نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل: ’مجرم نواز شریف کو عدالت میں پیش کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے‘


پاکستان

العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں احتساب عدالت کی طرف سے ملنے والی سزا کے خلاف سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی اپیل کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ اپیل کنندہ (نواز) کو بیرون ملک علاج کی غرض سے وفاقی حکومت نے بھجوایا اور اب مجرم نواز شریف کو عدالت میں پیش کرنا بھی وفاقی حکومت کا کام ہے۔

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے منگل کے روز سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔

عدالت کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکال کر انھیں بیرون ملک جانے کی اجازت وفاقی حکومت نے دی تھی اور حکومت نے اُس عدالت کو بتانا بھی مناسب نہیں سمجھا جس نے میاں نواز شریف کو آٹھ ہفتوں کی ضمانت دی تھی۔

ایڈشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے مؤقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 15 ستمبر کو مجرم کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے اس پر عمل درآمد کروا لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو 10 ستمبر کو طلب کر لیا

صحت اجازت نہیں دیتی کہ علاج چھوڑ کر عدالت کے سامنے پیش ہوں: نواز شریف

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے

عدالت نے جب ان احکامات کی تعمیل کے بارے میں ایڈشنل اٹارنی جنرل سے مزید استفسار کیا تو اُنھوں نے کہا کہ پاکستانی ہائی کمیشن کے اہلکار جب لندن میں واقع نواز شریف کی رہائش گاہ گئے تو وہاں موجود شخص نے یہ وارنٹ گرفتاری وصول کرنے سے انکار کیا اور پھر اس کے بعد ڈاک کے ذریعے یہ وارنٹ بھجوائے گئے۔

ایڈشنل اٹارنی جنرل نے دعویٰ کیا کہ سابق وزیر اعظم کے وارنٹ گرفتاری ان کے بیٹے حسن نواز نے موصول کی جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ حسن نواز بھی تو ایک مقدمے میں اشتہاری ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ

جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی

ایڈشنل اٹارنی جنرل کے اس دعوے کے برعکس حسن نواز کا بیان مقامی میڈیا کی زینت بنا ہے جس میں اُن کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے وارنٹ گرفتاری وصول نہیں کیے۔ اس بیان کے مطابق حسن نواز کا کہنا تھا کہ وہ جس جگہ رہتے ہیں وہاں پر 25 فلیٹس ہیں اور تمام ڈاک عمارت کے استقبالیہ پر وصول کی جاتی ہے۔

حسن نواز کے بیان کے مطابق وہ کس طرح یہ وارنٹ گرفتاری موصول کر سکتے ہیں جبکہ یہ عدالتی احکامات میاں نواز شریف کے نام پر تھے۔

سماعت کے دوران عدالت کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم کے علم میں تو یہ ضرور ہو گا کہ اُن کے خلاف کیا عدالتی کارروائی ہو رہی ہے۔

کمرہ عدالت میں موجود نیب کے ایڈشنل پراسیکیوٹر مظفر عباسی نے عدالت کو بتایا کہ پاکستانی ہائی کمیشن میں تعینات جس اہلکار نے ان عدالتی احکامات کی تعمیل کروائی ہے اسے عدالت میں پیش کر دیتے ہیں۔

اس پر بینچ میں موجود جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری خزانے سے پہلے اس اہلکار کو پاکستان آنے کے لیے ٹکٹ خرید کر دیا جائے اور پھر اس کے بعد وہ یہاں آکر ٹی اے ڈی اے بھی وصول کرے گا۔

عدالت نے نواز شریف کو بھیجے گئے وارنٹ کی اصل دستاویزات بھی پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ مجرم کو برطانیہ سے واپس لانے کے لیے اگر کوئی حکم دیا جائے تو پھر حکومت اس پر عمل درآمد کرے گی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر عدالت حکم دے تو نواز شریف کی حوالگی سے متعلق کارروائی کریں گے جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سزا یافتہ شخص باہر چلا گیا عدالت کو پوچھنے یا بتانے کی زحمت نہ کی۔

بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ میاں نواز شریف کو بیرون ملک وفاقی حکومت نے بھیجا اور سابق وزیر اعظم کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم بھی وفاقی حکومت نے دیا۔

بنچ کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے جو آرڈر دیا اس بارے میں حکومتی ایڈوائزرز کو حکومت کو بتانا چاہیے تھا کہ اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ یہاں انکوائری شروع ہونے پر کسی کا نام ای سی ایل میں شامل کر دیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف ایک مجرم کا نام ای سی ایل سے نکال دیا گیا اور متعلقہ عدالت کو اس بارے میں بتایا بھی نہیں گیا۔

بینچ کے سربراہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرموں کے تبادلوں کا کوئی معاہدہ موجود ہے جس پر طارق کھوکھر کا کہنا تھا کہ معاہدہ تو موجود نہیں ہے تاہم عدالت اس بارے میں کوئی حکم صادر کرے تو پھر اس کو دیکھا جا سکتا ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ عدالت ایگزیکٹیو کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرتی۔

سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ کاؤنٹی کورٹ کے ذریعے وارنٹس گرفتاری کی تعمیل کروائی جا سکتی ہے جس پر عدالت نے وزارت خارجہ کو ہدایت کی کہ وہ 23 ستمبر تک عدالت کو آگاہ کریں کہ اس میں کتنا وقت درکار ہو گا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ محض سنی سنائی باتوں پر کارروائی کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp