چوکیدار


شہبازشریف کا ایک بیان نظر سے گزرا کہ اگر نواز شریف کے دور میں اتنی بارش ہوتی تو وہ مستقل کراچی میں ڈیرے ڈال دیتے۔ یہ بیان اتنا خوبصورت تھا کہ مجھے ماضی کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ میں ایک فیکٹری میں ملازمت کرتا تھا۔ کھاد فیکٹری تھی۔ کھاد بنانے کا عمل ایسا ہوتا ہے کہ اگر پلانٹ مسلسل چلتا رہے تو ٹھیک ہے اگر کسی خرابی کی وجہ سے روکنا پڑے تو کئی دن کی پروڈکشن کا نقصان ہو جاتا ہے۔ اسی لیے اسے مسلسل چلائے رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ایک دن پلانٹ میں تیکنیکی خرابی محسوس ہونے لگی۔ تمام عملہ پریشان تھا۔ اس خرابی کو دور کرنے کی کوشش کی گئی۔ اللہ نے کرم کیا اور اس مشکل سے سب کی جان بچی۔ جب خرابی دور ہو گئی تو ہر ایک کی کوشش تھی کہ اپنی کار گزاری کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے۔ جس کو جو فورم میسر تھا اسی پر خود ستائشی میں مصروف تھا۔

ایک دن تمام مینیجر صاحبان کی سیٹھ صاحب کے ساتھ میٹنگ تھی۔ تمام مینیجرز اپنی اپنی اہلیت کے باجے بجا رہے تھے۔ جنرل مینیجر صاحب کیوں پیچھے رہتے۔ بولے ”سیٹھ صاحب میں تین دن اور تین رات مسلسل پلانٹ پر رہا ہوں اور تمام امور کی انجام دہی اپنی نگرانی میں کروائی ہے“ اپنی بات ختم کر کے وہ داد طلب نظروں سے سیٹھ صاحب کی طرف دیکھنے لگے۔ مگر سیٹھ صاحب نے بجائے تعریف کرنے کے ایک کہانی سنانی شروع کر دی۔

ایک بادشاہ تھا بہت ذہین اور عقلمند۔ اس کی بہت سی بیگمات تھیں۔ اس کی سب سے چہیتی اور لاڈلی سب سے چھوٹی تھی۔ وہ اس کی ہر بات مانتا تھا (یہاں اس کی عقلمندی ختم ہو جاتی تھی) ملکہ نے سوچا بادشاہ میری ہر بات مانتا ہے میں کیوں نہ اپنے بھائی کو وزیراعظم بنوا دوں۔

ایک دن موقع پا کر وہ بادشاہ سے کہنے لگی ”عالی جاہ یہ جو ہمارا وزیراعظم ہے بہت بوڑھا ہو چکا ہے اس کے تمام بال بھی سفید ہو چکے ہیں۔ کیوں نہ ہم کوئی نوجوان ذہین اور بہادر آدمی وزیراعظم بنا دیں۔ جیسے کہ میرا بھائی ہے“

بادشاہ خاموش رہا۔ ملکہ کب ہار ماننے والی تھی۔ وہ جب بھی موقع ملتا بادشاہ کے کان کھانے لگتی۔ ایک دن کہنے لگی ”بادشاہ سلامت بے شک آپ اس کا امتحان لے لیں“

بادشاہ بھی تنگ آ چکا تھا۔ اس نے ملکہ کے بھائی کو بلوایا اور اسے ایک قیمتی ہیرا دیتے ہوئے کہا ”اسے حفاظت سے رکھو اور تین دن بعد بحفاظت مجھے واپس کر دینا“

ملکہ کے بھائی نے ہیرا لیا اور تین دن اور تین رات تلوار سونت کر اس کی حفاظت کرتا رہا۔ تین دن بعد اس نے وہ ہیرا بادشاہ کو لا کر دے دیا۔ ملکہ بہت خوش ہوئی اور باشاہ سے بولی ”دیکھا میرا بھائی کتنا بہادر ہے تین دن اور تین رات اس نے پلک نہ جھپکائی اور ہیرے کی حفاظت کی۔ اب تو وہ امتحان میں بھی پورا اتر چکا ہے۔ اسے وزیراعظم بنا دیں“

بادشاہ نے کہا ”جلدی کس بات کی ہے اب یہی امتحان وزیراعظم کا بھی لے لیتے ہیں“

بادشاہ نے وزیراعظم کو بلوایا اور کہا ”آپ یہ ہیرا اپنے پاس حفاظت سے رکھیں اور تین دن بعد مجھے واپس کریں“

ملکہ خوش تھی کہ یہ بوڑھا کیسے تین دن گزارے گا۔ وزیراعظم نے ہیرا لیا اور تین نوجوان اور بہادر سپاہیوں کی ڈیوٹی لگائی کہ باری باری اس کی حفاظت کریں جس کی ڈیوٹی کے دوران اسے کوئی نقصان ہوا اس کی گردن اڑا دی جائے گی۔ اس کے بعد وہ خود سلطنت کے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہو گیا۔ تین دن بعد بادشاہ نے وزیر کو بلایا تو وہ ہیرا لے کر حاضر ہوا اور ہیرا بادشاہ کے حوالے کیا۔

بادشاہ نے وزیراعظم کو رخصت کیا اور ملکہ سے مخاطب ہوا ”اب سمجھ جاؤ مجھے وزیراعظم چاہیے چوکیدار نہیں“

کہانی ختم کر کے سیٹھ صاحب بولے مجھے مینیجر چاہیے چوکیدار نہیں۔ اس موقع پر جنرل مینیجر صاحب کا منہ دیکھنے لائق تھا مگر ہمارے سیاستدان اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ان کے چہرے پر تو کسی بڑی سے بڑی بات پر بھی شرم نہیں آتی۔ بے شک قصور میں بچوں سے زیادتی کی فلموں کی بات ہو یا زینب کے باپ کے آگے سے مائیک ہٹانا ہو۔

ابھی چند سال پہلے کسی کی عزت پر حملہ ہوتا کسی کا قتل ہوتا نواز شریف صاحب وہاں انصاف دلانے پہنچ جاتے تھے۔ انہوں نے کافی دن یہ ڈرامہ کیا۔ مگر اس سلسلے میں کوئی قانون سازی نہ کی کہ مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔ نہ ہی اپنے اداروں کو صحیح کیا۔ یہ شکایت صرف نواز شریف سے ہی نہیں زرداری سے بھی ہے اب عمران خان سے بھی ہے اور خاص طور پر ان مارشل لاء لگانے والوں سے بھی ہے جو آل ان آل تھے مگر کچھ نہ کیا۔ اب یہ فیصلہ آپ کا کہ ہمیں وزیراعظم چاہیے یا چوکیدار۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).