اقبال کی شاعری اور خیالات


کیا علامہ اقبال فلسفی ہیں؟
کیا علامہ اقبال صرف ایک شاعر ہیں؟
اقبال کی شاعری کا پاکستانی قوم پر کیا اثر پڑا؟
عقائد والے مفکر کو فلسفی کہا جاسکتا ہے؟
ری کنسٹریکشن آف ریلیجئیس تھاٹس ان اسلام کیا ہے؟

علامہ محمداقبال بطور ایک شاعر پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں بہت مشہور شخصیت ہیں۔ انہیں شاعر مشرق بھی کہا جاتا ہے۔ کچھ دانشوروں اور شاعروں کا کہنا ہے کہ وہ ایک عظیم فلسفی ہیں، بہت سے دانشوروں اور ادیبوں کے مطابق وہ فلسفی نہیں ہیں، صرف ایک شاعر ہیں۔ اس ویڈیو میں ہم اقبال کی شاعری کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی بحث کریں گے کہ کیا وہ فلسفی بھی ہیں یا نہیں۔ ویڈیو دیکھنے سے پہلے چینل کو سبسکرائب کر لیں اور بیل آئیکن بھی پریس کر لیں۔

کچھ دانشور ہمیشہ یہ سوال کرتے ہیں کہ بطور شاعر ان کی شاعری کے پاکستانی قوم پر کیا اثرات پڑے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال نے فلاسفی میں ایم کیا، اس کے بعد فلاسفی میں ہی پی ایچ ڈی کی، لیکن کچھ دانشور کہتے ہیں کہ اقبال فلسفی نہیں تھے۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ فلسفے میں پی ایچ ڈی کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ اقبال فلسفی بھی ہوں۔ عہد وسطی میں فلسفے کا مطلب یہ تھا کہ فلسفہ الہامی عقائد کی حمایت کرے، فلسفی بھی اسی زمانے میں الہامی عقائد کو درست اور سچا ثابت کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے تھے، اسی تناظر سے دیکھا جائے تواقبال کو فلسفی جاننے یا سمجھنے میں کوئی حرج نہیں۔

۔ پاکستان میں ایک مشہور فلسفی گزرے ہیں جن کا نام علی عباس جلال پوری تھا، وہ اپنے دور کے عظیم اسکالر تھے۔ انہوں نے اقبال پر ایک کتاب لکھی تھی، اس کتاب کا نام ہے اقبال اور ان کا کلام، عباس جلالپوری نے اقبال کے خیالات اور شاعری کا ایماندارنہ انداز میں تجزیہ کیا ہے۔ وقت ملے تو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کریں۔ علامہ محمد اقبال نے اہم موضوعات پر کچھ مضامین لکھے تھے، ان مضامین پر مشتمل ان کی انگریزی کی ایک کتاب تعمیر کی گئی ہے جس کا نام ہے reconstruction of religious thoughts in islam، اس کتاب میں اقبال نے عقائد کی حمایت میں مدلل اور مفصل انداز میں بات کی ہے؟

سوال یہ ہے کہ کیا عقائد کو درست ثابت کرنے والے مفکر کو فلسفی کہا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب کسی حد تک علی عباس جلالپوری کی کتاب اقبال اور ان کا کلام میں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، علامہ عباس جلالپوری کی کتاب سے تسلی نہ ہوتو ایمانداری اور سچائی سے اقبال کے نظریات پر خود تحقیق کر لیں۔ ایک اور سوال کہ کیا فلسفے اور عقیدے کا آپس میں کوئی تعلق ہوتا ہے؟ ہوتا ہے تو کیوں، نہیں ہوتا تو کیوں نہیں ہوتا؟

اس پر بھی ہم سب کو مغز ماری کرنے کی ضرورت ہے؟ اب آتے ہیں بنیادی سوال کی طرف کہ فلسفہ کیا ہے؟ فلسفہ بنیادی طور پر عقل و استدلال کی بات کرتا ہے، اس میں عقل، استدلال اور دلیل کے لئے بڑی جگہ ہے، اس کے بغیر فلسفہ اور فلسفی کوئی بات ہی نہیں کر سکتا، جبکہ عقیدے میں دلائل کی ضرورت نہیں، اسے بغیر دلیل کے تسلیم کرنا ہوتا ہے، اسی تناظر میں اقبال کو دریافت کرنے کی کوشش کی جائے تو سمجھ آ جائے گی کہ وہ فلسفی تھے یا نہیں تھے؟

اس لئے پاکستان میں کچھ دانشوروں کا کہنا ہے کہ دلیل، استدلال کا فارمولا سامنے لایا جائے تو کسی صورت اقبال کو فلسفی نہیں کہا جاسکتا۔ ایک تاریخی حقیقت بھی کتابوں میں ملتی ہے کہ اقبال نے جو خطوط لکھے ہیں ان میں سے کسی ایک خط میں ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو فلسفہ اور ادب نہیں پڑھنا چاہیے۔ ایک فلسفی شاعر کا یہ کہنا کہ مسلمان فلسفہ نہ پڑھیں، اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب کچھ ادیب و دانشور یہ لیتے ہیں کہ اقبال خود ہی فرما رہے ہیں کہ وہ فلسفی نہیں کیونکہ وہ مسلمانوں کو فلسفی اور ادیب بننے سے روک رہے ہیں؟

اگر ایسا نہیں تو اس کا اور کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ مسلمان دنیا میں ایک بہت بڑی شخصیت گزرے ہیں، جن کا نام امام غزالی تھا، وہ فلسفے کے بہت خلاف تھے، لیکن انہیں بھی فلسفی کہا جاتا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ کیونکہ فلسفہ شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے، عقائد کو کمزور کرتا ہے، اس لئے فلسفے کو نہیں پڑھنا چاہیے۔ ایک ایسا بھی زمانہ تھا جب ہندوستان کی مسلمان درسگاہوں میں فلسفے کو نہیں پڑھایا جاتا تھا، درسگاہوں میں فلسفہ نصاب کا حصہ بھی نہ تھا، وہ زمانہ کون سا تھا؟

اور کن درسگاہوں کے نصاب میں شامل تھا؟ کسی دن یہ جاننے کا شوق ہو تو تحقیق کر لیں۔ اقبال یقیناً ایک بڑے شاعر تھے، لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان کی شاعری میں بھی بہت تضادات ہیں، ویسے حکمران طبقہ ہمیشہ اقبال کا بہت بڑا مداح رہا ہے، ان کی شاعری کے کچھ حصوں کو حکمران طبقے نے خوب پروموٹ کیا ہے، اور اس سے فائدہ بھی اٹھایا ہے۔ اس ایشو پر بھی پاکستان میں بحث کی ضرورت ہے۔ اقبال نے مسلمان کے ماضی کو شاندار طریقے سے پیش کیا، فتوحات کا ذکر کیا، کہا کہ مسلمانوں نے ماضی میں بڑے بڑوں کے غرور کو سرنگون کیا، انہوں نے فاتحین کا ذکر کیا، قوم کو دلکش انداز میں جذباتی کیا۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس سے قوم پر مثبت اثر پڑا یا منفی؟ اس پر بھی قوم کو ضرور سوچنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے۔ ۔ ۔ بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے، یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے، مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی، کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا۔ سوال یہ کہ کیا اقبال کی اس طرح کی شاعری سے مثبت اثر پرا یا منفی؟ اس کا جواب بھی ہمیں بطور قوم یا فرد خود تلاش کرنا ہوگا۔

کچھ دانشوروں کے مطابق اس قسم کی شاعری سے قوم کے اندر جذبات تو پیدا ہوئے، لیکن ان جذبات نے کیا رنگ دکھائے؟ اس حوالے سے بھی صورتحال ہم سب کے سامنے ہے۔ ایک بات تو ماننی پڑے گی کہ اقبال جمہوریت کے خلاف تھے، وہ خود کہتے ہیں کہ جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے، یہ بات انہوں نے اس وقت کہی جب وہ یورپ گئے تھے۔ ۔ ۔ یورپ میں ایک انسان تھا جسے یورپین معلوم نہیں اپنا فلسفی مانتے ہیں یا نہیں، اس فلسفی کا نام نطشے تھا۔

۔ ۔ وہ بھی جمہوریت کے خلاف تھا، جی ہاں وہی نطشے جس نے سپر مین کا نظریہ دیا تھا، اس کے مقابلے میں اقبال نے مرد مومن کا نظریہ پیش کیا تھا، کہا جاتا ہے مرد مومن کا اقبال کا نظریہ نطشے کے خیال سے متاثر ہو کر تخلیق کیا گیا۔ عورتوں کے بارے میں اقبال کہتے ہیں کہ عورتوں کا مقام گہوارہ ہے یعنی جہاں وہ پیدا ہوتی ہیں یا قبر، وہ کہتے ہیں کہ عورتوں کو دنیاوی کاموں میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ یورپ جانے سے پہلے اقبال کی شاعری میں قوم پرستی کا عنصر جھلکتا تھا، سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا، یہ ترانہ انہوں نے لکھا تھا جو آج بھی ہندوستان میں پڑھا جاتا ہے۔

اقبال جب یورپ سے وآپس آئے تو پین اسلامسٹ ہو گئے، پھر وہ اپنی شاعری کو تبلیغ کا ذریعہ بنا دیتے ہیں۔ یورپ کہ بارے میں ایک شعر میں کہتے ہیں، تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی، ایک شعر میں یہ بھی فرما دیتے ہیں کہ یورپ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند، دانشوروں کے مطابق اس شاعری سے تو یہی لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ان کے شاعرانہ خیالات میں تضادات ہیں۔ ان خیالات کی وضاحت کرنے کا مقصد یہی ہے کہ اقبال کی تاریخی حقیقت کو سمجھتے ہوئے ہمیں ان کا مطالعہ کرنا چاہیے، کسی بھی خیال یا فکر کو بغیر سوچے سمجھے کائناتی نہیں سمجھ لینا چاہیے۔

اہم سوال یہ ہے کہ کیا اقبال کے خیالات آج کے زمانے کے لئے مفید ہیں؟ اب زمانہ بدل گیا ہے، کوئی جمہوریت کے خلاف بات نہیں کرتا، جو کرتا ہے اس کے بارے میں جو کچھ کہا جاتا ہے، وہ نہیں معلوم تو کسی دن ٹی وی شوز، سیاستدانوں کے بیانات ضرور سنیں۔ اس جدید دنیا میں عورتوں کو پسماندہ رکھنے کے حوالے سے بھی کوئی خیال سامنے نہیں آسکتا، زمانہ بدل گیا، عورتیں مردوں سے بھی بہت سے شعبوں میں آگے ہیں، وہ گھر سے علم و فکر کے لئے چین و یورپ اور امریکہ تک چلی جاتی ہیں، عظیم کارنامے سرانجام دے رہیں۔

ڈاکٹرز بن رہی ہیں، سائنسدان بن رہی ہیں، خلا میں جارہی ہیں، ہر شعبے میں اپنا لوہا منوارہی ہیں، یہ زمانہ نئے خیالات، نئے افکار کا دور ہے، اور نئے خیالات ہی قوم کو آگے لے جاتے ہیں۔ اقبال کو بھی اسی تناظر میں سمجھنے کی ضروت ہے۔ آخر میں سوال یہ کہ ہماری نصاب کی کتابوں میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان بنانے کا خواب اقبال نے دیکھا تھا اس کی مثال الہ آباد خطبہ سے سمجھائی جاتی ہے، اس خطبے میں ایک جملہ تھا جس میں اقبال نے فرمایا تھا شمال مغرب کا علاقہ جہاں پر مسلمان اکثریت میں ہیں، یہ یا تو برطانوی حکومت کے کنٹرول میں ہو، یا اس کی الگ شناخت ہو، اس جملے سے یہ مطلب نکالا جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کا نقشہ پیش کیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ جناح نے تو صرف تکمیل پاکستان کی تھی، پاکستان کا خیال تو اقبال کا تھا۔ انگلستان کی معروف شخصیت ایڈورڈ ٹامسن کو اقبال نے ایک خط تحریر کیا تھا، اس خط کا اردو ترجمہ تاریخ کی بہت ساری کتابوں میں اب بھی محفوظ ہے، جس میں علامہ اقبال کہتے ہیں کہ پاکستان کی اسکیم سے ان کا کوئی تعلق نہیں، اس طرح انہوں نے پاکستان کے خواب سے اپنے آپ کو الگ بھی کیا ہے۔ یہ تمام کہانی سنانے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری تاریخ میں تاریخی حقائق کو چھپایا گیا ہے، اقبال کی وہ باتیں سامنے لائی گئیں جو حکمرانوں کے مفادات کے لئے مفید تھی، اقبال ایک عظیم شاعر ہیں اور ایک تاریخی حقیقت ہیں، لیکن اقبال کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے، طاقتور ان کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں، کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے، اس موضوع کو چھیڑنے کا مقصد یہی ہے کہ ہمیں اس حوالے سے باشعور ہونے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).