افسانہ___انتہا


بل کھاتی ندیوں کے ٹھنڈے تازہ پانی کی بہتی لہروں میں سے چھینٹے اڑاتے مجھے جس کے سنگ گزرنا تھا، کوئی تھا ایسا جس کے ساتھ میں مجھے پھولوں کی طرح کھلنا اور کلیوں کی طرح چٹکنا تھا، ستاروں کی صورت چمکنا تھا۔ بلند پہاڑوں کی خاک رنگ خاموشیوں میں، ہواؤں کے سنگ بہتے چشموں کی گنگنا ہٹ میں، جس کے لبوں کی سرگوشیوں پر کان دھرنے تھے، اونچی چوٹیوں سے بہت نیچے دکھتی سفید روئی کی نرم نرم بدلیوں پر قدم دھرنا تھا اور کالی گھٹاؤں سے ٹیک لگاے اس کی سانسوں کی حرارت پر سر دھننا تھا۔

”میرا ہاتھ تھام لو ناں!“
وہ بار بار اپنا ہاتھ میری سمت بڑھاتا، کبھی ڈانٹنا کبھی اصرار کرتا، میں ہنستی، جھٹک دیتی۔
”مجھے چلنا آتا ہے“

میں ایک پتھر سے دوسرے پر کودتی، اور پھسلتی، میرے پاؤں کئی پتھروں سے الجھتے، اور وہ لپک کر مجھے گرنے سے بچاتا۔

”میرے ساتھ ساتھ چلو ناں!“
” نہیں مجھے تم سے آگے چلنا ہے!“

میری بھی تو ایک ہی ضد تھی۔ سمندر کی بہتی لہروں کے کناروں سے ذرا پرے، ان اونچے پہاڑوں پر چڑھتے نہ مجھے تنہائیوں کا ڈر تھا، نہ آسیبی ہوائی مخلوق کا، نہ آس پاس بکھری جانوروں کی بچی کھچی ہڈیوں سے اپنے وجود کی گواہی دیتے درندوں کا۔ ۔ ۔ صرف ایک احساس تھا کہ وہ اک مضبوط سہارا ہو کر میرے ساتھ ہے ہر بار گرتے ہوئے تھا نے کے لئے!

خوشبو سے بھرے باغ کی پھولوں بھری کیاریوں میں دائیں بائیں اوپر نیچے لدے پھولوں میں سے گرتے بارش کے نرم نرم قطرے جب ہمارے گالوں اور بالوں کو نم کرتے جاتے اور چھت پر سجائی گئیں دھنک رنگ چھتریاں ہمیں بھیگنے سے بچانے کی ناکام کوشش کرتیں تو وہ اپنے ہاتھوں سے میرے چہرے پر گری گیلی لٹوں کو پرے ہٹاتا تھا۔

” بس۔ ۔ ۔ اب تھک گئی ہوں!“
نہیں چلو وہاں تک چلتے ہیں۔ ۔ ۔ پھولوں کی آخری کیاریوں تک! ”
پھول تو سب ایک ہی جیسے ہوتے ہیں اتنے تو دیکھ چکی! ”
نہیں دیکھے ناں تم نے ابھی، ان پھولوں کے رنگ گہرے ہیں اور خوشبو مستانی! ”

وہ میرا ہاتھ پکڑے ٹھنڈی بارش کی رم جھم میں بھیگی زمیں اور نم پھولوں کی مسحورکن خوشبو کے بیچ لئے جاتا تھا۔

جب چاند کی نورانی خوابناک چاندنی میں آس پاس کے تمام پھولوں اور درختوں کے رنگ خوابیدہ تھے اور خوشبوئیں پتے اوڑھے سستا رہی تھیں تو نرم گھاس پر اس کی بازو کو تکیہ بنائے ہم آسماں کی طرف تکتے ستارے گنتے تھے۔

”تمھارا کون سا ہے ان میں سے؟“
وہ جو سب سے روشن ہے! ۔ ۔ ۔ اور تمھارا؟ ”
”میرا ان میں سے کوئی نہیں!“
”کیوں؟“

”میرا ستارہ اس وقت زمیں کی دوسری سمت ہے جہاں سے وہ روشنی بھیج کر ہمیشہ تمھارے ستارے کو چمکاتا رہے گا!“

میری ناک مروڑتے یہ ہی تو اس نے کہا تھا! مگر قریب سے، آسماں کو تکتے، اور ستاروں سے برستے نور میں بھیگتے، ان کی آغوش سے گرتے سپنوں کو چنتے!

میرے دامن میں اس قدر ستارے، جگنو، خوشبوئیں اور پھول بھر چکے تھے کہ ان کے رنگ چمک اور خوشبوؤں سے نڈھال ہوئے جاتی تھی۔ میرا عشق معراج ہونے لگا تھا جب اس کا مضبوط مہربان ہاتھ میرے ہاتھ سے چھوٹا اور میں ایک ظالم دیو کی قید میں بے دست و پا ہو کر رہ گئی اور مجھے ایک بلند و بالا محل کے سب سے اونچے مینار کی تاریک کوٹھڑی میں بند کر کے رنگ برنگے تالا لگا دیا گیا۔ اک ایسی کوٹھری جس کی کوئی بھی کھڑکی، کوئی روزن کسی بدلی پر نظر کر پاتی، نہ ہوا کی سرگوشی کو ہی چھو پاتی، جس کی موٹی موٹی دیواروں کے پیچھے سے نجانے کتنے سوج بغیر ابھرے، سویرا کیے ڈوبنے لگے، اور اس بلند وبانگ مینار کی تاریک کوٹھڑی میں زندگی کے نام پر دکھائی دیتی محض اک بھیانک دیو کی صورت، غراتی ہوئی، چنگھاڑتی ہوی، نگل جانے کو بیقرار، توڑ دینے پر قادر اور یہی زندگی اب میرا کل اثاثہ تھی۔

کوٹھری کے در پر موٹے لوہے کے رنگین تالے اور میرے قدموں میں چمکتی چاند سورج کے رنگوں میں لپیٹ کر بنائی گئیں خاردار بیڑیاں۔ ۔ ۔ اب میری چھت پر آسماں کا سایہ تھا نہ ہری نرم گھاس کی شفقت۔ میری آنکھیں جاگتی یا سوتی مگر ان بھوت بنگلوں سے نہ باہر نہ دیکھ پاتیں نہ چشم تصور سے ہی جھانک پاتیں۔ دل دماغ کی آخری حدوں میں خواب اپنی زندگی کی رمق کے آخری سانس بھرتے تھے اور کانپے جاتے تھے۔ کمرے کا سناٹا اور اندھیرا مجھے روشنی کی بصیرت تک بھلا بیٹھا تھا اور اب نور کی سفیدی کو بھی پہچاننے سے قاصر تھا۔ خوابوں سے میرا تعلق کب سے بیوگی کا تھا اور ارمان مجھے طلاق دے کر گھر سے بے گھر کر چکے تھے۔ محض کچھ یاد نام کے بے رحم کانٹے پیروں پہ چھبھتے تھے اور کوٹھری کی زمیں کو لہو لہان کرتے تھے۔ ۔ ۔ لہو کا رنگ میری جائے پناہ میں چھلکنے والا واحد زندہ رنگ تھا

”ایسے کیا گھورتی ہو مجھے؟“
”میں چاہتی ہوں تمھارے اک اک نقش کو ازبر کر لوں!“
”۔ ۔ ۔ میرے چھن جانے کا خوف ہے کیا؟“
اور وہ مجھ سے چھن گیا تھا جس کے نقوش ازبر کرنے میں میں نے اک عمر لگائی تھی۔

اس تاریک اونچے مینار کے تالا زدہ دروازوں اور کند کھڑکیوں کے پیچھے کچھ کبھی اس کے نقوش جگنو بن کر میری اندھیری چھت سے تکتے، کبھی سوتی جاگتی سماعتوں میں اک آہنگ اس کے لفظوں کا ابھر آتا، کبھی اس کے ہاتھ کا مضبوط لمس میرے نڈھال ہاتھوں کو اک زندگی کی سانس دینے اتر آتا، اور میری دم گھٹتی سانسوں کو چند اور سانسیں زندگی کی بشارت دے جاتا۔

پھر اک روز مانند ہوئے تھے اس کے نقوش؛آواز دے کر بلاتے آہنگ؛زندگی دیتے ہاتھ اور ہلکی تاریکیاں گھپ اندھیرے بن گئی، جگنو خاک ہو کر گر پڑے، ستارے سورج کی گمشدگی سے لاپتہ ہو گئے۔ خواب اور جگنوؤں کی، روشنی اور بہاروں کی، آس اور دلاسے کی اک حد تھی مگر قید کی کوئی حد نہ تھی۔ وہ عذاب کی عادت بننے سے، مشکل کے آسانی ہونے تک، غلامی کے آزادی میں ڈھلنے سے نفرت کے محبت میں بدل جانے تک بے انتہا اور بے حد ہوتی ہے۔ قید ایسی کہ لال اور ہرے کا رنگ بھول جائے، بیٹھا اور کھڑا ایک سا ہو جائے۔ میں نے بھی زخموں کو پھول سمجھنا سیکھا اور بیٹڑیوں کو زندگی، اندھیر نگری کو حیات جانا اور اس اونچے تاریک مینار میں میرے ساتھ بستے دیو کو کوہ قاف کا شہزادہ۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).