غاصب حاکمیت کو چیلنج درپیش آ گیا


اپوزیشن جماعتوں کی ’آل پارٹیز کانفرنس‘ نے اپوزیشن اتحاد قائم کرتے ہوئے حکومت کے خاتمے کی تحریک کا اعلان کیا ہے جس پر مرحلہ وار عمل کیا جائے گا۔ کانفرنس کی سب سے اہم بات نواز شریف کا خطاب رہا جس میں انہوں نے ایک عرصے کی خاموشی کے بعد ان حساس سمجھے جانے والے موضوعات پر بھی یوں کھل کر اظہار خیال کیا کہ ان سے محتاط گفتگو کرنے کی شکایت رکھنے والے بھی خوش ہو گئے کہ انہوں نے ملک میں غاصب حاکمیت قائم رکھنے والوں کو کھل کر للکارا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے اگلے ماہ سے حکومت کے خلاف عوامی سیاسی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا سلسلہ دسمبر اور جنوری میں تیز کیا جائے گا۔ ملک میں غیر آئینی اور غیر قانونی سرکاری سختیوں اور آزادی اظہار پر پابندیوں کی سرکاری کوششوں سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ملک میں ماورائے آئین غاصب حاکمیت قائم رکھے جانے کے متمنی اور ان کے سویلین سہولت کارجبر اور خوف کے ساتھ اکثریت کو تابعداری اور اطاعت پر مجبور کر دیں گے لیکن نواز شریف کے دلیرانہ خطاب اور اپوزیشن کے مشترکہ اعلان سے جمہویت مخالف عناصر کو صحیح معنوں میں چیلنج کیا گیا ہے۔

کانفرنس سے ورچوئل خطاب میں نواز شریف نے کہا کہ ان کی جدوجہد پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ انھیں اقتدار میں لانے والوں کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کمزور ہو گئی ہے اور عوام کی حمایت سے کوئی جمہوری حکومت بن جائے تو کیسے ان کے خلاف سازش ہوتی ہے اور قومی سلامتی کے خلاف نشان دہی کرنے پر انھیں غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔ وہ اس اے پی سی کو فیصلہ کن موڑ سمجھتے ہیں اور ایک جمہوری ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مصلحت چھوڑ کر فیصلے کیے جائیں۔

’جمہوری ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں اور بیباک فیصلے کریں۔ آج نہیں کریں گے تو کب کریں گے۔ انتخابی عمل سے قبل یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ کس کو ہرانا کس کو جتانا ہے، کس کس طرح سے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے، مینڈیٹ چوری کیا جاتا ہے۔ جب جمہوریت کی بنیاد پر ضرب لگتی ہے تو سارا نظام جعلی ہو کر رہ جاتا ہے۔ حکومت بن بھی جائے تو سازش سے اسے بے اثر اور پھر فارغ کر دیا جاتا ہے۔ ریاستی ڈھانچہ اس سے کمزور ہوتا ہے اور عوام کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔

دو وزیر اعظم موجود ہیں وہ جانتے ہیں کہ سول حکومت کے گرد کس طرح کی رکاوٹیں ہوتی ہیں۔ ایسی کارروائیاں ہوتی ہیں جن کا وزیر اعظم یا صدر کو علم نہیں ہوتا۔ ان کارروائیوں کی بھاری قیمت ریاست کو ادا کرنی ہوتی ہے۔ اکتوبر 2016 میں قومی سلامتی کے امور پر بحث کے دوران توجہ دلائی گئی کہ دوستوں سمیت دنیا کو ہم سے شکایت ہے ہمیں ایسے اقدامات کرنے ہوں گے کہ دنیا ہم پر انگلی نہ اٹھائے تو اسے ڈان لیکس کا نام دیا اور ایجنسیوں کے اہلکاروں کی جے آئی ٹی بنی اور مجھے غدار اور ملک دشمن بنا دیا گیا۔

ایک ٹویٹ میں ’مسترد‘ کا ٹائٹل دے دیا گیا۔ انھوں نے کہا سینٹ میں انتخابات سے قبل ایک سازش کی گئی جس کے تحت بلوچستان کی صوبائی حکومت گرا دی گئی۔ قاضی فائز عیسی اور شوکت عزیز صدیقی دونوں جج ایماندار ہیں اور انتقام کا شکار بن رہے ہیں۔ ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں ہے۔ ہماری جدوجہد عمران خان کو لانے والوں کے خلاف ہے اور ان کے خلاف ہے جنھوں نے نا اہل بندے کو لا کر بٹھایا ہے۔ یہ تبدیلی عمل میں نہ آئی تو یہ نا اہل اور ظالمانہ نظام ملک کو کمزور کر دے گا۔

نواز شریف نے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور کشمیر کے حوالے سے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی بنانے کا اختیارعوامی نمائندوں کے پاس ہونا چاہیے، ہماری خارجہ پالیسی عوامی امنگوں اور ملکی مفادات سے ہر گز متصادم نہیں ہونی چاہیے، کھربوں روپے کے نقصان اور ہزاروں جانیں قربان کرنے کے باوجود ہم کبھی ’ایف اے ٹی ایف‘ اور کبھی کسی اور کٹہرے میں کھڑے شرمناک صفائیاں پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ جب کشمیر کا نام زبان پر آتا ہے تو 73 سال سے دی جانے والی قربانیاں آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہیں، کشمیری عوام پر مظالم کا سلسلہ تو کئی سالوں سے جاری ہے مگر کشمیر کو ہڑپ کرنے کا حوصلہ آج تک کسی کا نہیں ہوا، اب بھارت نے ایک غیر نمائندہ اور غیر مقبول اور کٹھ پتلی پاکستانی حکومت دیکھ کر کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا ہے، اور ہم، ہم احتجاج بھی نہ کر سکے، دنیا تو کیا اپنے دوستوں کی حمایت بھی نہ حاصل کر سکے، کیوں ہم عالمی تنہائی کا شکار ہو گئے؟ کیوں آج ہماری بات سننے کے لئے تیار نہیں ہے، کیو ں ہمارے انتہائی قریبی ممالک بھی آج ہم پر اعتماد کرنا چھوڑ گئے ہیں، ، اس طرح کی حکومت ہو گی تو یہی کچھ ہو گا، آپ کی خارجہ پالیسی کو بچوں کا کھیل بنا کر رکھ دیا گیا ہے، وقت آ گیا ہے کہ ان تمام سوالوں کے جواب لئے جائیں۔

کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں اپوزیشن اتحاد کے قیام اور حکومت کے خلاف تحریک کا اعلان کیا گیا اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ آئین، 18 ویں ترمیم اور موجودہ این ایف سی ایوارڈ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ پارلیمان کی بالا دستی پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔ اے پی سی کی قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ گلگت بلتستان میں بغیر مداخلت انتخابات کرانے اور آغاز حقوق بلوچستان پر عملدرآمد یقینی بنانے اور 1947 سے اب تک پاکستان کی حقیقی تاریخ کو حتمی شکل دینے کے لئے ٹرتھ کمیشن تشکیل دیے جانے کا مطالبہ کیا گیا۔

اعلامیہ کے ایکشن پلان میں وزیر اعظم عمران خان کے فوری استعفے کا مطالبہ اور ملک گیر تحریک کا اعلان کیا گیا۔ پہلے مرحلے میں اکتوبر سے سندھ، بلوچستان، خیبر پختون خواہ اور پنجاب میں مشترکہ جلسے اور جلوس اور دوسرے مرحلے میں دسمبر سے بڑے عوامی مظاہرے اور ملک گیر احتجاج کیا جائے گا۔ جنوری میں اسلام آباد کی طرف فیصلہ کن لانگ مارچ کیا جائے گا۔ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحاریک، اسمبلیوں سے استعفوں کے آپشن بھی حکمت عملی میں شامل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).