نواز شریف اپنے ماضی کی قیمت ادا کر چکے


حکومت کے خلاف اپوزیشن کے تحریک چلانے کا اعلان سامنے آنے کے ایک روز بعد ہی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی ہے اور وفاقی کابینہ کے اہم ارکان کو لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کی صورت حال سے آگاہ کیا ہے۔ وزیر اعظم کی سربراہی میں کابینہ نے اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس سے پیدا ہونے والی صورت حال پر غور کیا اور عمران خان نے کابینہ کے ارکان کو ہدایت کی کہ دلیل اور منطق سے اپوزیشن کے الزامات کا جواب دیا جائے۔ اور مدلل گفتگو کا نمونہ اپنے فرمان میں یوں پیش کیا کہ ’اپوزیشن نے اداروں پر الزام عائد کرکے بھارتی لابی کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے‘۔

وزیر اعظم کے بیان پر غور کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ نواز شریف اور اپوزیشن لیڈروں نے ملک میں جمہوریت کی راہ ہموار کرنے اور سیاست میں عسکری اداروں کی مداخلت بند کرنے کی بات کر کے کسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ اب وزیر اعظم سمیت کابینہ کا ہر رکن اور حکمران جماعت کا ہر ترجمان تلملایا ہؤا ہے اور اپوزیشن پر ہر قسم کا الزام عائد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جو حکومت اپوزیشن کو بے بنیاد اور گمراہ کن الزامات عائد کرنے کا باعث قرار دے رہی ہے، اس کے اپنے وزیراعظم کا یہ عالم ہے کہ وہ ملک کی بارہ سیاسی پارٹیوں کے اجتماع کو دشمن ملک بھارت کو خوش کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے اس رہنما اصول سے سبق سیکھنے والے وزرا نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی قیادت میں اپوزیشن کے الزامات کا جواب دینے کے لئے پریس کانفرنس کی۔ اس موقع پر ہر وزیر کی خواہش تھی کہ وہ اپوزیشن لیڈروں کے بارے میں اچھوتا اور چبھتا ہؤا فقرہ اچھال سکے تاکہ ’بڑے صاحب‘ کی داد و تحسین کا مستحق ٹھہرے۔

تین روز قبل یہ اطلاع سامنے آنے کے فوری بعد کہ نواز شریف لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے اے پی سی سے خطاب کریں گے، حکومتی حلقوں میں سراسیمگی اور خوف کو محسوس کیا جا سکتا تھا۔ بدحواسی کی یہ کیفیت اب تک جاری ہے۔ وزیر اعظم کے مختصر تبصرے کے بعد وزیروں کی گوہر افشانی سے یہ تو سمجھا جا سکتا ہے کہ حکومت کو اپوزیشن کی طرف سے احتجاج کے اعلان سے پریشانی لاحق ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ملک اس وقت کسی احتجاج اور مظاہروں کی صورت حال کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس کی دوسری وجہ یہ بھی کہی جاسکتی ہے کہ نواز شریف کے الفاظ میں ’یہ جد و جہد عمران خان کے خلاف نہیں ہے بلکہ ناجائز طریقے سے انہیں اقتدار میں لانے والوں کے خلاف ہے‘۔

 اس دعوے کے بعد عمران خان سمیت پوری حکومت کو یہ پریشانی بھی ضرور لاحق ہونی چاہئے کہ اپوزیشن کے لیڈر انہیں مخالفت کے قابل بھی نہیں سمجھتے۔ درحقیقت یہ حکومت کی ہتک کے مترادف ہے۔ لیکن عمران خان اور تحریک انصاف نے شعوری فیصلہ سے خود کو اس افسوسناک صور ت حال میں دھکیلا ہے۔ وہ اقتدار حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوگئے ہیں لیکن بطور وزیر اعظم عمران خان کے اعمال اور طورطریقے، ان کے ماضی میں سیاسی بیانیہ سے متضاد ہیں۔ ماضی میں وہ اسٹبلشمنٹ کو مسائل کی جڑ سمجھتے تھے اور اب اسے اپنا سرپرست مانتے ہیں۔ ماضی میں پرویز مشرف آئین شکن اور غاصب تھا۔ اب ان کے خلاف فیصلہ صادر کرنے والی خصوصی عدالت کے سربراہ کو کچھ اسی قسم کے القابات سے نوازنا ضروری سمجھا گیا ہے۔ عمران خان ہر قسم کی کرپشن کے خلاف جد و جہد کرنے کا اعلان کرتے رہے ہیں لیکن وہ فوجی کرپشن یا سابقہ فوجی افسروں کے اسکینڈلز کو کرپشن کی بجائے قومی خدمت قرار دینے پر مامور ہیں۔ کیوں کہ ان کے پاس سیاسی بقا کا یہی واحد راستہ بچا ہے۔

نواز شریف کے علاوہ اپوزیشن کی اے پی سی نے متفقہ طور پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی اطلاعات اور سی پیک اتھارٹی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل(ر) عاصم سلیم باجوہ کے اثاثوں کے بارے میں سامنے آنے والی معلومات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس معاملہ کی تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم وزیر اعظم کے حوالے سے یا وزیروں کی طول طویل پریس کانفرنس میں اس بارے میں کوئی وعدہ نہیں کیا گیا۔ اس صورت حال میں حکومت کس منہ سے ملک میں بلاتخصیص احتساب اور ہر مشتبہ فرد کے بارے میں حقائق سامنے لانے کا دعویٰ کرسکتی ہے۔ تمام اہم اپوزیشن لیڈروں کو دہائیوں پرانے مقدمات میں ملوث کیا گیا ہے۔ عدالتی کارروائی مکمل ہونے سے پہلے ہی عمران خان سمیت وزیر ومشیر کورس میں چور چور کا شور مچا کر اپنی حکومت کی دیانت داری کا تاثر قائم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن حکومت میں شامل ایک شخص کے بارے میں تحقیقات کا مطالبہ محض اس لئے ملک دشمنی لگتا ہے کیوں کہ موصوف فوج میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔

عمران خان اور حکومت کے دیگر ارکان کا یہ دعویٰ حقائق سے برعکس ہے کہ اپوزیشن نے فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کی کوشش کی ہے۔ نواز شریف سمیت کسی اپوزیشن لیڈر نے فوج پر بطور ادارہ ایک بھی قابل اعتراض لفظ نہیں کہا بلکہ نواز شریف نے اپنی تقریر میں قوم و ملک کی حفاظت اور دہشت گردی سے نمٹنے میں فوج کے کردار کو سراہا ہے۔ ملک کی فوج کسی دوسرے سیارے کی مخلوق نہیں ہے۔ وہ اسی قوم کے گھروں میں پیدا ہونے والے اور پروان چڑھنے والے نوجوان ہیں۔ پوری قوم اپنی فوج سے محبت کرتی ہے۔ حکومت محبت و احترام کے اس مشترکہ اثاثہ پر اپنی سیاسی ضرورتوں کی وجہ سے اجارہ داری کا تاثر قائم کرنا چاہتی ہے۔ یہ طریقہ فوج اور ملکی مفادات کے برعکس ہے۔

البتہ دو باتوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا:

الف) ملک کی کل زندگی میں سے نصف وقت فوج نے مارشل لا کے ذریعے غیر قانونی طریقے سے حکومت کی ہے۔ تحریک انصاف یا کوئی بھی سیاسی پارٹی اگر ملک میں جمہوری اور آئینی طریقے کو درست اور جائز سمجھتی ہے تو اس طریقہ کار کو مسترد کرنا پڑے گا۔ سیاسی پارٹیوں اور حکومت کے علاوہ فوج کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ماضی میں ملکی آئین پامال کرنے اور منتخب حکومتوں کے خلاف مجرمانہ بغاوت جیسے اقدام کر کے نہ صرف جمہوریت کو نقصان پہنچایا گیا بلکہ فوج کی شہرت کو بطور ادارہ شدید نقصان پہنچا۔ پوری دنیا پر نگاہ دوڑا لی جائے تو واضح ہوجائے گا کہ اسی ملک میں فوج کو عزت و وقار حاصل رہتا ہے جو سیاسی فیصلوں اور سول انتظامی عہدوں سے دور رہنے کو پالیسی کے طور پر اختیار کرتی ہے۔ ملک میں آئینی جمہوری انتظام کے احترام کی بات اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک فوج کی قیادت ماضی میں سیاسی منتخب حکومتوں کے خلاف جرنیلوں کی بغاوت کو باقاعدہ مسترد کرنے کا اعلان نہیں کرتی۔ یہ کہنا کافی نہیں کہ وہ انفرادی فعل تھے۔ فوج بطور ادارہ ان جرنیلوں کی پشت پر کھڑی رہی تھی۔ اس لئے فوج کو بطور ادارہ ملک میں نافذ کئے گئے تمام مارشل لاؤں سے دستبرداری کا اعلان کرنا چاہئے۔ تب ہی کسی آرمی چیف کی یہ بات قابل اعتبار ہوگی کہ فوج ملک میں حکومت کے آئینی انتظام کا احترام کرتی ہے۔

ب)اس تصویر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ فوج جب براہ راست برسر اقتدار نہیں رہی تو اس نے بعض سیاسی کرداروں کی پشت پناہی اور بعض کو مسترد کرکے سیاست کو اپنا تابع رکھنے کی کوشش کی ہے۔ خاص طور سے پرویز مشرف کی علیحدگی کے بعد سے ملک میں جو جمہوری انتظام کام کررہا ہے، اس میں فوجی قیادت کا عمل دخل بہت واضح اور نمایاں ہے۔ اب حکومت یا اس کے نمائیندے یہ ثبوت مانگنے پر اتر آئے ہیں کہ بتایا جائے کہ فوج نے کہاں اور کیسے سیاست یا انتخابات میں مداخلت کی ہے۔ اس کا جواب تلاش کرنے کے لئے ماضی قریب کی سیاسی تاریخ اور حکومت سازی کے طریقوں پر غور کرنا کافی ہوگا۔ 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کا راستہ ہموار کرنے کے لئے محکمہ زراعت یا ایسے ہی پراسرار ناموں سے متحرک عناصر نے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی کوششیں شروع کردی تھیں۔ تحریک انصاف جب اس کے باوجود مرکز اور پنجاب میں اکثریت حاصل نہیں کر سکی تو آزاد ارکان کا بازو مروڑ کر ’ٹھوس اکثریت‘ کا اہتمام کر لیا گیا۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں کے خلاف میمو گیٹ اور ڈان لیکس کے قضئے بھی سیاسی اقتدار پر فوجی دسترس کی کہانی سناتے ہیں۔ راحیل شریف جب اپنی تمام تر پبلک ریلیشننگ کے باوجود نواز شریف کو توسیع دینے پر آمادہ نہ کرسکے تو سعودی عرب میں ایک نام نہاد اسلامی اتحاد کے سربراہ بن کر چلے گئے اور حکومت کو بہر صورت اس کی اجازت دینا پڑی۔ حالانکہ ایک ایٹمی طاقت کے سابق آرمی چیف اور دیگر اعلیٰ فوجی افسروں کو تاحیات بیرون ملک نوکری سے گریز کرنا چاہئے۔ مستقبل میں اس قسم کے ایڈونچر پر قانونی پابندی عائد کرنا قومی مفاد کے عین مطابق ہوگا۔ راحیل شریف کے برعکس اشفاق پرویز کیانی اور اب جنرل قمر جاوید باجوہ کے عہدوں میں توسیع کسی فوجی ضرورت کا حصہ نہیں تھی بلکہ یہ توسیع سیاسی عزائم کی تکمیل کے لئے ضروری سمجھی گئی تھی۔

موجودہ آرمی چیف کے عہدے میں توسیع کرنے کے لئے سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی منظوری ضروری قرار دی تھی۔ یہ درست ہے کہ اس سال جنوری میں اس قانون کی منظوری کے لئے، اب سیاست میں فوجی مداخلت کے خلاف بات کرنے والی اپوزیشن نے متفقہ طور پر حمایت میں ووٹ دیا تھا۔ اسی طرح جب ملک میں انتخابی دھاندلی کی بات کی جاتی ہے تو اس سے صرف عمران خان کی حمایت میں کی گئی دھاندلی مقصود نہیں ہوتی۔ اس بہتی گنگا میں تمام قابل ذکر اپوزیشن پارٹیوں نے موقع ملنے پر ہاتھ دھونے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک میں ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے جس میں یہ طے ہے کہ فوج سے ہتھ جوڑی کئے بغیر کوئی پارٹی انتخاب جیت نہیں سکتی۔ اس تاثر کو ختم کرنا خود فوج کی شہرت کے لئے ضروری ہے۔

نواز شریف نے ریاست میں بالائے ریاست کی جس صورت حال کا ذکر کیا ہے، اس کی شکل ہر سرکاری فیصلے اور اقدام میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ نواز شریف خود بھی ماضی میں اس کھیل کا اہم حصہ رہے ہیں۔ اسی لئے ان کی باتوں میں موجود حجت کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ اور نہ ہی اس بنیاد پر نواز شریف کے درست سیاسی مؤقف کو رد کیا جا سکتا ہے کہ ماضی میں ان کا سیاسی کردار داغدار رہا ہے۔ ان کوتاہیوں کی قیمت وہ درجنوں مقدمات، ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری اور جلاوطنی کی صورت میں ادا بھی کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali