فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں


ہمارے ہونے میں تو ہمارے اماں ابا کا دخل ہے ہی لیکن ہم جیسے ہیں، اس میں بھی ان کا کافی دخل ہے۔ اب یہی دیکھ لیجیے کہ جب ہم بچے تھے تو ہمیں یہی نہیں بتایا گیا کہ ہماری ذات کیا ہے، ہمیں یہ بھی نہیں بتایا گیا تھا کہ شیعہ سنی کا کیامسئلہ ہے۔ ہمیں کبھی یہ سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی کہ ہم شیعہ ہیں یا سنی۔ جب بھی ایسی کوئی بات ہوئی تو امی اقبال کا یہ شعر سنا دیتی تھیں :

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

اتنا یاد ہے کہ جب بھی محرم میں لاہور میں وزیر خاں کی عقبی گلی میں واقع اپنی پھوپھی کے گھر جانا ہوتا تو سب دس محرم کے جلوس کے انتظار میں ہوتے تھے جو کوئی رات کو بارہ بجے ان کی گلی سے گزرتا تھا۔ اور ہم امی اور پھوپھی سے وعدہ لے کر سوتے تھے کہ جلوس گزرنے کے وقت ہمیں جگا دیا جائے گا۔ جیسے ہی پھوپھی ہمیں جگاتی تھیں، ہم دوڑ کر کھڑکی کی طرف لپکتے تھے اور جب تک جلوس گزر نہیں جاتا تھا، کھڑکی میں لٹکے رہتے تھے۔ اور پھراگلے سال کا انتظار شروع ہو جاتا تھا۔ اسی طرح کونڈوں کی نیاز کا بھی انتظار رہتا تھا۔

ہماری عمر آٹھ نو سال رہی ہو گی۔ جب ہم امی کے ساتھ سواریوں سے بھرے تانگے میں کہیں جا رہے تھے کہ اچانک ایک تیز سی سرگوشی بازار میں پھیل گئی ”شیعہ سنی جھگڑا ہو گیا ہے“ لوگ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ بازار سنسان ہونے لگا۔ کالے برقع میں ایک لحیم شحیم عورت ہمارے تانگے کے پیچھے بھاگنے لگی۔ ”مجھے بھی بٹھا لو۔ مجھے بھی بٹھا لو“ ہم سب کا ڈر کے مارے برا حال تھا اور تانگے والا ہم سے زیادہ خوفزدہ تھا۔ اس نے رفتار تیز کر کے وہاں سے نکل جانا ہی بہتر سمجھا۔ میں اس عورت کو کبھی نہیں بھول پائی۔ آج بھی ندامت ہوتی ہے کہ اس کی مدد نہیں کر پائے۔ اس روز ہمیں پتہ چلا کہ شیعہ سنی الگ الگ قسم کے مسلمان ہیں اور محرم کے مہینے میں ان کا جھگڑا بھی ہوتا ہے۔

نویں یا دسویں جماعت میں تھے کہ لاہور میں کرشن نگر میں ایک دو ماہ کے لئے ایک محلہ اسکول میں پڑھنے کا موقع ملا۔ کلاس کی ساری لڑکیاں ہمارے لئے اجنبی تھیں۔ ایک دم تو کسی سے دوستی نہیں ہو سکتی مگر ہم دیکھتے تھے کہ وقفے کے دوران ساری لڑکیاں ایک لڑکی کو گھیر کر کسی قسم کی مذہبی بحث شروع کر دیتی تھیں اور وہ لڑکی بڑے اعتماد سے دلائل کے ساتھ ان کی باتوں کا جواب دیتی تھی۔ ہمیں بالکل اچھا نہیں لگا کہ کلاس کی ساری لڑکیاں اس ایک لڑکی کا پیچھا لے لیتی ہیں، چنانچہ ہم نے اس لڑکی سے دوستی کر لی۔ وہ لڑکی شیعہ تھی۔ کچھ دنوں بعد ہی امی کی بھاگ دوڑ اور خوشنود چچی کی مہربانی سے میکلیگن اسکول میں ہماراداخلہ ہو گیا اور اکلوتی دوست کا ساتھ چھٹ گیا۔

جب لائلپور میں تھے تو کئی احمدیوں سے دوستی تھی۔ ان سے ربوہ کا ذکر سنتے رہتے تھے۔ نصابی کتب میں سر ظفر اللہ کے بارے میں پڑھا تو احمدی اور اچھے لگنے لگے۔ اسی طرح آغا خان کے بارے میں پڑھا تو آغا خانی اچھے لگنے لگے۔ آخر وہ مسلم لیگ اور ہمارے قائد اعظم کی مدد کرنے والوں میں سے تھے۔ قائد اعظم محمدعلی جناح بھی تو اسمعٰیلی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور بعد میں خوجہ اثناعشری شیعہ ہو گئے تھے۔

1962 ء میں ہمارا گھرانہ پھر کراچی منتقل ہوا تو وہاں بڑی تعداد میں کرسچن گھرانے دیکھنے کو ملے۔ اسکول میں جن دو چار لڑکیوں سے دوستی ہوئی۔ ان میں ہماری سب سے گہری دوست ایک کرسچن لڑکی ثریا ورون تھی۔ بوہری بازار اور پی سی ایچ سوسائٹی میں نوجوان کرسچن لڑکیاں فراک اور اسکرٹس پہن کر گھومتی تھیں اور انہیں کسی قسم کی ہراسانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ تدریس اور صحت کے شعبے کے علاوہ دفتروں میں بڑی تعداد میں کرسچن لڑکیاں کام کرتی تھیں۔

1970ء میں ہمارے ایم اے کرنے تک کراچی میں نائٹ کلبز اور بار ہوتے تھے۔ انگریزی کے مشہور اخبار کا دوسرا صفحہ نائٹ کلبز کے اشتہارات سے بھرا ہوتا تھا۔ مصر کے بادشاہ شاہ فاروق کی پسندیدہ بیلی ڈانسر پرنسس امینہ کراچی کے ایک نائٹ کلب میں پرفارم کرنے آیا کرتی تھی اور اخبارات میں اس کے انٹرویو شائع ہوتے تھے۔ اس دوران ہمارے والد ملازمت کے سلسلے میں شکارپور منتقل ہو چکے تھے اور وہاں کئی ہندو بزنس مینوں سے ان کی گہری دوستی ہو گئی تھی۔ اندرون سندھ ہندو بڑی تعداد میں آباد تھے۔

اور پھر ضیا ء الحق کی آمریت کی تاریک رات گیارہ سال کے لئے پاکستان پر مسلط ہو گئی لیکن ٹھہریے، اس سے پہلے ہی ہمارے عہد کے نوجوانوں کے لئے کرشمہ ساز حیثیت رکھنے والے بھٹو صاحب احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے چکے تھے کیونکہ ان کے مذہبی مشیر مولانا کوثر نیازی نے انہیں سمجھایا تھا کہ یوں وہ مذہبی حلقوں میں بھی مقبول ہو جائیں گے لیکن پھر ان ہی حلقوں نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کے نو ستاروں یا پاکستان نیشنل الائنس، پی این اے کے نام سے مہم چلائی اور پھر وہ نظام مصطفےٰ کے نفاذ کی مہم قرار پائی۔ اس مہم کے دباؤ کو کم کرنے کے لئے بھٹو نے شراب پر پابندی لگا دی اور جمعہ کو ہفتہ وار تعطیل قرار دے دیا۔ اپوزیشن اور بھٹو میں مذاکرات کامیاب ہو چلے تھے کہ اچانک ضیا الحق نے ملک میں مارشل لا لگا دیا اور نوے دن کے اندر نئے انتخابات کرانے کا وعدہ کیا۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں وہ نوے دن گیارہ سال پر محیط ہو گئے۔

سب سے پہلے صحافیوں کی شامت آئی، پھر عورتیں امتیازی قوانین کا شکار ہوئیں۔ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ تفریق روا رکھی جانے لگی۔ احمدیوں پر عرصہ حیات تنگ ہونے لگا۔ ہم نے امریکہ کی خاطر افغانستان میں پراکسی وار لڑی اور اسے جہاد کا نام دیا۔ اس جنگ نے پاکستانی معاشرے میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر متعارف کرایا۔ بتدریج اسلام کی ایک سخت گیر شکل نمودار ہونے لگی۔ اسلام کے عفو درگزر اور رواداری کے پیغام کو بھلا دیا گیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ہم نے دیکھا کہ پاکستانی کرسچن ملک چھوڑ کے جانے لگے اور پیچھے وہی رہ گئے جن کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ مغربی ممالک کا رخ کر سکتے یا ان کی کوئی اور مجبوری تھی۔ مجھے ضیا الحق کے دور میں بی بی سی پر دکھائی جانے والی ایک ڈاکیومینٹری نہیں بھولتی جس میں اندرون سندھ میں کسی جگہ ایک ہندو آہ و فغاں کرتے ہوئے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے بارے میں بتا رہا تھا کہ کیسے ہندوؤں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

ضیا الحق تو رخصت ہو گیا لیکن مذہبی انتہا پسندی کا جو پودا اس نے لگایا تھا۔ وہ وقت گزرنے کے ساتھ تناور پیڑ بن گیا۔ فرقہ پرستی عروج پر پہنچ گئی۔ متشدد اور مسلح تنظیمیں وجود میں آ گئیں۔ شیعہ ڈاکٹروں کو چن چن کر قتل کیا جانے لگا۔ ویسے تو کسی کو بھی قتل کرنا غیر قانونی فعل ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں اکثریت نا خواندہ اور غریب ہے، وہاں ایک مسیحا کا قتل کیا معنی رکھتا ہے، یہ ظالم کیا جانیں۔ یہاں تو کسی کو بھی کافر قرار دے کر مار ڈالنے کا چلن عام ہو چلا ہے۔

ایک اور ہتھیار جو ان کے ہاتھ آ چکا ہے، وہ کسی پر بھی توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگا کے اور سادہ لوح عوام کو مشتعل کر کے مروا دینا ہے۔ اسی لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ جھوٹا الزام لگانے والے کو بھی سخت سزا ملنی چاہیے۔ حال ہی میں ایک فرقہ کے کچھ لوگوں کی جانب سے دوسرے فرقے کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے حوالے سے ایک بار پھر میڈیا پر اشتعال انگیزباتیں دکھائی جا رہی ہیں۔ ہماری صرف یہی گزارش ہے کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کریں۔ اگر کوئی HATE SPEECH یا توہین کا مرتکب ہوا ہے تو عدالتوں کو اس کے بارے میں فیصلہ کرنے دیں۔ ہم سب پاکستان کے شہری ہیں اور آئین کے تحت ہم سب کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری ریاست پر عاید ہوتی ہے۔ مہذب معاشروں میں انصاف سڑکوں پر نہیں، عدالتوں میں ہوتا ہے۔ کوئی معاشرہ ہجومی انصاف (MOB Justice) کی اجازت نہیں دیتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).