مولانا فضل الرحمان نیب میں طلب: ’وہ پیش ہوتے ہیں یا نہیں دونوں صورتوں میں میلہ تو لگے گا‘


مارچ

قومی احتساب بیورو نے جمیعت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو آمدن سے زیادہ اثاثے رکھنے کے الزام میں یکم اکتوبر کو طلب کر لیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ انھیں کوئی نوٹس نہیں ملا اور یہ بد نیتی پر مبنی ڈھنڈورا میڈیا کے ذریعے پیٹا جا رہا ہے۔

اس نوٹس کے جاری ہونے کے بعد مختلف سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور بظاہر تجزیہ کار اس نوٹس کے جاری کرنے کے وقت (ٹائمنگ) کو زیادہ اہم سمجھ رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ آل پارٹیز کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان کی تقریر میں ان کے سخت موقف کو سمجھا جار رہا ہے۔

اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس کے بعد سیاسی ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔ اس کانفرنس میں اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کے تقریروں سے حالات میں تناؤ ضرور پیدا ہوا ہے۔ مولانا فضل الرحمان موجودہ حکومت کے سخت مخالف رہے ہیں اور وہ اپنی تقریروں میں یہ الزامات بھی لگاتے رہے ہیں کہ موجودہ حکومت دھاندلی کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے۔

قومی احتساب بیورو کے نوٹس کے بعد اب مولانا فضل الرحمان کا رد عمل اور ان کے ساتھ دیگر سیاسی جماعتیں کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہیں زیادہ اہم ہو گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جنوری میں لانگ مارچ کا اعلان، اسٹیبلشمنٹ سے سیاست میں مداخلت بند کرنے کا مطالبہ

اے پی سی کا مشترکہ اعلامیہ: اب آگے کیا ہو گا؟

بظاہر قومی احتساب بیورو کی جانب سے جاری نوٹس میں کہا گیا ہے کہ سابق رکن قومی اسمبلی مولانا فضل الرحمان اور دیگر کو بد عنوانی کے الزام کے بارے میں انکوائری کے لیے طلب کیا جاتا ہے۔ اس نوٹس میں انھیں قومی احتساب بیورو پشاور کے دفتر میں یکم اکتوبر کو حاضر ہونے کے لیے کہا گیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ انکوائری آمدن سے زیادہ اثاثے رکھنے کے الزام پر کی جا رہی ہے۔

کیا مولانا فضل الرحمان نیب میں حاضری دیں گے؟

کراچی میں ایک اخباری کانفرنس کے دوران مولانا فضل الرحمان سے جب پوچھا گیا کہ قومی احتساب بیورو نیب کی جانب سے انھیں نوٹس جاری کیا گیا ہے تو مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ انھیں اب تک کوئی نوٹس نہیں ملا اور اس کی کاپی میڈیا کو بھی نہیں ملی اور اور میڈیا کے لوگ ان سے رابطہ کر رہے ہیں اور پھر میڈیا کو خبر دینے سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ نیب کی نیت کو دھنڈورا پیٹ رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ بدنیتی پر مبنی اس قسم کے حربوں سے نہ پہلے ڈرے ہیں ایسے نوٹس کی اہمیت مچھر کی بھنبھناہٹ کے برابر بھی ان کے سامنے نہیں ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اگر انھیں ’نوٹس ملا تو پارٹی اور ان کے قانونی ماہرین اس کو دیکھیں گے لیکن اب تک نہ تو نوٹس انھیں ملا ہے اور ناں ہی میڈیا کو ملا ہے تو اس سے ظاہر ہورہا ہے کہ دال میں سارا کالا کالا ہے۔ ‘

اس موقع پر اخباری کانفرنس میں موجود جمعیت علماء اسلام سندھ کے رہنما خالد سومرو نے کہا کہ اگر نیب کا نوٹس ملا تو مولانا فضل الرحمان اگر نیب میں پیش ہوتے ہیں تو وہ پھر اکیلے نہیں ہوں گے بلکہ تیس لاکھ جماعت کے کارکن ان کے ساتھ ہوں گے اور وہ سب پھر نیب میں پیش ہوں گے۔

اس سے پہلے بھی مولانا فضل الرحمان موجود حکومت پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں اور وہ سکھ سے خیبر پختونخوا اور اسلام آباد تک لانگ مارچ اور دھرنا بھی دے چکے ہیں اور اس دوران بھی ان کے خلاًاف اقدامات کے بیانات تو جاری کیے جاتے رہے لیکن ان کے خلاًف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔

اے پی سی

اس کی ایک وجہ آل پارٹیز کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان کی تقریر میں ان کے سخت موقف کو سمجھا جار رہا ہے

اگر مولانا فضل الرحمان نیب میں پیش ہوتے ہیں تو کیا ہوگا؟

پاکستان کی سیاست میں جمعیت علماء اسلام (ف) ان چند سیاسی جماعتوں میں شامل ہے جن کے پاس عوامی حمایت ہے اورانھوں نے گذشتہ سال نومبر میں ثابت کر دیا تھا جب آزادی مارچ بڑی تعداد میں لوگ ان کے ہمراہ سکھر سے روانہ ہوئے اور پھر اسلام آباد میں بڑا دھرنا دیا تھا۔

پشاور میں ڈان اخبار کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر اسماعیل خان نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کیس کے بارے میں تو وہ کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن اس نوٹس کو اے پی سی کے چند روز بعد جاری کرنا بھی اسے مشکوک کر دیتا ہے۔ انھوں نے کہا اگر اس اے پی سی سے پہلے ہی نوٹس جاری کر دیا جاتا تواس پر کوئی بات بن سکتی تھی لیکن یہ تو اے پی سی کے دو تین روز بعد ہی جاری کر دیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ نیب کے لیے اس بارے میں ٹھوس بنیادوں پر وضاحت کرنا انتہائی مشکل ہوگا کیونکہ نیب چیئر مین کے بقول کہ وہ کیس کو دیکھتے ہیں فیس کو نہیں دیکھتے لیکن یہ صورتحال اب مشکوک نظر آ رہی ہے۔

اسماعیل خان نے سے جب پوچھا کہ اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں تو ان کا کہنا تھا اس کے صورتحال ہو سکتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایک تو یہ کہ مولانا فضل الرحمان کو اگر نوٹس مل جاتا ہے تو وہ کیسے رد عمل دیتے ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ پیش ہوتے ہیں یا نیب میں پیش نہیں ہوتے دونوں صورتوں میں میلہ تو لگے گا۔

اسماعیل خان نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کو عوامی حمایت حاصل ہے اور بڑی بات یہ ہے کہ انھیں نیب پشاور میں طلب کیا گیا ہے تو ممکن ہے کہ یہ ایک ہنگامہ خیز ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر مولانا فضل الرحمان پیش نہیں ہوتے تو اس کے لیے پھر قومی احتساب بیورو کو انھیں گرفتار کرنا پڑے گا اور گرفتاری کے لیے نیب کا آنا بھی انتہائی ہنگامہ خیز ہو سکتا ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کیا کرتے ہیں او راب نیب کیسے سامنے آتی ہے تو اور اس کے علاوہ اپوزیشن کی جماعتوں نے جو لائحہ عمل اخ،یار کیا ہے اس صورتحال میں وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں یہ سب کچھ انتہائئ اہم ہوگا اور اس سے حالات کوئئ بھی نئی صورتحال اختیار کر سکتے ہیں۔

تجزیہ کار اب نیب کے اس نوٹس کی ٹائمنگ اور اس میں جو مضمون ہے اس پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ بظاہر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو ایسے حالات میں رد عمل مختلف ہوتا ہے۔ مسلم لیگ کے کارکنوں کا رد عمل پیپلز پارٹی کے کاترکنوں سے مختلف ہوتا ہے اسی طرح مذہبی جماعتوں میں جمعیت علماء اسلام بڑی جماعت ہے اور عوامی طوقت کا مظاہرہ کئی مرتبہ کر چکی ہے۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر مولانافضل الرحمان کو گرفتار کیا جاتا ہے تو جمعیت کے کارکنوں کا رد عمل کہیں سخت ہو سکتا ہے جو مسلم لیگ نواز کے کارکنوں کے رد عمل سے یکسر مختلف ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp