جھوٹ پہ جھوٹ


پاکستان میں آل پارٹیز کانفرنس اور پریس کانفرنس کسی بھی وقت ہو سکتی ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ دونوں میں سچ خال خال ہی ہوتا ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں ہر پارٹی کا ایجنڈا اپنا اپنا ہوتا ہے اور پریس کانفرنس میں موقف اپنا اپنا ہوتا ہے۔ حال ہی میں ہونیوالی آل پارٹیز کانفرنس میں سب نے اپنے اپنے ایجنڈے کے تحت کام کیا اور سب ایک دوسرے کو استعمال کرتے ہوئے نظر آئے۔

اصولی طور پر یہ ادھوری آل پارٹیز کانفرنس تھی کیونکہ اب تک جب بھی آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہوا اس میں وہ پارٹی یا پارٹیاں شریک نہیں ہوئیں جو اقتدار کی بھینس کے دوردھ کا مزہ لے رہی تھیں اور جنہیں یہ دودھ نصیب نہیں ہوپاتا وہ آل پارٹیز کانفرنس بلا لیتے ہیں۔

ملک اور قوم کے لئے ایک مکمل آل پارٹیز کانفرنس بلانا بہت ضروری ہے اس میں تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ تمام فریقین کی شمولیت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے جو آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے اس میں عسکری قیادت، عدلیہ اور اقتدار میں موجود پارٹی بھی شریک ہو اور میڈیا کو بھی اس میں لازمی طور پر شامل کیا جائے۔

یہ کانفرنس بے شک ایک سال چلے لیکن ہمیشہ کے لئے یہ طے کر دیا جائے کہ سیاسی جماعتوں کی ریڈ لائن کیا ہو گی، میڈیا کس حد تک جاسکے گا، عدلیہ اور عسکری قیادت اپنے اختیارات کو کہاں تک استعمال کرسکیں گی اور طے کر دیا جائے کہ جو بھی ریڈ لائن کراس کرے گا اسے کون اور کس طرح روکے گا؟

اگر یہ طے نہ کیا جاسکا تو پھر بے مقصد آل پارٹیز کانفرنس ہوتی رہیں گی اور دفاعی اداروں کو اقتدار کی سیڑھی کے طور پر استعمال کیا جاتا رہے گا اور انہیں بیچ چوراہے گالی بھی دی جائے گی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ گزشتہ روز ہونیوالی آل پارٹیز کانفرنس میں وہ تمام پارٹیاں شریک تھیں جنہوں نے ہر دور میں عسکری اداروں کاسہارالیا اور طاقت کے مرکز پر قبضہ جمایا لیکن اس آل پارٹیز کانفرنس میں سب نے مل کر انہی عسکری اداروں کو ہدف تنقید بنایا اور سیاست میں ملوث ہونے کا تصدیق شدہ الزام لگایا۔

افسوس اس بات کا ہے کہ عسکری قیادت کی طرف سے مسلسل دو دن اس کی تردید ٹی وی پر دکھائی گئی کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عسکری ترجمان کو یہ جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی کیونکہ اب تو پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ہمارے دفاعی ادارے ہردور میں کسی نہ کسی طرح سیاسی کردار کے حامل رہے ہیں۔

ذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف جو نوستارے بنائے گئے تھے وہ قطعی طور پر بھٹو کے وہ ستارے نہیں تھے جو ان دنوں گردش میں تھے۔ اس کے بعد آئی جے آئی کی تشکیل اور 1993 ء میں میاں نواز شریف کا استعفیٰ جنرل کا کڑ فارمولہ کے تحت ہوا۔ 1997 ء میں جب میاں نواز شریف کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے الزام لگایا کہ یہ جعلی مینڈیٹ ہے۔

بعد ازاں یہ مینیڈیٹ جنرل پرویز مشرف کی طاقت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبورہو گیا۔ اگر عسکری ترجمان کی تردید کو درست مان لیا جائے تو پھر چوہدری پرویز الٰہی کے اس انٹرویو کا کیا ہوگا جس میں انہوں نے کہا کہ جنرل شجاع پاشا نے مسلم لیگ (ق) کے اراکین توڑ کر تحریک انصاف میں شامل کیے۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ کی راہداریوں میں ابھی تک اصغر خان کیس انصاف کا طلب گار ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے ٹھیلے والے سے لے کر اہم ترین سرکاری عہدیداروں تک سب سیاست میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس لئے آل پارٹیز کانفرنس بلا کر ملک و قوم کا بھی فائدہ کیا جائے اور تمام اداروں کے سربراہان کو جھوٹ کے مرض سے بھی بچایا جائے۔ عسکری ترجمان کی طرف سے کی گئی تریدیں اس حد تک ہی حقیقت ہیں جتنا کہ سیاسی جماعتوں کے اس نعرے میں ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ اس لئے تردید کو چھوڑ کر مرض کا علاج تلاش کیا جائے وگرنہ سب کو جھوٹ بولنا پڑیں گے اوراندھیری رات میں عسکری قیادت سے ملاقاتیں کرنیوالے تپتے سورج کی موجودگی میں عسکری قیادت کو برا بھلا کہتے رہیں گے۔ اس وقت ملک میں کرونا سے زیادہ جھوٹ پھیلا ہوا ہے۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat