قبریں دیکھنے والے


باس نے ہمیں دفتر بلایا، بٹھایا، چائے منگوائی اور بولے ”ینگ مین اب آپ کو ہفتہ دس دن تو ہو گئے ہیں اس آفس میں، شکار کرنا سیکھو، یہ کیا ابھی سے فائلز میں ڈوب گئے ہو۔ ہوتا رہے گا سرکاری کام۔ چلو آؤ باہر چلتے ہیں آج پہلا پریکٹیکل میں کرواتا ہوں آپ کو“۔

یہ ہمارا باس سے پہلا تعارف اور لاہور میں پوسٹنگ کا پہلا تجربہ تھا۔ ہم گھر سے اسسٹنٹ کمشنر بننے نکلے تھے، خیر سے مقابلے کا امتحان دیا لیکن میرٹ میں ذرا نیچے رہے اور قسمت ہمیں ایک اور ڈیپارٹمنٹ میں لے آئی۔ پہلی پوسٹنگ راجن پور میں ہوئی، راجن پور جو آج بھی محرومی کا استعارہ ہے، دس بارہ سال پہلے تو بقول شاعر

کبھی لوٹ آیا میں دشت سے تو یہ شہر بھی
اسی گرد میں تھا اٹا ہوا میرے سامنے

عملی زندگی کا پہلا قدم، چھوٹا سا شہر نہ کوئی ایکٹیوٹی نا شہر نا پرسان میں اس اجنبی کا کوئی شناسا، لے دے کر فون پہ رانا صاحب کو حال دل سنا لیتے جسے باس پنڈی سے ٹرانسفر کروا کر لاہور لے آئے تھے، رانا صاحب کے قدم جمے تو ہمارا حال باس کو کہہ سنایا اور باس نے ہمارے ہاتھ میں شہر بدری کا پروانہ تھما دیا کہ آئیے صاحب لاہور کی روشنیاں دیکھئے۔ سروس کا پہلا تبادلہ۔ کچھ عجیب ہی احساسات تھے، چند کپڑے ساتھ لئے اور رانا صاحب کی ذمہ داری بن گئے۔

دفتر پہنچے تو ہر سو باس کے ڈنکے بج رہے تھے، ایسے لگا جیسے باس سارے لاہور کی محبوب شخصیت ہیں، قابل تو تھے ہی، دوست نواز اور بہادر بھی تھے، خیال رکھنے والے ایسے کہ اپنے جونیئرز پہ وہ محبتیں نچھاور کریں کہ سنبھالی نہ جائیں۔ بس ایک بات پہ سب کا اتفاق تھا کہ باس نے مال بڑا بنایا ہوا، کیا بینک بیلنس، کیا پلاٹ، اور کیا گاڑیاں، ذرا پرانے ہوئے تو معلوم ہوا کہ باس نے کبھی منافقت سے کام نہیں لیا، کماتے ہیں تو ڈنکے کی چوٹ پہ اور کما کر لٹاتے بھی ہیں۔ کبھی ایمانداری کا لبادہ نہیں اوڑھا۔

ٹریننگ تو وہ ہماری بھی کرتے رہے پر ہم ہی نالائق شاگرد باس کے معیار پہ کبھی پورا نہ اتر پائے۔ ان کی دولت البتہ نا معلوم رہی کہ اتنی دولت کا کیا کرتے ہیں۔ سنا تھا کہ اداروں کی باز پرس سے بچنے کے لئے باس نے اپنی ساری جائیداد اپنے اس دوست کے نام کر رکھی ہے جو اکثر ایک بڑی گاڑی پر باس کو ملنے آیا کرتے تھے۔ واللہ اعلم ہم نے تو اپنے خواب کی تعبیر پانے کو پھر سے امتحان دیا اور اسسٹنٹ کمشنر بن گئے، سو باس کی محبتوں کے زیر بار باس کو الوداع کہا اور ٹریننگ کورس کے لئے اکیڈمی آ گئے۔

ٹریننگ کے مراحل سے گزر ہی رہے تھے کہ یہ قیامت خیز خبر غم کا پہاڑ بن کر ٹوٹی ”باس کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تھا“ کتنی ہی دیر سن ہو کر بیٹھے رہے اور کتنے ہی دن سوگ کی کیفیت میں گزرے، چند دن بعد رانا صاحب کو لے کر باس کی قبر پر حاضری دی، باس ایک کچی قبر میں ابدی نیند سو رہے تھے۔ معلوم نہیں باس کی بے پایاں دولت کا کیا بنا، کوئی چند مہینے اور گزرے تو ایک کولیگ کی زبانی معلوم ہوا کہ باس کے چہیتے دوست اور ان کے مبینہ فرنٹ مین ایک کار حادثے میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔

رہے نام اللہ کا۔

شاہ صاحب خاصے نفیس اور اچھے آدمی تھے، شہر کے سب سے امیر آدمی، کپڑے کے بہت بڑے تاجر۔ ملیں ان کے نام کا کپڑا بنتی تھیں، لکشمی دیوی ایسی مہربان کہ خوش قسمت کسٹمرز کو ہی شاہ صاحب کی دکان میں سیٹ ملتی۔ پر شاہ صاحب سائیکل لے کر گھر سے نکلتے لیکن سائیکل پر سوار ہوتے شاہ صاحب کو شاذ ہی کبھی دیکھا گیا، بائیں ہاتھ میں سائیکل پکڑے گھر سے دکان اور دکان سے گھر۔ ایک دام کا بورڈ سر کے اوپر آویزاں ہوا اور پھر اس اصول کی اتنی پابندی کہ دس بیس ہزار کے اوپر دس روپے کا بل بنے تو فرماتے دس روپے پہلے باقی کے دس ہزار بعد میں۔

بچپن سے ہماری یاد میں شامل شاہ جی کو ہم نے ہمیشہ تجوری سنبھالے نوٹ گنتے پایا، زندگی کے سارے رنگ ساری خوشبوئیں شاہ جی نے نوٹوں کے رنگ و خوشبو پہ نثار کر دی تھیں۔ لگتا تھا شاہ جی کی زندگی کا ایک ہی مقصد و محور ہے بس نوٹ کمانا اور کمانا بھی کہاں نوٹ گننا۔ ایک دن معلوم ہوا شاہ جی اپنی تجوری کے سارے نوٹ چھوڑ کر کچی قبر کی سوندھی سوندھی خوشبو سے مسحور ہو رہے ہیں۔

احمد صاحب ہمارے بچپن کے ساتھی، اینٹوں کی وکٹیں بنا کر کرکٹ ہم نے ساتھ ہی کھیلی، وہ تب بھی ”روندی“ مارا کرتے تھے۔ ذرا بڑے ہوئے تو ہم پڑھنے لکھنے والے ہو گئے اور وہ غریب آدمی چھوٹے موٹے کام پر لگ گئے۔ محنتی آدمی تھے کام بدلتے بدلتے تعمیراتی سامان کے بزنس میں ترقی کرنے لگے، کام چلا تو گھر گاڑی، دکانیں اور پلاٹ لیتے رہے، شادی کی لیکن بدقسمتی سے اولاد کی نعمت سے محروم رہے، افسوسناک بات یہ کہ بزنس میں بے ایمانی کرتے اور پھر اپنے اس کارنامے کو فخر سے بیان کرتے کہ کس کسٹمر کو کیسے بے وقوف بنا کر کتنا منافع کمایا۔ ان کے اثاثے اب بھی بڑھ رہے ہیں لیکن ہماری پریشانی یہ ہے کہ کچی مٹی کا رزق بننے والے لوگ اتنی ساری دولت کا آخر کیا کریں گے، ہماری الجھن دیکھ کر اندر سے کہیں آواز آئی، آسمان سے اترا سچا جواب
”غفلت میں رکھا تم کو بہتات کی حرص نے، حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).