بندر والا لطیفہ


ہمارے ایک فزیالوجی (Physiology) کے استاد تھے اور کافی حد تک ہم لڑکوں سے نالاں رہتے تھے۔ خیر ہم لوگوں نے بھی کبھی اس بات کو سنجیدہ نہیں لیا۔ ان کی نظر میں ہم لوگ انتہائی درجے کے نکمے، نالائق اور خبطی تھے اس لیے وقتاً فوقتاً وہ ہمیں اس بات کا احساس دلاتے رہتے تھے۔ یہ الگ بات کہ وہ احساس دلانے میں ہمیشہ ناکام رہے۔ آج ایک بندر والا لطیفہ شدت سے یاد آ رہا ہے جو انہوں نے ہم لوگوں کی نالائقیوں پہ سنایا تھا۔ اس لطیفے کی موجودہ حکمرانوں کی نالائقیوں سے مماثلت محض اتفاق ہے۔

بقول ہمارے پروفیسر صاحب کے ایک جنگل میں جانور بہت زیادہ بیمار رہنے لگے آئے دن کوئی نہ کوئی جانور بیماری کی زد میں آ کر اپنی جان کھو بیٹھتا۔ اس ساری صورتحال میں جنگل کے بادشاہ شیر کے پاس شکایتیں آنا شروع ہو گئیں کہ ہمارے جنگل میں علاج معالجے کا صحیح انتظام نہ ہونے کی وجہ سے یہ صورتحال بنی ہوئی ہے۔ چونکہ شیر کو اپنی رعایا کی فکر تھی اس لیے شیر نے ہنگامی بنیادوں پر ایک اجلاس طلب کیا جس میں جنگل کے سارے سیانے اور بزرگ جانوروں نے شرکت کی۔

اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ ہمیں اپنے کسی سمجھدار جانور کو میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم دلوانی چاہیے۔ سب اس بات پر متفق ہوگئے اب اگلا مرحلہ تھا کہ آخر کون سا جانور اس اہل ہے کہ وہ جنگل کا مسیحا بن سکے۔ کافی غور و فکر کے بعد قرعہ فال بندر کے نام نکلا۔ اور بندر نے بھی اس فیصلے کو سر تسلیم خم کیا۔ یوں بندر ایف سی پی ایس (میڈیکل کی اعلیٰ ڈگری ) کرنے کے لیے امریکہ روانہ ہو گیا۔ اب بندر نے وہاں میڈیکل کی تعلیم کس قدر حاصل کی یہ بندر ہی بہتر جانتا ہے۔

آخر وہ دن آ پہنچا کہ بندر میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے جنگل واپس آ گیا۔ خوب استقبال ہوا۔ اور بندر کو جنگل کے ہر جانور نے باری باری مبارک باد دی۔ ابھی مبارک بادوں کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ اچانک سے لومڑی بیمار پڑ گئی لومڑی کی بیماری کو دیکھتے ہوئے فوراً اسے ڈاکٹر بندر کے پاس لایا گیا۔ اتنے میں سارے جنگل کے جانور بھی جمع ہونا شروع ہو گئے اور جنگل کا بادشاہ شیر بھی پہنچ گیا۔ ڈاکٹر بندر نے تمام جانوروں سے کہا کہ دور ہٹ جائیں سب جانور لومڑی سے دور جا کھڑے ہوئے۔

ڈاکٹر بندر نے لومڑی کا کچھ دیر معائنہ کیا اور اس کے بعد درختوں پہ چھلانگیں لگانا شروع ہو گیا کبھی ایک درخت پر اور کبھی دوسرے پر۔ اور لومڑی بیچاری ویسے ہی تڑپتی رہی۔ یوں ڈاکٹر بندر چھلانگیں لگاتا رہا اور لومڑی تڑپ تڑپ کر مر گئی۔ جنگل کے بادشاہ شیر نے یہ سب ماجرا دیکھ کر فوراً بندر کو طلب کیا کہ یہ تم نے کیا کیا لومڑی تو مر گئی ہے۔ ڈاکٹر بندر نے کہا بادشاہ سلامت میں پج دوڑ تے بڑی کیتی آ پر اودی آئی ہوئی سی (میں نے اپنی طرف سے بہت بھاگ دوڑ کی پر اس کی موت کا وقت آ یا ہوا تھا) ۔

ہنسنا منع ہے۔ برائے مہربانی بتیسی نہ نکالیں (ہماری کلاس فیلو لڑکیوں کی طرح) ۔ یہ لطیفہ معمولی سی تبدیلی کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ لو جی آپ لوگ تو ڈر ہی گئے میں قطعی اس تبدیلی کی بات نہیں کر رہا جس کے ہم سب ڈسے ہوئے ہیں۔ جنگل کی جگہ وطن عزیز پڑھیں۔ بندر، سیاستدان ہیں۔ لومڑی، مظلوم عوام ہے۔ بادشاہ، وہ شیر ہی ہے جی نہیں ن لیگ والا شیر نہیں اصل والے شیر کی بات ہو رہی۔ جانور، سادہ لوح عوام۔ اپنے سارے اعتراضات اپنے پاس رکھیں میں نہ انکل ڈارون کے نظریہ تشخیص (Theory of Evaluation) پر بحث کروں گا اور نہ ہی انسان ایک سوشل اینیمل ہے والے سوشل سائنسز کے دعوے پر۔ مجھے تو فقط اتنی خبر ہے کہ آج جو حالت وطن عزیز کے ایک عام شہری کی ہے وہ شاید کوئی جانور بھی نہ سہ پائے۔ اب شاباش درجہ بالا تبدیلی کے ساتھ لطیفہ پڑھیں۔ سمجھ آئی کہ پہلی وی گئی۔

پریشان حال ہم وطنوں کے لیے سادہ سلیس اردو میں پیش کر رہا ہوں۔ جی جناب! جیسے ہمارے استاد محترم نے یہ لطیفہ ہمارے سر تھوپ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالی تھی بالکل ویسے ہی میں معمولی سی تبدیلی کے ساتھ یہ لطیفہ حکومت وقت کے ہر کارندے کے نام کرتا ہوں۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ وطن عزیز کے حالات کچھ ہلکے پھلکے سے خراب چل رہے تھے۔ ایسے میں وطن عزیز کے کچھ سیانوں نے فیصلہ کیا کہ ایسے حکمران لائے جائیں جو پاکستان کو ایک دم تبدیل کر دیں۔ بالکل جنگل والے بادشاہ کی طرح اجلاس طلب ہوا۔ ایک ذہین سیاستدان نامزد ہوا۔ پھر ہر پاکستانی شہری کو یقین دلایا گیا کہ یہی ہے وہ جو ہمارا مسیحا بن سکتا ہے۔ بھرپور دھرنے ہوئے۔ اور تبدیلی سرکار معرض وجود میں آ گئی بالکل ویسے ہی جیسے بندر امریکہ سے ایف سی پی ایس کر کے آیا تھا۔

جشن کا ایک سماں تھا۔ سادہ لوح عوام خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھی۔ مبارک بادوں کا سلسلہ جاری تھا۔ کہ بالکل لومڑی کی بیماری طرح وطن عزیز کے حالات بگڑنا شروع ہو گئے۔ حکومت وقت کے ہر کارندے نے ڈاکٹر بندر کی طرح بھرپور چھلانگیں لگائیں۔ سادہ لوح عوام امید بھری نظروں سے دیکھتے رہے۔ ایسے میں ایک سال گزر گیا۔ اور عوام کو بتایا گیا کہ ”ہم مصروف تھے“ ۔ اور پھر سے چھلانگیں لگانا شروع کر دیں۔ اور بیچاری عوام کی تکلیف جنگل والی لومڑی کی طرح بڑھتی ہی گئی۔

جب مظلوم عوام کی سانسیں اکھڑنے لگیں تو بتایا گیا صبر کریں ہم ابھی پچھلی حکومتوں کے کیے دھرے پر چھلانگیں لگا رہے ہیں۔ اب بادشاہ سمیت ساری سادہ لوح عوام شش و پنج میں ہے اور حکومتی اراکین مسلسل چھلانگیں لگا رہے ہیں۔ اور مظلوم عوام، لومڑی طرح تڑپ رہی ہے۔ جنہیں سمجھ آ گئی وہ کالم پورا پڑھیں اور جن بیچاروں کو ابھی بھی سمجھ نہیں آئی وہ اگلے الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے کمر باندھ لیں۔

قارئین¡ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے۔ میں معذرت خواہ ہوں ہر شاخ پہ ڈاکٹر بندر بیٹھا ہے۔ غریب عوام لٹ رہی ہے اور نالائق حکومت کے نالائق پولیس افسران وقت کی پابندی کا درس دیتے پھر رہے ہیں۔ عدل بک رہا ہے اور نالائق سیاستدانوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے قاضی کبھی ڈیم اور کبھی اخلاقیات کا درس دیتے پھرتے ہیں۔ اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے اور نالائق ملاں نیرو کی بانسری مانند آنسو بہا رہے ہیں۔ ملک کی معیشت کا ستیاناس ہو رہا ہے اور نالائق وزراء پچھلی حکومتوں، پچھلی حکومتوں کی گردان کر رہے ہیں۔

اؤ بھئی پچھلی حکومتیں ہو گئیں یا غریب عوام کی پھپھی کے پت۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو ہماری معیشت کی کشتی ڈبونے میں پچھلی حکومتوں کا کم ان ”پچھ لگ“ (وہ بچے جو ماں پہلے شوہر میں سے ساتھ لاتی ہے ) کا زیادہ قصور ہے۔ چمن اجڑ رہا ہے اور ہمارے حکمران اپنی نالائقیوں کو چھپانے کے لیے اس قدر کمال مہارت سے چھلانگیں لگا رہے ہیں کہ یقین آ جاتا ہے کہ واقع ہی ”آئی“ ہوئی تھی۔ گویا ہر شاخ پر کوئی نہ کوئی ڈاکٹر بندر بیٹھا ہے۔ لومڑی نے تو سسک سسک کر مرنا ہی ہے۔

ڈاکٹر بندر میرا مطلب ہمارے سیاستدان بھی کمال ہوتے ہیں۔ ایسی مہارت سے علاج کرتے ہیں کہ عوام ہر چیز کا ذمہ دار یا تو خود کو ٹھہراتی ہے یا پھر مشیت ایزدی سمجھ کر صبر بجا لاتی ہے۔ شاید ہمارے ہاں بھی الیکشنز میں جنگل والے بندر کی طرح ”ذہین سیاستدانوں“ کا انتخاب ہوتا ہے جو پھر اگلے پانچ سال اسمبلی میں چھلانگیں لگاتے رہتے ہیں اور عوام بیچاری لومڑی کی طرح سسک سسک کے مر جاتی ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں موجودہ حکمران بھی آٹے، چینی، پٹرول بارے ہمیں کمال مہارت سے یقین دلا چکے ہیں کہ ان کے تمام اقدام عوام دوست ہیں مگر پچھلی حکومتوں کی کرپشن اور مافیا عدم استحکام کا سبب بن رہے ہیں۔ بندہ پوچھے پچھلی حکومتوں کے کرپٹ لوگ اور مافیا تو وہی جنہیں آپ ہاتھ کا چھالا بنائے بیٹھے ہیں۔

قارئین! مجھے یوں لگتا ہے کہ جب انسان کا غم حد سے بڑھ جائے اور وہ بے بس ہو کر رہ جائے تو اس کے اندر کا مسخرہ جاگ جاتا ہے اور یقین جانئیے آج ہر باشعور پاکستانی مسخرہ بن چکا ہے۔ شاید یہی ایک طریقہ ہے ان دکھوں کو سہ پانے کا جو جانور بھی نہ سہ پائیں۔ مرزا غالب کیا خوب کہہ گئے۔

قید حیات و بند، غم اصل میں دونوں ایک ہیں،
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں۔

اور ہم بہروپیوں میں پھنس چکے ہیں جو بھیس بدل کر ہمیں ٹھگتے ہیں۔ ہم لوگ پچھلی کئی دہائیوں سے اس قدر ٹھگے جا چکے ہیں کہ اب ہم میں شکایت کرنے کی بھی ہمت نہیں۔ اس لیے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے ایسے لطیفے سنتے سناتے رہنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).