نئے پاکستان کا نیا ”قبلہ و کعبہ“


آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے پارلیمانی نمائندوں کے ساتھ گلگت بلتستان کے معاملے پر ملاقات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ آئین میں ترمیم کرتے ہوئے گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی سالہا سال سے جاری تیاری اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ عمران خان حکومت کی کوشش ہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی کے الیکشن سے پہلے ہی صوبہ بنانے کی کارروائی عمل میں لائی جائے اور وزیر اعظم عمران خان گلگت بلتستان کا دورہ کرتے ہوئے وہاں اس کا رسمی اعلان کریں۔

لیکن اپوزیشن جماعتیں اس معاملے میں فوری بنیادوں پر حکومت سے تعاون پر تیار نظر نہیں آتی۔ اس سلسلے میں سپیکر قومی اسمبلی نے قومی سلامتی امور کی قائمہ کمیٹی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا جو اپوزیشن کی عدم شرکت کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا۔ اب اپوزیشن رہنما بلاول بھٹو زرداری نے بھی کہہ دیا ہے کہ گلگت بلتستان میں شفاف الیکشن سے بننے والی اسمبلی جو فیصلہ کرے گی، وہ قبول ہو گا۔ اس سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ اسی سال نومبر میں ہونے والے گلگت بلتستان کے الیکشن میں اسمبلی اور حکومت کے قیام کے بعد ہی گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

یہ بات چند سال پہلے ہی واضح ہو چکی تھی کہ پاکستان کے آئین میں مطلوبہ ترمیم کر کے گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنا دیا جائے گا تاہم ایسا کرتے ہوئے اس کے ساتھ ”عبوری“ کے لفظ کا استعمال کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی ایسی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں کہ گلگت بلتستان کے بعد آزاد کشمیر کو بھی ”عبوری طور پر“ پاکستان میں شامل کر لیا جائے گا۔ آزاد کشمیر کو بھی گلگت بلتستان کی طرح پاکستان کا آئینی حصہ بنانے کی کوشش کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ہی وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے بیان دیا تھا کہ ”انہیں کہا گیا ہے کہ وہ آزاد کشمیر کے موجودہ نظام کے تحت آخری وزیر اعظم ہوں گے“ ۔ یعنی آزاد کشمیر کی حیثیت اور حکومتی سیٹ اپ میں بڑی تبدیلیاں لانے کا منصوبہ مقتدر اداروں نے طے کر رکھا ہے جسے مناسب وقت پہ پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔

یہ بات عمومی طور پر کہی جاتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے گلگت بلتستان کے عوام کو ان کے حقوق نہیں ملے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کو اپنے مقامی حقوق نہ ملنے کی وجہ مسئلہ کشمیر نہیں بلکہ اسلام آباد کا وہ طرز برتاؤ ہے جس کا سامنا گلگت بلتستان کے عوام کو شروع سے ہی کرنا پڑ رہا ہے اور آزاد کشمیر کے آئین کی تیرہویں ترمیم سے پہلے تک آزاد کشمیر کو بھی اسی طرح کی صورتحال کا سامنا تھا۔ اس حوالے سے بلوچستان کی مثال دی جاتی ہے کہ جہاں کے عوام صوبہ ہونے کے باوجود اپنے حقوق کے حوالے سے با اختیار ہونے سے متعلق مضبوط مطالبات، شکایات رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان اور آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر اسلام آباد کو یہ تجویز کیا تھا کہ گلگت بلتستان حکومت کو بھی آزاد کشمیر کی طرز پر ’سیٹ اپ‘ دیا جائے جس میں دفاع، خارجہ امور، کرنسی، مواصلات وغیرہ کے علاوہ باقی تمام امور گلگت بلتستان حکومت کے سپرد ہوں۔

بادی النظر میں گلگت بلتستان کو پاکستان کا عبوری صوبہ بنانے کی جو وجوہات ظاہر کی جا رہی ہیں، ان میں ’سی پیک‘ منصوبہ اورانڈیا کی طرف سے علاقے پر جارحیت کے خطرات شامل ہیں۔ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو گلگت بلتستان کا خطہ برطانوی حکومت کی خصوصی دلچسپی اور توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ روس کے اس تمام خطے میں رسائی کو روکنا اور خطے میں برطانوی مفادات کا تحفظ تھا۔ تاہم اس بات کے قومی امکانات اور اشارے ہیں کہ تقسیم برصغیر کے بعد بھی گلگت بلتستان میں دنیا کی بڑی طاقتوں کی دلچسپی ختم نہیں ہو سکتی۔

گلگت بلتستان کو پاکستان کا عبوری صوبہ بنانے کے اقدام کا اگر کشمیریوں کی طویل آزاد ی کی مزاحمتی تحریک اور مسئلہ کشمیر کے تناظر میں جائزہ لیں تو پاکستان انتظامیہ کے اس اقدام سے، کشمیر کے حوالے سے کمزور ی کا اظہار نظر آتا ہے۔ انڈیا کی دس لاکھ فوج اور انڈیا کے بھرپور ریاستی مظالم کے باوجود کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک جاری ہے۔ لیکن پاکستان سابق مشرف دور سے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت کی ”اخلاقی مدد“ سے پیچھے ہٹتا آیا ہے اور انڈیا کو اپنے اس منصوبے میں کامیابی ملی ہے کہ پاکستان کو کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک میں محدود سے محدود تر کر دیا جائے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بناتے ہوئے پاکستان اور بھارت کنٹرول لائن کی حد پر قائم غیر فطری اور غیر انسانی تقسیم کی بنیاد پر ”تقسیم کشمیر“ کو حتمی شکل دینے کے اقدامات کر رہے ہیں۔ پاکستان کے سرکاری حلقوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ عبوری صوبہ بنانے سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا موقف تبدیل نہیں ہو گا اور نہ ہی اس موقف کو نقصان پہنچے گا۔ اس وقت تک پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مسئلہ کشمیر سے متعلق قرار دادوں کی پاسداری کرتا ہے۔ سلامتی کونسل کے قائم کردہ ”یواین کمیشن انڈیا پاکستان“ (UNCIP) کی قرار دادوں کے مطابق پاکستان آزاد کشمیر بشمول گلگت بلتستان میں اچھا عوامی نظم و نسق قائم کرنے کا بھی ذمہ دار ہے۔

یہ دلچسپ امر ہے کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 257 میں لکھا ہے کہ ”جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں تو پاکستان اور مذکورہ ریاست کے درمیان تعلقات مذکورہ ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق متعین ہوں گے“ ۔ لیکن یہاں یہ روایت موجود ہے کہ اسلام آباد آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لئے آئین بنا تا ہے، جسے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی اسمبلیوں کو چار و ناچار منظور کرنا پڑتا ہے۔ کیا یہی عوامی رائے کے احترام کا طریقہ اور راستہ ہوتاہے؟

نئی تبدیلیوں سے ایک صورتحال یہ بھی سامنے آ رہی ہے کہ سلامتی کونسل کی طرف سے رائے شماری کے لئے متنازعہ قرار دی گئی ریاست جموں و کشمیر اس وقت پانچ جغرافیائی خطوں میں تقسیم ہے، لداخ، وادی کشمیر، جموں، یہ تینوں انڈیا کے قبضے میں ہیں اور عالمی اصطلاح میں ان خطوں کو انڈیا کے زیر انتظام کہا جاتا ہے جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کے موقف کے مطابق بھی پاکستان کے زیر انتظام علاقے ہیں۔ پاکستان اگر گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پر انڈیا کی جارحیت کی فوجی پیش قدمی کا خطرہ محسوس کرتا ہے تو دانائی کے استعمال سے، ان دونوں خطوں کی حیثیت بحال اور مضبوط کرتے ہوئے ان خطوں پر پاکستان کے دفاعی، خارجہ، کرنسی، مواصلات کے امور کے حوالے سے اپنے کردار کو مزید مضبوط بھی بنا یاسکتا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ پاکستان انتظامیہ کے فیصلے ملک و عوام کے وسیع تر مفاد کے بجائے وقتی ضرورت کے تحت نظرئیہ ضرورت کی روشنی میں کیے جاتے ہیں۔

اس تمام صورتحال سے جو منظر نامہ سامنے آتا ہے، اس سے پاکستان کے لئے نئے خطرات بھی سامنے آنے کے امکانات ظاہر ہوتے ہیں۔ جس طرح پاکستان نے بغیر اعلان کیے اور اپنا روایتی موقف تبدیل کیے بغیر مسئلہ کشمیر پر کمزوری کا کھلا اظہار کیا ہے، اس کے تناظر میں گلگت بلتستان کو عبوری

صوبہ بنانے کا اقدام ایسے نئے مسائل اور مشکلات کی راہ ہموار کر سکتا ہے جس سے نبر آزما ہونے کے لئے پاکستان کو اپنا نیا ”قبل و کعبہ“ ، نئے ’مقاصد پاکستان‘ مرتب کرنا ہوں گے جو اب تک کے پاکستان کے مقاصد ( چاہے فکری ہی سہی) کے قطعی برعکس ہوں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں آئین اور عوامی پارلیمنٹ کی حقیقی بالادستی قائم کرنے کے لئے مزاحمتی سیاست سول سوسائٹی کی مضبوط حمایت کے ساتھ سرگرم ہے۔ اگر ملک میں نادیدہ قوتوں کی حاکمیت ختم ہوتی ہے، اختیارات حقیقی طور پر عوامی نمائندوں کی پارلیمنٹ کے ذریعے استعمال ہونا شروع ہوں، تو تب ہی پاکستان کی ایسی دفاعی، خارجہ اور اقتصادی پالیسیاں سامنے آ سکتی ہیں جنہیں عوام کی مضبوط حمایت حاصل ہو۔ اب تک اکثر پالیسیاں ملکی مفاد کے نام پر عوام سے پوشیدہ رکھے جانے کا چلن ہے کیونکہ ان پالیسیوں کا اصولی، اخلاقی اور قانونی طور پر دفاع کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے کیونکہ یہ پالیسیاں نہ تو عوام کے مفاد میں ہوتی ہیں اور نہ ہی ملک کے حق میں بہتر ثابت ہوتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).