سنکیانگ کی طرح تبت میں بھی چین وسیع پمانے پر لوگوں کو ’تربیتی‘ کیمپ میں ڈال رہا ہے


تبت

ایک مطالعے میں خبردار کیا گیا ہے کہ تبت میں چین لاکھوں افراد کو فوجی طرز کے پیشہ ورانہ ’تربیتی مراکز‘ میں داخل کر رہا ہے۔

جیمز ٹاؤن فاؤنڈیشن کی یہ رپورٹ سرکاری میڈیا رپورٹس، پالیسی دستاویزات اور سیٹلائٹ سے لی جانے والی تصاویر پر مبنی ہے اور خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ اس نے اس کی تصدیق کی ہے۔

اس مطالعے میں سنکیانگ کے خطے میں نسلی اویغروں کے ساتھ ہونے والے ریکارڈ شدہ واقعات کے ساتھ موازنہ بھی کیا گیا ہے۔

چینی حکام نے ابھی تک ان نتائج پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اویغور مسلمانوں کے لیے ’سوچ کی تبدیلی‘ کے مراکز

برطانیہ: ’چین کے خلاف پابندیاں خارج از امکان نہیں‘

چینی صدر کا ’نئے جدید سوشلسٹ تبت‘ کی تعمیر کا اعلان

تبت ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں ایک دور دراز علاقہ ہے جہاں بنیادی طور پر بدھ مت کے پیروکار آباد ہیں۔ اس کی حیثیت ایک خود مختار خطے کی ہے جس پر چین حکومت کرتا ہے چین پر یہ الزام ہے کہ وہ وہاں ثقافتی اور مذہبی آزادی کو دباتا ہے۔

بیجنگ کا کہنا ہے کہ وہ خطے میں ترقی اور ترقیاتی کاموں کو فروغ دے رہا ہے۔

تبت کے جلاوطنی میں نامزد صدر لوبسانگ سانگے ان لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے پہلے یہ الزام لگایا ہے کہ تبت کے لوگوں کو ‘تعلیم’ کے نام پر مزدور کیمپوں اور تربیتی مراکز میں زبردستی رکھا جاتا ہے۔

بہر حال مطالعے میں جو تفصیل سامنے آئی ہے وہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ جس وسیع پیمانے پر وہاں پروگرام جاری ہے وہ اندازوں سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔

مطالعہ کے نتائج کیا ہیں؟

تبت اور سنکیانگ کے ایک آزاد محقق ایڈرین زینز کی تصنیف کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2020 کے پہلے سات ماہ میں پانچ لاکھ افراد کو ’تربیت‘ دی گئی ہے جن میں زیادہ تر لوگ بنیادی طور پر کسان اور گلہ بان ہیں۔ اور حکام نے ان تربیت یافتہ مزدوروں کو بڑے پیمانے پر تبت اور چین کے دوسرے حصوں میں منتقل کرنے کے لیے کوٹہ طے کیا ہے۔

حوالے کے ساتھ کہا گیا ہے کہ چینی حکومت کے منصوبوں کے مطابق ’تربیتی سکیموں‘ کے تحت ان مزدوروں کو ‘کام کے نظم و ضبط، چینی زبان اور کام کرنے کی اخلاقیات’ کی تربیت دی گئی ہے۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ‘کام کرنے کے بارے میں آنا کانی یعنی ‘میں نہیں کر سکتا، کرنا نہیں چاہتا، اور کرنے کی ہمت نہیں ہے’ جیسے رویے کو بدلنا ہے اور اس کے ساتھ ‘سست لوگوں’ کو مؤثر طریقے سے ختم کرنے کے لئے ‘غیر متعین اقدامات’ پر زور دیا گیا ہے۔

اس تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ ’تربیتی پروگراموں‘ سے نکلنے والے زیادہ تر مزدور کم تنخواہ والی ملازمتوں جیسے کہ ٹیکسٹائل مینوفیکچرنگ، تعمیرات اور زراعت میں جائیں گے۔

اس میں متنبہ کیا گیا ہے کہ ‘بیجنگ کی نسلی اقلیت کو تیزی سے ہم آہنگی کرنے والی پالیسی کے تناظر میں اس بات کا خدشہ ہے ان پالیسیوں سے طویل مدتی طور پر لسانی، ثقافتی اور روحانی ورثے کے خاتمے کو فروغ ملے گا۔’

تربیتی مراکز

چین کا کہنا ہے کہ کاشغر کے اس ڈیٹنشن سینٹر کی طرح ان کے تربیتی مراکز پیشہ ورانہ کاموں کی تربیت کے لیے ہیں

سنکیانگ سے موازنہ؟

اس کا کہنا ہے کہ اس پروگرام میں شورش زدہ صوبے سنکیانگ کی لیبر سکیموں سے بہت مشابہت ہے جہاں چینی حکام پر زیادہ تر مسلم اویغر آبادی کو بڑے پیمانے پر نظربند کرنے کا الزام ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ‘سنکیانگ اور تبت دونوں میں ریاست کے ذریعے غربت کے خاتمے میں ایک ٹاپ ڈاؤن سکیم شامل ہے جو حکومت کے معاشرتی کنٹرول کو خاندانی اکائیوں میں گہرائی تک لے جاتی ہے۔’

سنکیانگ میں چین پر من مانے ڈھنگ سے لاکھوں مسلمانوں کو نظربند کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں جبکہ بیجنگ کا کہنا ہے کہ یہ کیمپ دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے پیشہ ورانہ سکول ہیں جو کہ ضروری ہیں۔

بہر حال جیمزٹاؤن کے مطالعے میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ تبت میں جاری لیبر سکیم ‘ممکنہ طور پر کم جبر’ والی ہے جس کے نتیجے میں کچھ تبتی باشندے رضاکارانہ طور پر اپنی آمدنی میں اضافے کے لیے اس میں حصہ لیتے ہیں۔

رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ وہاں ‘جبر اور مخصوص خیالات کی ترغیب و تلقین کے واضح اشارے ملتے ہیں اس کے ساتھ ذریعہ معاش کے طریقوں میں ممکنہ طور پر مستقل بدلاؤ کی چیزیں بہت زیادہ مسائل پیدا کرنے والی ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp