا رخ دفاعی اداروں کی طرف کیا تو مولانا کو بھی سمجھ آ گئی کہ ان کے اس اکٹھ کا مقصد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔

دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے پیمرا کو یہ اجازت نامہ دے کر میاں نواز شریف کا خطاب مکمل طور پر دکھایا جائے درحقیقت پوری دنیا کے سامنے عیاں کر دیا کہ میاں نواز شریف بیماری کا بہانہ کرکے لندن فرار ہوئے اور اب واپس آنے سے ڈرتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی تقریر نے مسلم لیگ (ن) کے سینئیر سیاستدانوں کو باور کرا دیا ہے کہ ان کا لیڈر دیواروں کو ٹکریں مارنے سے باز نہیں آئے گا اور میاں نواز شریف کے ہوتے ہوئے ہر مسلم لیگی کا مستقبل مکمل طور پر تاریک ہے۔ اے پی سی نے حکومت کو ہٹانے کے لئے جنوری 2021 کی تاریخ دی ہے۔

مگر سچ تو یہ ہے کہ مریم نواز اور شہباز شریف کو کم از کم ایک سال لگے گا دفاعی اداروں کو یہ یقین دلانے میں کہ ”پاہ جی“ کو ورغلا کر تقریر کروائی گئی۔ کیونکہ ”پاہ جی“ کی اس تقریر نے دفاعی اداروں کے پرانے زخم بھی تازہ کر دیے ہیں اور زخم جب ایسا شخص دے جسے خود پال پوس کر بڑا کیا ہوا اور بھی زیادہ گہرے ہوتے ہیں۔

چند روز بعد پتہ چلے گا کہ شرکاء اے پی سی پر کیا گزری۔ اے پی سی میں مریم نواز کو دیکھ کر ایسا لگا کہ زمانہ بدل گیا ہے۔ بہرحال اب سمارٹ سٹی، سمارٹ موبائل اور سمارٹ نانیوں کا دور ہے۔ ویسے بھی مستقبل قریب میں مسلم لیگ (ن) اپنا (ن) بچانے کے لئے ”نانی“ سے ہی ”ن“ مل سکتا ہے۔ البتہ میاں شہباز شریف اب ”پاہ جی“ پر محنت کرنے کی بجائے مسلم لیگ ”ش“ بنانے پر ضرور غور کریں گے۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat