آج کی ماں کہاں کھڑی ہے؟


ذیل کی سطور میں پیش کی جانے والی سوچ یا رائے محض میرا ذاتی تجربہ یا میرے ذہن کی اختراع نہیں ہے بلکہ کچھ گھرانوں کے مشترکہ حالات کو سامنے رکھ کر مزید گھرانوں کے حالات کا جائزہ لیا گیا جس میں مشترکہ طور پر یہ بات سامنے آئی کہ موجودہ دور میں بچے ماں کی نسبت باپ کے ساتھ زیادہ مانوس ہوتے ہیں، بچے ماؤں سے ڈرتے ہیں جبکہ باپ کے ساتھ دوستانہ انداز میں وقت گزارکر خوشی محسوس کرتے ہیں، اگر بچے کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ فرصت کے لمحات ماں یا باپ میں سے کس کے ساتھ گزارنا چاہتا ہے تو اس کا جواب ہو گا باپ کے ساتھ۔

اکثر بچے اپنی کسی خواہش کا اظہار ماں کے سامنے کرنے کی بجائے باپ کے سامنے کرنا پسند کرتے ہیں کیونکہ انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ باپ ان کی خواہش پوری کردے گا۔ حالانکہ ماضی قریب میں یعنی جب ہم خود بچے تھے تو والد کا نام سنتے ہی خوف محسوس ہونے لگتا تھا ہم باپ کی بجائے ماں سے زیادہ مانوس تھے، ماں کے سامنے ہر طرح کی خواہش کا کھل کر اظہار کر دیتے تھے جن میں سے اکثر خواہشیں پوری بھی ہو جایا کرتی تھیں۔ آج کی ماؤں کے رویئے میں بچوں کے معاملے میں تبدیلی کیوں آئی جبکہ ماؤں کے اس رویئے کے بے پناہ نقصانات بھی ہیں کیونکہ ماں کو جب ہم پہلی درسگاہ کا نام دیتے ہیں تو پھر ضروری ہے کہ ماؤں کی طرف سے صبر تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا جائے تاکہ بچوں کی تخلیقی صلاحتیں پروان چڑھ سکیں۔

مائیں جب بچوں کے لئے ڈر و خوف کی علامت بنی رہیں گے تو بچے ذہنی طور پر کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی اعتبار سے بھی پسماندہ رہیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب روشن مستقبل کے لئے ماؤں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے تو چند برسوں میں ہی ماؤں کے رویئے میں تبدیلی کیسے آئی؟ اس سوال کا جواب اگرچہ چند سطور میں دینا ممکن نہیں ہے تاہم کچھ امور کا جائزہ لینے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بچوں کے ساتھ ماؤں کے تلخ رویئے کی وجوہات کیا ہیں؟

دور جدید کی ماؤں اور بچوں کے درمیان واضح دیوار حائل ہو چکی ہے اور جب تک اس دیوار کو توڑا نہیں جاتا یا اس دیوار سے نمایاں روشن دان نہیں نکالے جاتے ماؤں کے رویئے تلخ ہی رہیں گے۔

آج کی ماں انٹرنیٹ میں مصروف ہو چکی ہے بالخصوص وہ مائیں جن کی تعلیم بہت کم ہے جب ایسی مائیں انٹرنیٹ کا رخ کرتی ہیں تو انٹرنیٹ کی رنگ برنگی وسیع دنیا ان کا آگے بڑھ کر استقبال کرتی ہے اکثر خواتین جو اس سے پہلے ٹی وی یا کیبل پر ڈرامہ یا فلم دیکھ رہی ہوتی ہیں جب انٹرنیٹ پر ناختم ہونے والے سلسلے دیکھتی ہیں تو وہ بھول جاتی ہیں کہ اس کے علاوہ بھی ان کی کوئی ذمہ داری ہے۔ سمارٹ فون اور مواصلاتی کمپنیز نے انٹرنیٹ پیکیجز کا معاملہ آسان کر دیا ہے، ہمارے مشاہدے میں ایسے گھرانے بھی آئے ہیں کہ جنہیں ضروریات زندگی کے حصول میں متعدد پریشانیوں کا سامنا رہتا ہے لیکن انٹرنیٹ میں کبھی انقطاع دیکھنے کو نہیں آیا۔

اس طرح جو ماں انٹرنیٹ پر گھنٹوں گزار چکی ہوتی ہے وہ بچوں کے لئے کیسے وقت نکال پائے گی بلکہ الٹا اس کا نقصان یہ ہو رہا ہے جب ماں اپنی پسند کا پروگرام دیکھ رہی ہوتی ہے تو اس وقت بچے اگر کوئی ضروری کام سے بھی ماں سے رجوع کریں تو ماں کا پارہ ہائی ہوجاتا ہے اور بچوں کو خوامخواہ جھڑک پڑ جاتی ہے، ایک زمانہ تھا مائیں بچوں کی خوراک کے حوالے سے فکر مند ہوتی تھیں آج صورتحال مختلف ہے اور ماؤں کی بجائے باپ فکر مند ہوتے ہیں۔

اس رویئے کے بچوں کی زندگی پر نہایت خطرناک اثرات مرتب ہورہے ہیں اور بچے ماں کے پاس جانے کی بجائے یا تو اپنے آس پاس کے بچوں کے ساتھ کھیل کر وقت گزار دیتے ہیں یا اپنے باپ کے آنے کا انتظار کرتے ہیں۔ ماؤں کو معلوم ہونا چاہیے کہ بچے عقل اور ذہن کے اعتبار سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ بچوں کے طرح ہی پیش آیا جائے جو والدین اس راز کو جان لیتے ہیں ان کے لئے بچوں کی تربیت آسان ہوجاتی ہیں اور جو والدین اس راز سے عاری رہتے ہیں ان کے بچے حالات اور سماج کے رحم وکرم پر پروان چڑھتے ہیں۔

ملازمت پیشہ ماؤں کے الگ سے مسائل ہیں، وہ بچوں کو زیادہ وقت نہیں دے پاتی ہیں، ان کے بچے ڈے کیئر یا کسی رشتہ دار خاتون کے حوالے ہوتے ہیں، بچے کی زندگہ پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ الگ موضوع ہے اس پر پھر کسی دن لکھنے کی کوشش کروں گا۔ سطور بالا میں بچوں اور ماں کے درمیان دوری کی جو وجوہات بیان کی گئی ہیں اس کے علاوہ بھی متعدد وجوہات کو بیان کیا جا سکتا ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ ہمارے دور کی مائیں آخر جلاد کیوں بن گئی ہیں بچوں کے لئے ڈر وخوف کی علامت کیوں بن گئی ہیں وہ کیا تدابیر ہیں کہ جنہیں اپنایا جائے اور بچے ماں کی گود میں آکر راحت و سکون محسوس کریں یہ سوچنا ہم سب کی ذمہ داری ہے کیونکہ یہ محض میرا یا آپ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ گھر گھر کا مسئلہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).