کیا گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے؟


جس علاقے کو آج کل ”گلگت بلتستان“ کہا جاتا ہے وہ بالائی دریائے سندھ اور دریائے گلگت کی وادیوں پر مشتمل ایک وسیع خطہ ہے۔ ان وادیوں میں سے کچھ میں قدیم زمانے سے مقامی ریاستیں قائم رہی ہیں جب کہ کچھ کی حیثیت آزاد قبائل کی رہی ہیں۔ آزادی کے وقت ان علاقوں پر مہاراجہ کشمیر کا قبضہ تھا اس لیے ایسا تأثر پایا جاتا ہے کہ یہ علاقے ریاست کشمیر کا حصہ تھے، اور اس لیے ان کا مستقبل کشمیر کے مستقبل کے ساتھ وابستہ ہونا چاہیے۔ یہ تأثر درست نہیں، بلکہ اصل صورت حال یوں ہے :

جغرافیائی طور پر یہ علاقے کشمیر سے بالکل الگ ہیں اور ان کے درمیاں بلند و بالا پہاڑی سلسلے ہیں۔ ان پہاڑوں کے بلند درے سال کا بیشتر حصے میں بند رہتے ہیں۔ نسلی، ثقافتی اور لسانی طور پر یہ لوگ جنوب کے علاقوں کے لوگوں سے بالکل مختلف ہیں اور ماضی میں ان کا جنوب سے کوئی رابطہ نہیں رہا۔ جموں کے راجہ گلاب سنگھ نے 1840 میں بلتستان پر غاصبانہ قبضہ کیا اور گلگت پر حملے کیے۔ گلگت کی وادی میں گلاب سنگھ کو زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور اگلے بیس سالوں تک یسین کے حکمران غازی گوہر امان کے ہاتھوں پہلے سکھوں اور پھر ڈوگروں کو بار بار ذلت آمیز شکستوں کا سامنا ہوا۔

مہاراجہ نے بڑی بڑی فوجیں گلگت کو فتح کرنے کے لیے روانہ کیں لیکن ان میں سے اکثر گوہر امان کے ہاتھوں لقمہ اجل بن گئیں۔ 1860 کے لگ بھگ گوہر امان کی وفات کے بعد مہاراجہ کی فوجیں دریائے سندھ پار کرکے گلگت پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہوسکیں۔ لیکن اس کے باوجود مقامی لوگوں کی مزاحمت ختم نہیں ہوئی۔ یسین پر تو ڈوگرہ فوجیں قابض ہوئیں اور یہاں انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے، لیکن ہنزہ نگر کی ریاستوں نے 1890 تک انہیں اپنی وادی میں داخل نہیں ہونے دیا۔

بالآخر انگریزوں نے اس علاقے کی دفاعی اہمیت کے پیش نظر مداخلت کی اور سارے علاقے کا کنٹرول حاصل کیا۔ انگریزوں کو بھی ہنزہ نگر میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسے طرح گلگت بلتستان سے آگے چترال میں مداخلت بھی ان کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہوا۔ تاہم 1895 تک انگریزوں نے اس سارے پہاڑی خطے پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔ انگریز اگرچہ مہاراجہ کشمیر کو گلگت بلتستان کا حکمران تسلیم کرتے تھے لیکن علاقے کے نظم و نسق میں اسے برائے نام دخل تھا۔ اصل اختیار انگریز اپنے ہاتھ میں ہی رکھتے تھے۔ اس سارے عرصے میں مقامی لوگوں نے کشمیر کے تسلط کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا اور انگریز کی زبردست طاقت ہی انہیں خاموش رکھ سکی۔

1935 میں انگریزوں نے یہ لیز کے نام سے اس علاقے کا نظم و نسق مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لے لیا، لیکن 1947 میں آزادی سے پہلے اسے واپس مہاراجہ کے حوالے کر دیا۔ اکتوبر 1947 میں یہاں کی مقامی ملیشیا ”گلگت سکاؤٹس“ نے مقامی عوام کے ساتھ مل کر مہاراجہ کے خلاف بغاوت کردی اور کشمیری گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کرکے گلگت بلتستان کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے ایک انقلابی کونسل قائم کی جس نے شاہ رئیس خان کو آزاد مملکت کا صدر مقرر کیا۔ کونسل نے صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ کے ذریعے حکومت پاکستان کو دعوت دی کی اپنا نمائندہ یہاں بھیجے۔ اس کے جواب میں حکومت پاکستان نے سردار محمد عالم خان کو کمشنر کے طور پر بھیجا اور انقلابی حکومت نے اقتدار ان کے حوالے کر دیا۔

یہ تو گلگت کا حال تھا۔ سکردو میں بدستور مہاراجہ کا قبضہ تھا۔ اس کو آزاد کرنے کے لیے جنگ کرنی پڑی۔ اس جنگ میں قریبی ریاست چترال کی افواج بھی شریک ہوئیں اور کئی مہینوں کی جنگ کے بعد سکردو اور ملحقہ وادیوں کو آزاد کرا لیا گیا۔ اس کے علاوہ سرینگر گلگت روڈ کے ساتھ مجاہدین نے پیش قدمی کی اور کشمیر کی عین پشت پر کشن گنگا وادی تک وسیع علاقہ آزاد کرا لیا۔

جس وقت گلگت بلتستان کے لوگوں نے مہاراجہ سے آزادی کا اعلان کیا اس وقت باقی کشمیر کا مسئلہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ مہاراجہ نے دونوں مملکتوں کے ساتھ سٹیٹس Cuo کا معاہدہ کر رکھا تھا۔ کشمیر کا مسئلہ تو اس وقت پیدا ہوا جب مہاراجہ نے یک طرفہ طور پر انڈیا سے الحاق کا اعلان کر دیا اور انڈین فوجیں کشمیر میں داخل ہوئیں۔ اس اقدام کے نتیجے میں کشمیر میں آزادی کی جد و جہد شروع ہوئی اور پاکستان سے ان کی مدد کے لیے مجاہدین جانے لگے۔

یہ معاملہ دونوں ملکوں کے درمیاں جنگ کی شکل اختیار کر گیا جس کا اختتام اقوام متحدہ کی مداخلت پر ہوا۔ اس دوران آزاد کرائے گئے علاقے کو آزاد کشمیر کے نام سے انتظامی علاقہ بنایا گیا لیکن گلگت بلتستان اس کا حصہ کبھی نہیں رہا۔ یعنی ریاست پاکستان کی سرکاری پالیسی کی رو سے بھی گلگت بلتستان کا کشمیر سے کوئی تعلق نہیں۔

چاہیے تو یہ تھا کہ شروع ہی میں گلگت بلتستان کے خطے کو ایک مکمل صوبے کے طور پر وفاق پاکستان کا باقاعدہ حصہ بنا لیا جاتا اور یہاں کے لوگوں کو مملکت کے باقاعدہ شہری تسلیم کیا جاتا۔ لیکن فیصلہ سازی کی کمزوریوں کی وجہ سے یہ معاملہ زیر التوا رہا۔ موجودہ وقت میں جب یہ معاملہ اٹھایا گیا ہے تو اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچا کر چھوڑا جائے۔ نہ صرف یہ کہ اس علاقے کو وفاق کا پانچواں صوبہ بنا کر اسے ہر سطح پر دوسرے صوبوں کے برابر لا یا جائے، بلکہ یہاں کے لوگوں کی قربانیوں کا بھی اعتراف کیا جائے جو انہوں نے آزادی کے حصول اور اسے برقرار رکھنے کے لیے دی ہیں۔

ممتاز حسین، چترال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ممتاز حسین، چترال

ممتاز حسین پاکستان کی علاقائی ثقافتوں اور زبانوں پر لکھتے ہیں ۔ پاکستان کے شمالی خطے کی تاریخ، ثقافت اور زبانوں پر ایک ویب سائٹ کا اہتمام کیے ہوئے ہے جس کا نام makraka.com ہے۔

mumtaz-hussain has 11 posts and counting.See all posts by mumtaz-hussain