بڑھتے ہوئے جنسی تشدد کی وجہ تو تلاش کرنی ہو گی


ہر آنے والا دن اپنے پہلو میں بربریت کی ایسی داستانیں لا رہا ہے جو دل دہلا کر رکھ دیتی ہیں۔ ابھی ایک کی بازگشت ختم نہیں ہوتی کہ دوسرے اور تیسرے کی شروع ہو جاتی ہے۔ ہائی وے کے واقعہ پر ابھی دہائیاں ختم نہیں ہوئیں کہ فورٹ عباس کا واقعہ جس میں گھر میں گھس کر پندرہ سالہ بچی کو والد کے سامنے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ کسی اور شہر میں شوہر کی موجودگی میں بیوی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی اور نجانے دور دراز مقامات پر کتنے واقعات ہوئے ہوں گے جو میڈیا کی نظر سے اوجھل رہے۔

یہ خبریں بہت کچھ کہہ رہی ہیں جسے سنجیدگی سے سننے کی ضرورت ہے۔ ہمارا سماجی فیبرک تار تار ہو رہا ہے۔ ہم بحیثیت قوم آج تک اپنے تمام مسائل سے چشم پوشی کرتے آئے ہیں۔ قالین کی نیچے دبا دینے سے معاشرتی گندگی کم نہیں ہوتی یا کبوتر کی طرح آنکھ بند کرنے سے خطرہ کم نہیں ہوتا اور نہ ہی طویلے کی بلا بندر کے سر ڈالنے سے سماجی بگاڑ درست ہو سکتا ہے۔ سماجی تقسیم ایک خطرناک رخ اختیار کر رہی ہے جس سے مسائل میں کمی ہونے کا امکان کسی بھی ماہر سماجیات یا ماہر نفسیات کو نظر نہیں آتا۔ ایک کثیر تعداد ان افراد کی ہے جو اس دور کے مسائل سے قطعی نابلد ہیں اور ان کا حل وہاں ڈھونڈتے ہیں جہاں سے حل ملنا ہوتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔

پرانا اسکول آف تھاٹ محض بے سر و پا تاویلیں گھڑتا ہے جن میں کسی قسم کی لوجک نظر نہیں آتی۔ عذر از گناہ بد تر از گناہ کے مقولے کو یکسر فراموش کر دیا جاتا ہے۔ جرائم میں اضافے کے لا یعنی جواز گھڑے جاتے ہیں ان کے سدباب پر بات نہیں ہوتی۔ کبھی لباس پر بات کرتے ہیں، کبھی محرم کا ذکر کرتے ہیں تو کبھی مخلوط تعلیم نشانہ بنتی ہے اور ہیر پھیر کر تان وہیں ٹوٹتی ہے کہ خواتین گھر سے باہر نہ نکلیں بچیوں کو گھر میں بند کر دیا جائے۔

کیا ملک کی آدھی آبادی کو بند کرنے سے بگاڑ کا جن بوتل میں بند ہو جائے گا؟ سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ اس ملک میں مخلوط تعلیمی ادارے کتنے ہیں؟ اسکولوں کی حد تک چند پرائیویٹ اسکول جو عام آدمی کی دسترس میں نہیں ہیں۔ فورٹ عباس یا ایسے دیگر چھوٹے شہروں میں کتنے مخلوط تعلیمی ادارے ہیں اور کتنے بچے وہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں؟ سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ مدرسوں میں مخلوط تعلیمی نظام نہیں ہے پھر وہاں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات کیوں ہوتے ہیں؟ اعلٰی تعلیمی اداروں اور جامعات میں مخلوط طریقہ تعلیم رائج ہے، وہ بھی سب میں نہیں۔ سروے بتا دے گا کہ ریشو دیگر کے مقابل کتنا ہے۔ اور یہ بھی کہ وہاں ایسے واقعات کی تعداد کتنی ہے۔

رہی بات لباس کی تو وہ خواتین اور بچیاں جو برقعے، عبایا اور چادر میں ملبوس ہوتی ہیں کیا انہیں ہراساں نہیں کیا جاتا؟ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والی خواتیں سے بات کریں تو علم ہوتا ہے کہ انہیں ہر روز نت نئے طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ خواتین کی اکثریت حصول تعلیم، روزگار یا روزمرہ ضروریات کی وجہ سے باہر نکلتی ہے بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے والیوں کی تعداد بہت کم ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس معاشرتی انحطاط کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟

اس سب پر سنجیدگی سے مکالمے کی ضرورت ہے۔ اپنے سماجی رویؤں پر غور کرنے اور انہیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔ خاندان یا گھر معاشرے کی ایک اکائی ہے۔ سب سے پہلے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم اپنے گھروں میں ایسے رویے تو پروان نہیں چڑھا رہے جو بگاڑ کا باعث ہیں۔ کہیں خواتین کی تضحیک پر مبنی گالیاں ہمارے گھروں کا حصہ تو نہیں۔ ہمارے گھر میں خواتین کو کتنی عزت دی جا رہی ہے؟ بچے کی ابتدائی درسگاہ اس کا گھر ہوتا ہے۔ ماں باپ اور دیگر بڑوں کے جو رویے ہوتے ہیں بچہ وہی اپناتا ہے۔ اور ان کی چھاپ اس پر تا زندگی رہتی ہے۔

دوسرے یہ بھی سوچنا ہوگا کہ کیا سزائے موت ہی مسائل کا واحد حل ہے؟ یا اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ سزا سے متعلق قانون ہے۔ ہم زینب کیس میں دیکھ چکے ہیں کہ مجرم کو سزائے موت ہوئی پر عین اس کی پھانسی کے دن اسی علاقے میں تین اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کی گئی اگر سزائے موت ڈیٹررنٹ ہوتی تو ان کیسز میں اضافہ نہ ہوتا۔ اب کچھ حلقوں کی جانب سے کاسٹریشن کی بات بھی ہو رہی ہے۔ کم از کم ایک نیا پوائنٹ آف ویو تو سامنے آیا ہے۔ پر بات صرف سزا ہی کی ہو رہی ہے۔ مسئلہ ٔ تو سماجی بگاڑ کا ہے اس کے سدھار پر بات کرنے والوں کی تعداد کم ہے۔

اذہان اب بھی یہ قبول کرنے کو تیار نہیں کہ سماج میں جنسی گھٹن نا صرف بڑھ رہی ہے بلکہ اتنی بڑھ چکی ہے کہ خطرے کے نشان تک آ پہنچی ہے۔ بات گلی محلے سے نکل کر گھر کی چار دیواری تک آ گئی ہے۔ جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے کیسز بتا رہے ہیں کہ جنسی مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ جنسی مریض کے لیے لباس، چار دیواری کا تقدس اور کسی رشتے ناتے کی کوئی لاج نہیں ہوتی اور نہ ہی عمر کوئی معنی رکھتی ہے کہ یہاں ڈھائی مہینے کی بچی سے لے کر ستر سال تک بلکہ مری ہوئی عورت بھی نشانہ بن چکی ہے۔ آئے دن خواجہ سرا نشانہ بنتے ہیں۔ بچیوں کو گھر بٹھا دیجیئے مگر کیا بچے اور لڑکے محفوظ ہیں؟ تو کیا انہیں بھی گھر بٹھا دیا جائے؟ سوچنے کی بات تو یہ ہونی چاہیے کہ سماج کو کس طرح اس سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کی لیے محفوظ بنایا جائے۔

بات پھر رویے پر آتی ہے کہ سماج کا ہر وہ فرد نشانے پر ہے جو کمزور ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عورتوں بچوں اور خواجہ سراؤں کی کیس رپورٹ ہو جاتے ہیں، لڑکوں کے ساتھ ہونے والے کتنے کیس رپورٹ ہوتے ہیں؟ لڑکوں کی وڈیوز بنا کر انہیں بلیک میل کیا جاتا ہے۔ اور ان سب دھندوں کے پیچھے با اثر افراد کا یا تو ہاتھ ہوتا ہے یا ان کی آشیرواد ہوتی ہے۔ اکثر کیسز میں ملزم چھوٹ جاتے ہیں جس کی وجہ پولیس کی نامکمل تفتیش اور عدالتی نظام ہے۔

نچلے طبقات کی تو شنوائی ہی نہیں ہوتی۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا اور سول سوسائٹی کی دہائی کی وجہ سے کیس رجسٹر تو ہو جاتا ہے پر غریب آدمی وکیلوں کی فیس نہیں بھر پاتا اور ملزم پیسے کی بنیاد پر پولیس کی مدد سے کمزور کیس بنوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ وکیل تاریخ پہ تاریخ لیتے رہتے ہیں۔ اور مظلوم مدعی عدالتوں کے چکر کاٹتے تھک جاتا ہے۔ ملزم یا تو چھوٹ جاتے ہیں یا انہیں بہت کم سزا ملتی ہے۔ اور ان کا ریکارڈ بھی نہیں رکھا جاتا اس لیے وہ بار بار ایسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ہائی وے کیس کے سلسلے میں بھی ایک ملزم کے بارے میں ایسے ہی انکشافات ہوئے ہیں۔ جسے انصاف نہیں ملتا اس میں منتقمانہ جذبات پیدا ہوتے ہیں اور تشدد کے بطن سے تشدد جنم لیتا رہتا ہے

معاشرتی مائنڈ سیٹ ایسا بن چکا ہے کہ جنسی تعلیم پر بات کی جائے تو کیا پڑھے لکھے اور کیا جاہل سب ایک ہو جاتے ہیں۔ سب کو کلچر اور مذہب خطرے میں نظر آتا ہے۔ جو ایسی بات کرتا ہے، اسے مغرب کا پروردہ ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ری پروڈکشن کے چیپٹرز کو اسکول کے نصاب سے خارج کر دیا گیا اور حال یہ ہے کہ پورن فلمیں، لٹریچر اور سائٹس یہاں سب سے زیادہ دیکھی جاتی ہیں۔ یہ سب کون دیکھتا ہے؟ کیا ان کی اکثریت معاشرتی اکائیوں سے تعلق نہیں رکھتی؟

کیا یہ ارد گرد بسنے والے افراد نہیں؟ یہ سب ہمیں قبول ہے پر جنسی تعلیم نہیں۔ کلچر تو انسان بناتے ہیں۔ کمزور کا طاقت کے بل پر استحصال کرنے کا کلچر کیسے پروان چڑھا؟ دنیا کا ہر مذہب اچھائی سکھاتا ہے پر ان معاملات پر قابو پانے میں مذہب کا انسٹیٹیوشن بری طرح ناکام ہے۔ اگر یہ کامیاب ہوتا تو مذہبی درسگاہیں اس قباحت کی لعنت سے پاک ہوتیں۔ یہاں تو معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ایک کثیر تعداد مدارس سے رپورٹ ہونے والے کیسز کی ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی رہنماؤں کا رویہ بھی بہت معاندانہ ہے۔ وہ کبھی ان معاملات پر آواز بلند نہیں کرتے۔

لے دے کر ایک سول سوسائٹی رہ جاتی ہے جو گائے بگاہے شور مچاتی ہے اور ہر مذہبی حلقوں کی جانب سے ہمہ وقت تنقید کی زد میں رہتی ہے۔ لبرل ازم کے طعنوں کا شکار رہتی ہے۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے بیشتر رہنما ان مسائل کا فہم و ادراک ہی نہیں رکھتے اور روایتی طریقوں سے کام چلاتے رہتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی پرائم منسٹر کی مثال ہمارے سامنے ہے اس نے وہ کر دکھایا جو دنیا کے بڑے بڑے ممالک نہ کر پائے۔ بر وقت قانون سازی کی سول سوسائٹی کو بکھرنے نہیں دیا مجرم کو سزا بھی ہوئی۔

اپنے ہاں تو چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی کوئی ایسا نظر نہیں آتا۔ وقت کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اب ان مسائل کا آؤٹ آف دا باکس حل ڈھونڈنا ہوگا۔ ایک ایسی ڈیبیٹ کا انتظام کرنا ہو گا جو مذہب اور کلچر سے بالاتر ہو کر انسانی اور نفسیاتی نکتہ نگاہ سے ان مسائل کی جانچ کرے اور ممکنہ حل تجویز کرے اور اس میں وہ افراد شامل ہوں جنہیں سماجیات اور انسانی نفسیات کے علوم پر عبور ہو اور وہ دیگر اقوام کے نظام کا بھی تقابلی جائزہ لیں کہ وہ کس طرح ان مسائل سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ اور اس میں سے کیا کچھ یہاں لاگو کیا جاسکتا ہے۔ جب تک یہ نہیں ہوگا ایسے واقعات کا سلسلہ تھمے گا نہیں۔ اور یہ کہانی دہرائی جاتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).