کہانی گل پری کی۔۔۔ زہرہ نگاہ کی زبانی


سننے میں یہ نام آپ کو بہت اچھا لگے گا۔ پریوں کی کہانیاں تو بچپن سے ہمارے حافظے کا حصہ ہیں۔ کہانیاں انسانی تہذیب کے تانے بانے میں ایسی پروئی ہوئی ہیں کہ ہم انہیں الگ کر ہی نہیں سکتے۔ آج ہم اپنے عہد کی اہم ترین شاعرہ زہرہ نگاہ (زہرہ آپا) کی چوپال میں چلتے ہیں اور ان سے سنتے ہیں ”کہانی گل پری کی“ ۔ زہرہ آپا کے پاس بہت سی کہانیاں ہیں۔ میٹھے لہجے میں دھیمے دھیمے بڑی سے بڑی بات وہ یوں آسانی سے اپنی کہانیوں میں پرو دیتی ہیں کہ سننے والا حق دق رہ جائے۔

”کہانی گل پری کی“
گل پری کو اماں باوا لائے تھے لاہور میں
بادشاہی مسجد اور قلعہ دکھانے کے لئے
گل پری کے جسم کے ننھے سے خم پر چھوٹا بھائی بھی ٹکا تھا
شہر دیکھا، چھولے کھائے، ٹھنڈی بوتل بھی اڑائی
اور جاتے وقت پھر ماں باپ اس کو چھوڑ آئے
چودھری صاحب کے گھر
گل پری رونے لگی
”بے بے مجھ کو ساتھ لے چل
مجھ کو نکا اور گھر دونوں بہت یاد آئیں گے ”
ماں نے سمجھایا کہ گلو
چودھری صاحب بہت دھنوان ہیں
ان کی بیگم کے بہت احسان ہیں
گاؤں کی آدھی زمینیں چودھری صاحب کی ہیں
ان کی خدمت تو کرے گی
فائدہ ہم سب کو ہوگا
چھ مہینے بعد ملنے آئیں گے
اور تری تنخواہ لے کر جائیں گے
سرخ پھولوں والی چادر کا تجھے ارمان ہے
تیرے پیسوں سے تجھے دلوائیں گے
گل پری پھر خدمتوں میں لگ گئی
کپڑے دھونا، برتنوں کو صاف کرنا
جھاڑو دینا اور پھر پونچھا لگانا
تیسری منزل پہ چائے لے کے جانا
اور جب بیگم نہ ہوں تو
چودھری صاحب کے کندھوں اور پیروں کو دبانا
رات کو جب سونے جاتی
تھک کے بالکل ٹوٹ جاتی
آیۃ الکرسی کا پھر کرتی حصار
نیند کے اندھے کنویں میں ڈوب جاتی
گل پری کا ایک ہی ارمان تھا
دیر تک سوتی رہے
سرخ پھولوں والی چادر اوڑھ کر
دن چڑھے تک دیر تک سوتی رہے
چھ مہینے بعد اس کا باپ آیا
نوکروں نے اس کو بتلایا
”چودھری صاحب تو پرسوں ملک سے باہر گئے
اور رہیں بیگم تو وہ پہلے سے امریکہ میں ہیں
گل پری گھر پر نہیں ہے وہ دوا خانے میں ہے
یہ رہی چھ ماہ کی تنخواہ
گن لو ٹھیک سے
پھر کہو گے ہم نے پیسے کم دیے ”
باپ کچھ گھبرا گیا
”گل پری کو کیا ہواوہ کیوں دوا خانے میں ہے“
”تیسری منزل سے نیچے گرپڑی تھی
جاؤ اس کو دیکھ آؤ ”
وہ دوا خانے گیا
توڈاکٹر نے ایک کاغذ ہاتھ میں پکڑادیا
اور انگوٹھے کا نشاں بھی لے لیا
پھر کہا، بابا ہمیں افسوس ہے
گل پری تو مرگئی
جسم کی ایک ایک ہڈی ٹکڑے ٹکڑے ہوچکی تھی
کل مری ہے خون اب تک بہہ رہا ہے
باپ جب اندر گیا تو اس نے دیکھا
اس کی بیٹی سو رہی تھی
سرخ پھولوں والی چادر اوڑھ کر
نیند اس کی سب سے پہلی آرزو تھی
سرخ پھولوں والی چادر
سب سے پہلا خواب تھا
دونوں پورے ہوچکے تھے
دن کبھی کا چڑھ چکاتھا

ویسے تو دن چڑھنے کے ساتھ ہی کہانی ختم ہوگئی۔ لیکن ہم نے سن رکھا تھا کہ دن کے اجالے میں پریاں روپوش ہوجاتی ہیں۔ اسی لئے رات آتے ہی ایک نئی کہانی جنم لے لیتی ہے۔ ایک نئی گل پری سرخ پھولوں کی چادر اوڑھ کر ہمیشہ کے لئے سوجاتی ہے۔ کبھی کسی کچرے کے ڈھیر پر تو کبھی کسی بوری میں سوختہ تن گل پری ہم سے احتجاج کرتی ہے اور ہم نظر یں چرا کر گزر جاتے ہیں۔ لیکن یہ ایک حساس شاعرہ کا قلم ہے جو ہمیں گل پری کے زخم بار بار دکھاتا ہے اور ہماری توجہ اس بربریت کی طرف دلاتا ہے جس پر سوچنے کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔

اپنی اس نظم میں زہرہ نگاہ نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کہا ہے۔ آپ نظم پڑھتے جائیے یا با الفاظ دیگر کہانی سنتے جائیے۔ آپ کو مختصر مختصر، گل پری کا سراپا، گل پری کی عمر، اس کی آرزوئیں، اس کی حسرتیں، اس کا گرد و پیش اور آخر کار گل پری کا انجام نظر آتا جائے گا۔ کہانی میں دو طرح کے کردار ہیں۔ ایک طرف وہ کردارجن کا کوئی نام ہے اور ایک وہ جو بے نام کردار ہیں۔ یہ بے نام یا بے چہرہ کردار جو گل پری کے باپ کی ہتھیلی پرمعاوضہ رکھتے ہیں، اسے بڑے اطمینان سے حادثے کی اطلاع دیتے ہیں یا وہ جو اس کے باپ سے اس کے انگوٹھے کا نشان لیتے ہیں۔ یہی وہ سہولت کار ہیں جن کے بغیر کوئی واردات پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتی۔ بد قسمتی سے یہ بے نام کردار خود گل پری کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ چوہدری کی غیر ملک روانگی بھی کہانی کو ایک موڑ دیتی ہے۔ اور ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ دوہری شہریت کا قانون مراعات یافتہ طبقے کے لئے کیامعنی رکھتا ہے۔

اس تحریر کا کمال یہ ہے کہ اتنے نازک موضوع پر جو کہ بظاہر ایک اخبار کی خبر تک محدود تھا۔ زہرہ نگاہ کے قلم نے شا عری کا جامہ پہناتے ہوئے کہیں شعریت کو مجروح نہیں ہونے دیا ہے۔ بڑے تخلیق کارکا کمال یہی ہوتا ہے کہ وہ کسی المیے کو بیان کرتے ہوئے اس کی روح میں اتر کر اس کے حزن کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔ اور پھر وہ اسے ایک فن پارے کی صورت میں ہمارے سامنے رکھتا ہے۔ کسی المیے کو آرٹ بنانا ایک غیر معمولی کام ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک غیر معمولی نظم ہے۔ آپ اس نظم کو جتنی بار پڑھیں گے آپ کی نگاہوں سے ایک اور پردہ اٹھے گا۔ ہر بار ایک گل پری زندہ ہوگی اور ہم سے ایک سوال کرے گی۔

نوٹ: نظم ”کہانی گل پری کی“ معروف شاعرہ زہرا نگاہؔ کے تازہ شعری مجموعے ”گل چاندنی“ سے لی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).