نفرت پسند کرتے ہیں شیعہ اور سنی؟


مقرر شعلہ بیاں آصف اشرف جلالی نے اپنی ایک تقریر کے دوران کہا ”جب حضرت فاطمہ حضرت ابوبکر سے فدک مانگ رہی تھیں تو خطا پر تھیں لیکن جب ان کے سامنے حدیث آ گئی تو انہوں نے سر تسلیم خم کر دیا۔“ اس تقریر کے سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہی تلاطم مچ گیا۔ شیعہ سنی ہر ایک مکتب فکر کے لوگوں نے ان جملوں کو حضرت فاطمہ کی شان میں گستاخی قرار دیا اور کارروائی کے مطالبے ہونے لگے۔ دباؤ بڑھتا گیا، ایف آئی آر کٹی اور اشرف جلالی گرفتار ہوکر جیل سدھارے۔

مقرر شعلہ بیاں آصف رضا علوی نے اپنی ایک تقریر میں فدک کا ہی موضوع چھیڑا۔ بولے ”جب سیدہ (فدک کا مطالبہ کرنے ) دربار میں گئی تھیں تو نبی کی بیٹی نے اپنی فضیلت والی آیتیں نہیں پڑھیں۔ بی بی نے چالیس آیتیں پڑھی ہیں دربار خلافت میں، بی بی نے ایک آیت بھی اپنی فضیلت کی نہیں پڑھی۔ بی بی نے اپنے حق والی آیتیں پڑھیں، جس سے بی بی کا حق ثابت تھا۔ فضیلت ثابت کرنے کے لئے نہیں آئی تھی، حق ثابت کرنے کے لئے آئی تھی کیونکہ جو سامنے بیٹھا تھا اگر وہ فضیلت کا انکار کرتا تو گنہ گار ہو جاتا لیکن حق کے انکار سے بندہ گنہ گار نہیں ہوتا کافر ہو جاتا ہے۔“

یہ ویڈیو منظر عام پر آئی تو ایک مرتبہ پھر تلاطم برپا ہو گیا۔ لحاظ کے کمبل اتار پھینکے گئے۔ ایک شخص کی زبان درازی سے کروڑوں کا کفر ثابت کیا جانے لگا۔

اس دوران اس مقرر شعلہ بیاں کا کیا ہوا؟ حضرت کے بارے میں پتہ چلا کہ آپ جھٹ پٹ انگلستان جا پہنچے ہیں۔ زیادہ ہی بات بڑھنے لگی تو انہوں نے ایک وضاحتی ویڈیو جاری کیا جس میں فرمایا کہ وہ تو یزید کی بات کر رہے تھے۔ حالانکہ اس تقریر میں ہی متنازعہ جملوں سے پہلے وہ کہتے ہوئے سنے جا سکتے ہیں ”میں اسلام آباد میں جگر ہتھیلی پر رکھ کر یہ بات کرنے لگا ہوں۔ اتنا بڑا جگر چاہیے یہ بات منبر پر کرنے کے لئے۔“ ظاہر ہے یہ بات یزید کو برا کہنے سے پہلے تو نہیں کہی جاتی ہے اس لئے وضاحتی ویڈیو سے بات نہ بن سکتی تھی اور نہ ہی بنی۔

آصف رضا علوی کے بیان سے مسلکی عصبیت کے کھیت میں تکفیریت کا مینہ برس گیا۔ کھلے عام ریلیاں ہوئیں اور دل ٹھنڈے کیے گئے۔ ایک طرف جہاں برسوں کا غبار باہر آ رہا تھا وہیں دوسری طرف شیعہ طبقہ سے آوازیں آنے لگیں کہ یہ سب عرب۔ اسرائیل دوستی پر سے توجہ ہٹانے کی خاطر ہو رہا ہے۔ ان الزام تراشیوں میں ہر دو جانب سے زیادتی ہوئی۔ شیعوں کی تکفیر کرنے والوں نے ایک شخص کی حرکت کو پورے مسلک کی رد کا جواز بنا لیا۔ ویسے بھی خلیفہ راشد یا صحابی کی شان میں گستاخی کرنے پر کافر ہو جانے والی بات متفق علیہ نہیں ہے۔ شیعوں کی طرف سے زیادتی یہ ہوئی کہ انہوں نے تکفیر کرنے والوں کے ماضی اور نیت پر سارا الزام دھر دیا جبکہ انصاف کا تقاضا تھا کہ پہلے اس زبان دراز ذاکر کے خلاف سخت اور اجتماعی موقف ظاہر کیا جانا چاہیے تھا۔

مقدسات کی توہین شیعہ۔ سنی اختلاف کی بنیادی وجوہات میں شامل رہا ہے۔ شیعوں کی تکفیر کرنے والے بھی ایسے ہی مباحث کی بنیاد پر اپنا مقدمہ کھڑا کرتے ہیں۔ شاید اسی نزاکت کو بھانپتے ہوئے شیعہ مسلک کے اعلی ترین علما (جنہیں مراجع تقلید کہا جاتا ہے) نے سنیوں کے مقدسات کی توہین کرنے کو حرام قرار دے رکھا ہے۔ اس کے باوجود وہ ذاکرین جن میں علمی گفتگو کی استعداد نہیں ہے ان کے لئے مناظرانہ بحثیں ہمیشہ محبوب رہی ہیں۔

یہی حال دوسری طرف ہے۔ یوٹیوبی واعظین کی اکثر کلپس کو چھان جائیے تو ان میں اسلام کی تفہیم سے زیادہ شیعت کی رد والی باتیں ملیں گی۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ شیعہ اور سنی عقیدت کی منڈیوں میں جنس نفرت کی بہت کھپت ہے۔ شیعوں کی تکفیر کرنے والا یوٹیوبی واعظ اور سنی مقدسات پر زبان درازی کرنے والا ذاکر روٹیوں کو ترس سکتا ہے بشرطیکہ سامعین کے ذوق میں سے نفرت پسندی کے جراثیم نکال لئے جائیں۔

شیعہ اگر یہ چاہتے ہیں کہ کوئی آصف اشرف جلالی ان کے مقدسات کے بارے میں بولنے سے پہلے سو بار سوچے تو انہیں اپنی صفوں میں موجود ایسے ذاکروں کو مسترد کرنا ہوگا جو دوسروں کے مقدسات پر گز بھر کی زبان نکالتے ہوئے ذرا تامل نہیں کرتے۔ اسی طرح اگر سنی چاہتے ہیں کہ ان کے مقدسات کی توہین نہیں ہونی چاہیے تو انہیں ایسے مولوی اور خطیب نشان زد کرنے ہوں گے جو اہلبیت کے قاتلوں کا کھل کر دفاع کرتے ہیں اور حضرت یا رضی اللہ لگا کر اہلبیت کے لئے ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو جسارت معلوم پڑتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ ’حضرت حسین کو سب روک رہے تھے تو انہیں نہیں جانا چاہیے تھا‘ ۔ اس طرح کے جملے یہ کہنے کی کوشش معلوم ہوتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہوتا ہی نہیں اگر امام حسین ایسا نہ کرتے۔

شیعہ۔ سنی خلیج وقت کے ساتھ دھیرے دھیرے کم ہو سکتی ہے لیکن جیسے ہی ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین ہوتی ہے دوریاں پھر سے بڑھ جاتی ہیں۔ امیر یزید کا نعرہ سن کر کسی شیعہ کے دل میں سنی کے لئے کس طرح کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں یہ آپ خود ہی سوچ لیجیے۔ خلفاء کی شان میں گستاخی والی مجلس سن کر ایک سنی کا شیعہ کے لئے کیا نظریہ بن سکتا ہے یہ بھی آپ خوب سمجھ سکتے ہیں۔

چونکہ میرا شیعہ پس منظر ہے اس لئے شیعوں کو ایک نصیحت زیادہ کرنے کا حق رکھتا ہوں۔ یاد رکھئے ہر وہ ذاکر جو منبر پر بیٹھ کر ایسی گفتگو کرتا ہے جس سے سنیوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں، ایسا ذاکر شیعوں کو مسلمانوں میں تنہا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جب شیعوں کی صفوں سے سنیوں کے مقدسات پر انگلی اٹھائی جائے گی تو اس کے نتیجہ میں دیگر مسالک اور شیعوں کے درمیان خلیج ہی بڑھے گی۔ یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ یزید سنیوں کے مقدسات میں شامل نہیں ہے اور نہ ہی اس کو برا کہنے پر زیادہ تر سنی برافروختہ ہوتے ہیں۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter