شمالی وزیرستان کی ہیلتھ ورکر ناہیدہ کے قتل کے خلاف احتجاج


آج پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں ایک احتجاج کیا جا رہا ہے۔ اس احتجاج میں یہاں سے کوسوں دور موجود بہت سے لوگ بھی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے شامل میں۔ ٹوئٹر پر صارفین کی جانب سے جسٹس فار ناہیدہ کے نام سے ٹرینڈ چلایا جا رہا ہے۔

ناہیدہ اسی علاقے کی مکین ہیں اور انھیں 21 ستمبر کو دن دیہاڑے ایک شاہراہ پر نامعلوم افراد نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔

پولیس ذرائع سے وصول ہونے والی تفصیلات اور ناہیدہ کے والد کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق ناہیدہ گل کی عمر 25 برس تھی اور وہ گذشتہ 2 سال سے میر علی میں موجود ایک غیر سرکاری ادارے ( این جی او) میں نیٹو ٹریشن اسسٹنٹ کے فرائص سرانجام دے رہی تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

طالبان، فوج، ’نو گو ایریا‘: جنوبی و شمالی وزیرستان کا سفر

’دہشت گرد شمالی وزیرستان میں واپس آ گئے ہیں‘

’طالبان سے بھی ڈر لگتا تھا اور فوج سے بھی‘

ان کا گھر دفتر سے تقریباً آٹھ کلو میٹر کی دوری پر تھا اور وہ صبح آٹھ بجے ایک رکشہ چنگچی کے ذریعے یہ سفر طے کرتی تھیں۔

میر علی تھانے کے ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی ایف آئی آر کاؤنٹر ٹیرازم ڈیپارمنٹ والوں کی جانب سے درج کی گئی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ڈرائیور سے ہونے والی پوچھ گچھ سے معلوم ہوا ہے کہ پیر کو بھی وہ حسب معمول آٹھ بجے گھر سے نکلیں۔

ڈرائیور نے پولیس کو بتایا ہے کہ’ واپسی پر دفتر سے ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر دو نقاب پوش چگنچی میں بیٹھے اور ناہیدہ نے کہا کہ پہلے ان کو جدھر یہ کہہ رہے ہیں چھوڑ دیں۔ پھر ہم گھر جاتے ہیں۔ نقاب پوش افراد نے ڈرائیور کو پہاڑی راستے پر جانے کو کہا۔‘

ایس ایچ او کے مطابق معلوم ہوا ہے کہ مکینے کلے براستہ محمدی کلے کے مقام پر پہنچ کر ایک بندے نے ناہیدہ کو چنگچی سے اتار کر ایک جانب لے جا کر دو گولیاں ماریں جبکہ ڈرائیور کو دوسرا شخص دوسری سمت لے گیا اور اس پر پستول تان لی۔

موقع پر ہی ناہیدہ ہلاک ہو گئیں۔

ناہیدہ کا گھر مسکی نامی علاقے میں تھا۔ ان کے والد محمد فاروق خان نے ایف آئی آر اور پولیس کو تفتیش میں بتایا ہے کہ ان کی بیٹی دو سال سے کام کر رہی تھیں تاہم کبھی بھی کوئی دھمکی موصول نہیں ہوئی اور نہ ہم کسی پر شک کر سکتے ہیں۔

ڈرائیور کے بقول ناہیدہ کو قتل کرنے کے بعد وہ دونوں افراد اس کے ہمراہ واپس اسی روڈ پر لے آئے جہاں سے ہم آئے تھے اور دو کلومیٹر دور جا کر انھوں نے روکا اور پھر غائب ہو گئے۔

ڈرائیور نے بتایا کہ پھر انھوں نے اپنے ایک دوست کے ساتھ جا کر ناہیدہ کی لاش کو اٹھا کر چنگچی میں رکھا اور ہسپتال تک لے کر گئے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ساڑھے بارہ سے ایک بجے کے درمیان پیش آیا اور ناہیدہ کے والدہ کو دن ایک بجکرپانچ منٹ پر کال موصول ہوئی کہ آپ کی بیٹی کو قتل کر دیا گیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ یہ ایک حساس علاقہ ہے اور یہاں پولیو کی کوئی مہم نہیں ہو رہی تھی نہ وہاں پولیس موجود تھی۔

’اگر آپ نے یہ علاقہ دیکھا ہے تو یہ حسو پل سے اور مرکزی شاہراہ سے چھ سے سات کلومیٹر اندر ہے۔‘

پولیس کے مطابق بظاہر یہ ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ ہے تاہم پولیس ابھی ڈرائیور کے فون نمبر کا ریکارڈ چیک کر رہا ہے۔

ایس ایچ اور میر علی کے مطابق اس واقعے کی تحقیقات سی ٹی ڈی کی ٹیم کر رہی ہے اور اس دوران قبائلی جرگے نے ہمیں آکر کہا کہ ڈرائیور بے قصور ہے اسے چھوڑ دیا جائے۔

اس واقعے سے متعلق رکن پارلیمان اور پی ٹی ایم کے رہنما محسن داورڈ نے بھی ٹویٹ کی اور کہا کہ ’اس واقعے سے وزیرستان میں امن ارو سکیورٹی سے متعلق بولاج گیا جھوٹ سامنے آ گیا ہے۔ طالبان کی دہشت معصوموں کا حون مانگتی ہے۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’ریاست اپنی دوغلی چال سے باز نہیں آئی ، ہم اسے پہچانتے ہںی اور ہم اس کی مزاحمت کریں گے۔ ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp