ملا صالح سے نجات حاصل کرنا ہوگی


فرانسیسی سیاح برنیر تحریر کرتے ہیں کہ جب اورنگ زیب عالمگیر بچہ تھے تو شاہ جہاں نے ان کی تعلیم کے لئے ایک عالم ملا صالح کو مقرر کیا۔ ملا صالح نے اورنگ زیب عالمگیر کی تعلیم مکمل کر کے شاہ جہاں کو رپورٹ پیش کی کہ شہزادہ صاحب نے تمام علوم میں دسترس حاصل کر لی ہے۔ شاہ جہاں نے خوش ہو کر ملا صالح کو کابل کے قریب جاگیر عطا کی اور ملا صاحب وہاں تشریف لے گئے۔ کئی برس گزر گئے کہ ملا صالح صاحب نے پہلے خانہ جنگی اور پھر اپنے شاگرد رشید اورنگ زیب عالمگیر کی فتح کی خبریں سنیں۔

جب انہیں علم ہوا کہ اب جنگ ختم ہو گئی ہے تو وہ جلدی سے دہلی روانہ ہوئے۔ انہیں پوری امید تھی کہ ان کے شاگرد کی بادشاہت میں ان کا شمار سلطنت کے امراء میں ہو گا۔ دہلی پہنچ کر شہزادی روشن آراء بیگم سمیت تمام اہم شخصیات سے رابطے کر کے دربار تک رسائی حاصل کی۔ تین ماہ تو عالم پناہ کو یہی علم نہیں ہوسکا کہ ان کے بھرے دربار میں ان کے سابق استاد صاحب بھی موجود ہیں۔ جب اورنگ زیب عالمگیر کو اس بات کی خبر ہوئی تو انہیں علیحدگی میں طلب کیا۔ اس وقت ان کے پاس صرف چند قریبی امراء موجود تھے۔ ان میں سے ایک مصاحب کے پاس برنیر ملازم تھے اور انہوں نے اس مصاحب سے سن کر یہ واقعہ تحریر کیا۔

بادشاہ نے کہا کہ ملا جی تم چاہتے ہو کہ تمہیں سلطنت کے کسی اعلیٰ منصب پر فائز کیا جائے۔ اگر تم نے مجھے کوئی مناسب تعلیم دی ہوتی تو یقینی طور پر ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ مجھے ایک ایسا نوجوان دکھا دو جس کی تعلیم صحیح خطوط پر ہوئی ہو تو میں کہوں گا کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اسے اپنے باپ کا زیادہ ادب کرنا چاہیے کہ استاد کا۔

تم تو مجھے یہ پڑھاتے رہے کہ تمام فرنگستان [یورپ] ایک غیر اہم سا علاقہ ہے۔ تم نے تو مجھے یہ بتایا تھا کہ فرانس اور اندلس کے بادشاہ کی وہی حیثیت ہے جو ہمارے ملک میں ایک معمولی راجہ کی ہوتی ہے اور ہندوستان کے بادشاہ کی شان و شوکت پوری دنیا کے بادشاہوں سے بہت بڑھ کر ہے۔ تم نے تو مجھے یہ یقین دلایا کہ چین اور فارس کے بادشاہ ہندوستان کے بادشاہ کا نام سن کر کانپ اٹھتے ہیں۔

تمہیں تو چاہیے تھا کہ مجھے یہ پڑھاتے کہ دنیا کے مختلف ممالک کا نظام حکومت کیسا ہے؟ وہاں کا مذہب کیا ہے؟ وہاں کی زبان کون سی ہے؟ وہاں کے رسم و رواج کیا ہیں؟ تمہیں چاہیے تھا کہ مجھے یہ بتاتے کہ مختلف ریاستیں کیسے شروع ہوئیں اور انہوں نے کیسے ترقی کی اور ان کا زوال کیسے ہوا؟

بجائے اس کے کہ تم مجھے انسانیت کی تاریخ سے واقف کرتے، تم مجھے میرے اپنے باپ دادا کے صرف نام یاد کراتے رہے۔ تم نے تو ان کے حالات زندگی اور ان کی جد و جہد کی تفصیلات تک سے مجھے روشناس نہیں کیا۔ ایک بادشاہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک کی زبانوں سے کچھ واقف ہے۔ مگر تم نے مجھے صرف عربی زبان ہی پڑھائی۔ بجائے اس کے کہ میں کوئی کام کی چیز سیکھتا میرا قیمتی وقت گرائمر پڑھنے پر ضائع ہو گیا۔

کیا تمہیں یہ بھی علم نہیں تھا کہ بچپن کا زمانہ سیکھنے کا زمانہ ہوتا ہے۔ اس عمر میں انسان کا ذہن بہت سی ایسے علوم جذب کر لیتا ہے جو بعد میں عظیم کارناموں کو سرانجام دینے کے لئے درکار ہوتے ہیں۔ مجھے بتاؤ کیا ہم صرف عربی میں دعا مانگ سکتے ہیں؟ یا ہم صرف عربی میں قانون پڑھ سکتے ہیں؟ کیا ہم سائنس کو صرف عربی میں ہی پڑھ سکتے ہیں؟

تم نے میرے والد شاہ جہاں کو یقین دلا دیا کہ تم نے مجھے فلسفہ کی تعلیم دی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ تم نے ایسی فرضی باتیں پڑھا پڑھا کر میرے ذہن کو ہراساں کر دیا تھا جن کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ میں نے ان کو پڑھا اور پھر فوری طور پر بھول گیا۔ ان باتوں کا اس کے سوا کوئی مقصد نہیں تھا کہ ذہن کو تھکا دیا جائے۔ جب تم نے میری تعلیم مکمل کی تو چند فضول اصطلاحات کے علاوہ مجھے سائنس کا کچھ علم نہیں تھا۔

اگر تم نے مجھے ایسا فلسفہ پڑھایا ہوتا جس کے پڑھنے کے بعد انسان ٹھوس دلیل کے علاوہ کسی چیز سے مطمئن نہیں ہوتا، مجھے استدلال کرنا سکھایا ہوتا۔ مجھے انسان کی فطرت کے بارے میں بتایا ہوتا۔ مجھے کائنات کے نظام کے بارے میں اور اس کے اجرام کی حرکتوں کے بارے میں کچھ بتایا ہوتا تو آج میں تمہاری اس سے بہت زیادہ عزت کرتا جتنی سکندر نے ارسطو کی کی تھی۔ اور اس سے بہت زیادہ تمہیں نوازتا۔

اے خوشامدی مجھے یہ بتاؤ کہ کیا تم نے مجھے یہ تعلیم دی کہ بادشاہ اور رعیت کے ایک دوسرے پر کیا حقوق ہوتے ہیں؟ کیا تمہیں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ کسی روز مجھے اپنے ہاتھ میں تلوار لے کر اپنی زندگی کی خاطر اور تخت کی خاطر اپنے بھائیوں سے جنگ لڑنی پڑے گی۔ ہندوستان کے اکثر بادشاہوں کے بیٹوں کی یہی قسمت رہی ہے۔

کیا کبھی تم نے مجھے یہ سکھایا کہ جنگ کس طرح لڑی جاتی ہے۔ شہروں کا محاصرہ کیسے ہوتا ہے۔ جنگ میں لشکر کو کس طرح کھڑا کیا جاتا ہے۔ شکر ہے کہ میرے ارد گرد تم سے زیادہ دانشمند لوگ موجود تھے۔ میں نے خود ان سے کچھ سیکھ لیا۔

جاؤ اپنے گاؤں واپس چلے جاؤ۔ اب کسی کو یہ علم نہیں ہونا چاہیے کہ تم کون ہو؟ یہ اورنگ زیب کی سادگی تھی کہ اس نے سمجھا کہ ملا صالح واپس چلا گیا ہے۔ کئی بادشاہ تخت نشین ہوئے اور مر گئے۔ سلطنتیں ختم ہو گئیں۔ لیکن ملا صالح زندہ رہا۔ یہ آسیب ہمارے شہروں قصبوں اور دیہات میں آج بھی دندنا رہا ہے۔ میں حیران ہوں کہ اپوزیشن کے سیاسی جماعتوں نے اے پی سی بلائی اور یہ مسئلہ زیر غور ہی نہیں آیا کہ ہر سیاسی جماعت نے اپنے اپنے ملا صالح سے کس طرح نجات حاصل کرنی ہے؟

یہ ملا صالح عمران خان صاحب کے دائیں طرف بھی بیٹھا ہے۔ مریم نواز صاحبہ کے کان میں بھی سرگوشیاں کرتا ہے۔ بلاول بھٹو صاحب کو بھی یقین دلاتا ہے۔ پرائمری سکول ہو یا یونیورسٹی۔ ہماری سول سروس کی اکیڈمی ہو یا ملٹری اکیڈمی۔ ان کی ذات گرامی ہر جگہ رونق افروز ہے۔

یہ ان صاحب کا ہی فیضان ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور روس ہم سے خائف ہیں۔ عالم اسلام کی امیدوں کا مرکز ہم ہی ہیں۔ ساری دنیا ہماری دہشت سے تھر تھر کانپ رہی ہے۔ ذرا تصور کریں کہ ہمیں تاریخ میں یہ تو پڑھایا جاتا ہے کہ بابر خط بابری کا موجد تھا لیکن یہ موازنہ نہیں پڑھایا جاتا کہ بابر کی پیدائش سے تیس سال پہلے یورپ میں پریس نے کتابیں چھاپنی شروع کر دی تھیں۔ ہمیں سلطان ٹیپو شہید کی جد و جہد تو پڑھائی جاتی ہے لیکن یہ نہیں پڑھایا جاتا ہے کہ ان کی شہادت سے دس برس پہلے امریکہ والے اپنا آئین بنا کر اپنے صدر کو منتخب کرنا شروع ہو گئے تھے۔ میں پرائمری سکول میں تھا جب سقوط ڈھاکہ ہوا۔ مجھے یاد نہیں کبھی سکول یا کالج میں ایک لیکچر بھی اس بات کے لئے وقف ہو کہ ہمارا ملک دو لخت کیوں ہوا؟ اگر ہم نے حقیقی معنوں میں آزاد ہونا ہے تو ملا صالح سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).