’رفال بنانے والی کمپنی نے انڈیا سے اپنے وعدے پورے نہیں کیے‘


انڈیا کے آڈیٹر اینڈ کمپٹرولر جنرل (سی اے جی) کا کہنا ہے کہ فائٹر جیٹ رفال بنانے والی کمپنی نے انڈیا کے ساتھ دفاعی سودے کے تحت جن ’آفسیٹ‘ ذمہ داریوں کو نبھانے کی بات کی تھی، انھیں پورا نہیں کیا گیا اور نہ ہی اب تک انڈیا کو کسی اعلیٰ سطحی تکنیک کی پیشکش کی گئی ہے۔

سی اے جی کی طرف سے بدھ کو پارلیمان میں اس بارے میں ایک رپورٹ پیش کی گئی جس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ فرانس کی دفاعی کمپنی نے اب تک اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا ہے۔

سی اے جی نے اپنے بیان میں کہا ’رفال بیچنے والی غیر ملکی کمپنیوں نے مرکزی سپلائی کانٹریکٹ حاصل کرنے کے لیے کئی آفسیٹ وعدے تو کیے لیکن بعد میں وہ انھیں پورا کرنے کے بارے میں سنجیدہ نظر نہیں آئے۔‘

سی اے جی نے کہا کہ اسے غیر ملکی کمپنیوں کی طرف سے انڈین صنعتوں کو ٹیکنالوجی منتقل کرنے کا ایک بھی کیس نہیں ملا ہے۔

کانگریس نے اس پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے مودی حکومت پر ایک بار پھر تنقید کی ہے۔

کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجیوالا نے کہا کہ ’میک ان انڈیا‘ نہیں بلکہ یہ تو ’میک ان فرانس‘ ہو گیا۔

سرجیوالا نے ٹویٹ کیا ’سب سے بڑے دفاعی سودے کی کرونالوجی (یعنی کب کیا ہوا) کا سامنے آنا جاری ہے۔ سی اے جی کی نئی رپورٹ میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ رفال کے آفسیٹ میں ’ٹیکنالوجی ٹرانسفر‘ یعنی تکنیکی صلاحیت کی منتقلی کی بات کو طاق پر رکھ دیا گیا ہے۔ پہلے ’میک ان انڈیا‘، ’میک ان فرانس‘ ہو گیا۔ اب ’ٹیک ٹرانسفر‘ کو کنارے کر دیا گیا ہے۔ اور مودی جی کہیں گے کہ سب چنگا سی!‘

سابق وزیر خزانہ اور کانگریس رہنما پی چیدمبرم نے بھی حکومت پر تنقید کی۔ انھوں نے ٹویٹ کیا ’سی اے جی نے پایا ہے کہ رفال ہوائی جہاز بیچنے والوں نے ابھی تک آفسیٹ سمجھوتے کے تحت ٹیکنیکل مدد دینے کی شرط کو پورا نہیں کیا۔ آفسیٹ سے متعلق شرائط 23 ستمبر 2020 کو مکمل ہو جانی چاہیے تھیں۔ کیا حکومت بتائے گی کہ یہ پوری ہوئیں یا نہیں؟ سی اے جی کی رپورٹ کیا گڑبڑ کا پٹارا کھول رہی ہے؟‘

رفال سودے پر تبصرہ

خاص طور پر رفال ڈیل کے بارے میں سی اے جی نے اپنی رپورٹ میں کہا ’مثال کے طور پر 36 میڈیم ملٹی رول کامبیٹ ائیرکرافٹ (ایم ایم آر سی اے) سے متعلق آفسیٹ معاہدے میں رفال بنانے والی کمپنی دساؤ ایوی ایشن اور ایم بی ڈی اے نے ابتدا (ستمبر 2015) میں یہ منصوبہ پیش کیا تھا کہ وہ تیس فیصد آفسیٹ وعدوں کو پورا کرنے کے لیے ڈی آر سی او یعنی انڈیا کے ’ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائیزیشن‘ کو اپنی اعلی سطحی تکنیک دیں گے لیکن اب تک ایسا نہیں ہوا۔‘

سی اے جی نے اپنے تازہ بیان میں اس دعوے کو شامل کیا ہے جبکہ ڈی آر ڈی او ہلکے جنگی جہازوں کے لیے ملک میں تیار کردہ انجن (کاویری) بنانے کے لیے اس تکنیک کی مدد لینا چاہتا تھا مگر غیر ملکی کمپنیوں نے آج تک تکنیک کی منتقلی کی تصدیق نہیں کی۔‘

مودی

فرانس کی ڈیفنس کمپنی دساؤ ایوی ایشن ہی رفال جیٹ بنانے والی کمپنی ہے جبکہ ایم بی ڈی اے نے رفال جہازوں کے لیے انڈیا کو میزائیل سپلائی کیے ہیں۔ لیکن مقامی میڈیا میں شائع ہونے والی کچھ رپورٹس کے مطابق سی اے جی کے بیان میں کہیں بھی ’پچاس فیصد آفسیٹ شق‘ کا جائزہ نہیں لیا گیا جو 2019 کے عام انتخابات سے پہلے انیل امبانی کی کمپنی ریلائینس ڈیفنس کے اس سودے میں شریک ہونے کی وجہ سے سیاست کا مرکز بن گئی تھی۔

بہرحال پانچ رفال طیاروں کا پہلا آرڈر 29 جولائی کو انڈیا پہنچ چکا ہے۔ یہ پانچ جہاز 36 جہازوں کی خریداری کے لیے 59,000 کروڑ روپے کے ایک بین الحکومتی دفاعی معاہدے پر دستخط ہونے کے تقریباً چار سال بعد انڈیا پہنچے تھے۔

آفسیٹ پالیسی کیا ہے؟

آفسیٹ کا مطلب ہے کہ سودے کی ایک مقررہ رقم کی ادائیگی اور اس میں کسی بھی طرح کی ایڈجسٹمنٹ انڈیا میں ہی کی جائے گی۔

اس طرح کا آفسیٹ 300 کروڑ سے زیادہ کی تمام درامدات پر لاگو ہوتا ہے۔ انڈیا کی آفسیٹ پالیسی کے تحت غیر ملکی دفاعی سامان بنانے والی کمپنیوں کو کل خرید کا کم سے کم تیس فیصد انڈیا میں خرچ کرنا ہوتا ہے۔ غیر ملکی کمپنیاں انڈیا میں پرزوں کی خریداری اور تحقیق اور ترقیاتی مراکز قائم کر کے یہ رقم خرچ کر سکتی ہیں۔

مودی

غیر ملکی کمپنی اس آفسیٹ کو براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی)، انڈین کمپنی کو مفت ٹیکنالوجی کی منتقلی کر کے یا پھر انڈیا میں بنی اشیا کو خرید کر پورا کر سکتی ہے۔

سی اے جی نے اپنے بیان میں کہا کہ حالانکہ یہ کمپنیاں اپنے آفسیٹ وعدوں کو نبھانے میں ناکام رہیں لیکن انڈین حکومت کے پاس انھیں سزا دینے کا کوئی مؤثر طریقہ نہیں۔‘

کمپنیوں کو کیسا فائدہ؟

سی اے جی نے کہا ’اگر فروخت کرنے والی کمپنی کی طرف سے آفسیٹ وعدوں کو پورا نہیں کیا گیا، خاص طور پر جب خریداری کے بنیادی کانٹریکٹ کی مدت ختم ہو جاتی ہے، تو ایسے میں اس کمپنی کو واضح فائدہ ہوتا ہے۔‘

سی اے جی نے کہا کہ آفسیٹ پالیسی سے مثبت نتائج حاصل نہیں ہو رہے ہیں اس لیے انڈین وزارت دفاع کو اس پالیسی اور اس کے نفاذ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور اس کا حل نکالنے کی ضرورت ہے۔

رفال

سی اے جی کے مطابق 2005 سے مارچ 2018 تک غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ کل 66,427 کروڑ روپے کے 48 آفسیٹ معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ ان میں سے دسمبر 2018 تک 19,223 کروڑ روپے کے آفسیٹ وعدوں کو پورا کیا جانا چاہیے تھا لیکن دراصل صرف 11,396 روپے ہی دیے گئے ہیں جو کہ مطلوبہ رقم کا صرف 59 فیصد ہے۔

انھوں نے مزید کہا ’اس کے علاوہ ان غیر ملکی کمپنیوں کی طرف سے پیش کیے گئے ان آفسیٹ دعوں میں سے صرف 48 فیصد ہی وزارت کی طرف سے قبول کیے گئے۔ باقی کو خارج کر دیا گیا کیونکہ وہ معاہدے کی شرائط اور خریداری کے طریقہ کار کے حساب سے صحیح نہیں تھے۔‘

سی اے جی نے کہا ’لگ بھگ 55,000 کروڑ روپے کی بقیہ آفسیٹ رقوم کی ادائیگی 2024 تک پوری ہونے والی ہے۔ غیر ملکی کمپنیوں نے ہر سال لگ بھگ 1,300 کروڑ روپے کے حساب سے آفسیٹ کو پورا کیا ہے۔ ایسے میں اگلے چھ سال میں 55 ہزار کروڑ کی مالیت کے آفسیٹ کو پورا کرنا واقعی ایک بڑا چیلینج ہے۔‘

رفال ڈیل پر اب تک کا تنازع

سنہ 2010 میں یو پی اے حکومت نے رفال جنگی جیٹ خریدنے کے عمل کو شروع کیا تھا۔ 2012 سے 2015 تک انڈیا اور فرانس کے درمیان بات چیت چلتی رہی۔ اسی دوران 2014 میں یو پی اے کی جگہ مودی سرکار نے اقتدار سنبھالا اور ستمبر 2016 میں رفال معاہدے پر دستخط کیے۔

رفال

36 طیارے خریدنے کی ڈیل ہوئی جس کی قیمت تقریباً 59 ہزار کروڑ روپے بتائی گئی۔

اس ڈیل پر کانگریس پارٹی نے سوال اٹھائے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ یو پی اے کی حکومت کے دوران ایک رفال جیٹ کی قیمت تقریباً 600 کروڑ روپے طے پائی تھی لیکن مودی حکومت نے اسے مہنگے دام پر خریدا ہے۔

کانگریس پارٹی نے اس بارے میں پریس کانفرنس کی اور سوال پوچھا کہ ’یو پی اے سرکار کے وقت ایک رفال کی قیمت 526 کروڑ تھی مگر مودی سرکار نے ایک رفال 1570 کروڑ میں خریدا یعنی قریب تین گنا زیادہ۔ اس نقصان کا ذمہ دار کون ہے؟‘

رفال کی خریداری میں بے ضابطگی کا الزام لگاتے ہوئے سابق وفاقی وزرا ارون شوری اور یشونت سنہا کے ساتھ ساتھ سرکردہ وکیل پرشانت بھوشن نے انڈیا کی سپریم کورٹ میں اس ڈیل کے بارے آزادانہ تفتیش سے متعلق عرضیاں دائر کیں لیکن دسمبر 2018 میں اس ڈیل سے تعلق رکھنے والی تمام پٹیشنز کو عدالت نے خارج کرتے ہوئے عدالت کی نگرانی میں تحقیقات کے مطالبے کو رد کر دیا۔

اس وقت سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے کہا تھا کہ عدالت کا یہ کام نہیں کہ وہ رفال کی طے کی گئی قیمت کا موازنہ کرے۔

’ہم نے معاملے کا جائزہ لیا، دفاعی اہلکاروں کے ساتھ بات چیت کی، ہم فیصلہ کرنے کے اس عمل سے مطمئن ہیں۔‘

رفال کی قیمت کے علاوہ اس ڈیل میں امبانی کی غیر تجربہ کار کمپنی کے شامل ہونے پر بھی بہت سوال اٹھائے گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp