جسٹس شوکت صدیقی کی سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف اپیل: ’آئین پاکستان میں سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق نہیں‘


سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے عہدے سے ہٹانے سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ پاکستان کے آئین میں سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق نہیں ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی فائینڈنگز کے خلاف درخواست دائر کرنے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے کیوں کہ ملکی آئین میں یہ واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی فائینڈنگز کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف اپیل کی درخواست سے متعلق سماعت کی۔

اپیل کنندہ کے وکیل حامد خان نے عدالت سے استدعا کی کہ اس اپیل میں صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو ہی نہیں بلکہ صدر مملکت کو فریق بنایا گیا ہے جنھوں نے ’حقائق کو مدنظر رکھے بغیر‘ ان کے موکل کو عہدے سے ہٹانے کے بارے میں سمری پر دستخط کر دیے۔

یہ بھی پڑھیے

صدر پاکستان نے جسٹس صدیقی کو عہدے سے ہٹا دیا

آئی ایس آئی پر الزام، جسٹس شوکت صدیقی کو نوٹس

جسٹس شوکت صدیقی کی تینوں درخواستیں مسترد

حامد خان نے استدعا کی کہ اس اپیل میں جن افراد کو فریق بنایا گیا ہے ان کو نوٹسز جاری کیے جائیں جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نوٹسز جاری کرنے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ حکومتی ارکان بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں اور وہ تمام کارروائی کو دیکھ رہے ہیں۔

سپریم کورٹ

جسٹس عمر عطا بندیال نے اپیل کنندہ کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے اُنھیں عدالت کو اس معاملے پر مطمئن کرنا پڑے گا کہ آئین میں سپریم جوڈیشل کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق نہ ہونے کے باوجود اس اپیل کو سماعت کے لیے منظور کرلیا جائے۔

بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ابھی جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس مسترد ہونے کے بارے میں تفصیلی فیصلہ آنے کو ہے جس میں بہت سے معاملات کو دیکھا جائے گا لہذا اس فیصلے کا انتظار کرلیں۔

سماعت کے دوران اپیل کنندہ شوکت عزیز صدیقی بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ لارجر بینچ نے اس اپیل کی سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دی ہے۔

شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے کیوں ہٹایا گیا تھا

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے ایک شکایت پر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے صدر مملکت سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے مذکورہ جج کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی تھی جس پر عمل کرتے ہوئے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اکتوبر سنہ 2018 میں شوکت صدیقی کو برطرف کر دیا تھا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جولائی سنہ 2018 میں راولپنڈی بار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مبینہ طور پر فوج کے خفیہ ادارے عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں اور اپنی مرضی کے بینچ بنوا کر اپنی مرضی کے فیصلے لیتے ہیں۔

اُنھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ فوج کے خفیہ اداروں کی مداخلت کی وجہ سے اُنھیں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو احتساب عدالت سے ملنے والی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کرنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے درخواست کی تھی کہ وہ اس بارے میں ایکشن لیں۔

شوکت عزیز صدیقی نے یہ بھی الزام عائد کیا تھا کہ فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے جو اس وقت ڈپٹی ڈی جی آئی ایس آئی تھے، فیض آباد دھرنے سے متعلق مقدمے میں ان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی۔

مذکورہ جج کے ان بیانات کے روشنی میں وزارت دفاع کی طرف سے ایک شکایت سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کی گئی تھی جس پر سپریم جوڈیشل کونسل نے کارروائی کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب پاتے ہوئے اور صدر مملکت کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp