اے پی سی ترپ کا پتا تھی یا کوئی سپانسر مل گیا ہے؟


کمزور اور ترقی پذیر ممالک میں حکومتیں جب بھی آتی ہیں یا جاتی ہیں یا حکومتوں کے خلاف کوئی بھی موثر تحریک چلتی ہے تو یہ سب کچھ ان کے اپنے بل بوتے پر نہیں ہوتا بلکہ ان سرگرمیوں کا کوئی نہ کوئی سپانسر ضرور ہوتا ہے جس کے تانے بانے مقامی سطح سے شروع ہوکر انٹرنیشنل سطح تک جڑتے ہیں۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ ہر بڑے آدمی کے پیچھے کسی نہ کسی عورت کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے ویسے ہی کمزور اور ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں اور تحریکوں کے پیچھے کسی نہ کسی بڑے کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔

پاکستان بھی اس فہرست میں سرفہرست ہے۔ یہاں کی ہسٹری بتاتی ہے کہ اب تک ہرسول حکومت تقریباً دو ڈھائی برس کے بعد جھولنے لگتی ہے اور کسی نہ کسی بہانے دھڑام سے زمین پر آرہتی ہے۔ اس گناہ پر پردہ ڈالنے کے لیے 2008 ء کے بعد پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومتوں کو پورے پانچ پانچ برس دیے گئے۔ دراصل یہ اس متھ کو محض بدلنے کی کوشش تھی کیونکہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومتیں تو قائم رہیں لیکن ان کے وزرائے اعظم کو دو ڈھائی برس بعد اسی پرانے آسیب نے آدبوچا۔

پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کا ابتدائی دو برس کا سہانا ٹائم تو پورا ہوچکا ہے لیکن وہ اب تک سنہرے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔ انہیں یہ یقین کامل ہے کہ کسی بڑے کا ہاتھ اب بھی ان کے پیچھے ویسے ہی ہے جیسے پہلے تھا۔ ہماری ہسٹری بتاتی ہے کہ ایسا یقین رکھنے والے پہلے بھی کئی آئے اور چلے گئے کیونکہ وہی کسی بڑے کا ہاتھ پیچھے سے اچھل کر گردن تک جاپہنچا اور انہیں پتا بھی نہ چلا۔ گزشتہ دنوں پاکستان بار کونسل کی طرف سے اے پی سی کا انعقاد اور اس کے چند دن بعد پیپلز پارٹی کی میزبانی میں اے پی سی کا کھڑکی توڑ شو دو نکات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

پہلا یہ کہ مخالف سیاسی قوتیں اور ناراض جمہوریت پسند گروپ پی ٹی آئی کا ابتدائی دو برس کا عرصہ مکمل ہونے کے بعد اسی پرانی متھ کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ حکومت کو دھکا دے کر گرانے کی کوشش کرنے لگے ہیں یا دوسرا یہ کہ پی ٹی آئی مخالف سیاسی قوتوں نے کوئی سپانسرشپ حاصل کرلی ہو۔ وکلاء کی اے پی سی کیا بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو سکتی ہے؟ کیونکہ وکلاء برادری اپنے مشترکہ پلیٹ فارم یعنی پاکستان بار کونسل سے کوئی بھی پروگرام جلدبازی میں نہیں کرتی اور نہ ہی اس پلیٹ فارم کو کسی سیاسی شعبدہ بازی کا پلیٹ فارم بنایا جاتا ہے۔

وکلاء برادری کی حالیہ اے پی سی کا ہدف وہ حکومتی اقدامات تھے جن کا جواب اور ان کا حل پی ٹی آئی کی حکومت کے اختیار میں نہیں ہے۔ اس کے نتیجے کے طور پر کچھ عرصے بعد وکلاء برادری اپنی اے پی سی کے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں حکومت کے خلاف خود عملی جدوجہد کا آغاز کر سکتی ہے یا سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس نوعیت کی عملی جدوجہد کا ساتھ دینے میں حق بجانب ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کی میزبانی میں منعقدہ اے پی سی کا واضح ہدف پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔

اس میں آصف علی زرداری اور نواز شریف کی تقاریر اہم معنی لیے ہوئے تھیں۔ اس اے پی سی میں تقریر کرنے والا ہرسیاسی لیڈر بے خوف اور اپنے راستے کے تعین میں واضح موقف لیے ہوئے تھا یعنی پی ٹی آئی کی حکومت سے چھٹکارے کے بعد خودمختار سیاسی ڈھانچہ ہی اصل ہدف ہے۔ خاص طور پر نواز شریف کی تقریر توقعات سے زیادہ بولڈ اور بلاخوف تھی۔ انہوں نے صاف الفاظ میں صاف طور پر صاف اعلان کیا کہ وہ عمران خان کی بجائے عمران خان کو لانے والوں کے خلاف اپنی ہرصلاحیت بروئے کار لائیں گے۔

نواز شریف نے اپنی اس تقریر میں تاک تاک کر نشانے لیے اور بھرپور فائر کیے ۔ ان کے لہجے اور انداز سے لگتا تھا کہ 1999 ء میں ان کا تختہ الٹ جانے کے بعد سول بالادستی قائم کرنے کے لیے انہوں نے جو عہد کیا تھا اس میں کہیں جھول نہیں آیا بلکہ پہلے سے زیادہ پختگی آ گئی ہے۔ اس بے باک تقریر کے دوران نواز شریف جانتے تھے کہ ان کی بیٹی مریم نواز اس وقت پاکستان میں ہیں اور کسی قسم کے حالات سے بھی دوچار ہو سکتی ہیں لیکن اس ویک پوائنٹ کے باوجود بھی نواز شریف کے دوٹوک الفاظ میں کوئی لغزش نہ تھی۔

نواز شریف کے لہجے اور رویئے میں خاص طور پر پیپلز پارٹی اور دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ سول بالادستی کے لیے قدم بقدم ساتھ چلنے کا جو خلوص ظاہر کیا گیا اس کو ٹرانسلیٹ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ نواز شریف پارٹی مفادات اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر سول بالادستی کی جنت کی تعبیر چاہتے ہیں۔ کچھ ہفتوں سے یہ باتیں گردش کررہی ہیں کہ موجودہ پی ٹی آئی سیٹ اپ کو کم از کم دس برس تک برقرار رکھنے کا منصوبہ بنالیا گیا ہے اور اس منصوبے میں اندرون خانہ پیپلز پارٹی بھی اپنے مخصوص مفادات کے لیے منصوبہ سازوں کے ساتھ جابیٹھی ہے۔

اس طرح کی باتوں کی بظاہر کوئی تصدیق نہیں ملتی لیکن سیاست میں افواہیں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں اور بعض اوقات بہت اہم کام خراب بھی کردیتی ہیں۔ نواز شریف کی اپنی تقریر کے دوران کہیں بھی یہ شائبہ نہیں تھا کہ نواز شریف نے اس قسم کی کسی افواہ کو خاطر میں لایا ہو بلکہ انہوں نے سول بالادستی کی کوششوں میں ساتھ دینے کے لیے پیپلز پارٹی کو ہرطرح کی آفر کی جو ایک بڑے بردبار سیاسی لیڈر کی پہچان ہوتی ہے۔ وکلاء کی اے پی سی ہویا پیپلز پارٹی کی اے پی سی، نواز شریف کا بے خوف اور بے باک خطاب ہویا اے پی سی کی قرارداد کے ذریعے پی ٹی آئی کی حکومت کے چل چلاؤ کے شیڈول کا اعلان ہو، ان سب پر سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ سب پی ٹی آئی کی حکومت کے دوبرس مکمل ہونے کے بعد ترپ کا پتا چل رہے ہیں یا انہیں کوئی سپانسر مل گیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).