سائنس کی دنیا سے: 7 تا 13 ستمبر 2020


1۔ آکسفورڈ یونیورسٹی اور ایسٹرا زنیکا کی تیار کردہ کووڈ نائنٹین ویکسین کا کلینیکل ٹرائل جو ایک مریض میں مضر اثرات سامنے آنے کی وجہ سے معطل ہوگیا تھا دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔ یونیورسٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس طرح کے بڑے جائزوں میں کچھ مریضوں میں ایسے مضر اثرات ممکن ہو سکتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ ٹیسٹ کے مراحل میں تقریباً 180 امیدوار ویکسینوں میں سے ابھی تک کسی کے کلینکل ٹرائل مکمل نہیں ہوئے۔ تاہم آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسین جو اس وقت تیسرے مرحلے میں تیس ہزار مریضوں کے اوپر ٹیسٹ کی جارہی ہے، کورونا وائرس کے خلاف پہلی موثر ویکسینوں میں شامل ہو سکتی ہے۔

2۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے مطابق انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پچھلے پچاس سالوں میں جنگلی حیات کا دو تہائی حصہ زمین سے ناپید ہو گیا۔ 2020 کی لونگ پلانٹ رپورٹ کے مطابق مختلف انواع مثلاً مچھلیاں، ممالیہ اور پرندوں کا تقریباً 68 فیصد 1970 سے 2016 کے عرصے میں ختم ہوگیا۔ امریکہ اور لاطینی امریکہ کے ملکوں کے لئے یہ اندازہ چورانوے فیصد ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ جنگلات کا زمین حاصل کرنے کے لئے صفایا اور ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔ اس سے پہلے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں یہ خدشہ ظاہر کیا جا چکا ہے کہ تقریباً آٹھ ملین میں سے ایک ملین نباتاتی اور حیاتیاتی انواع دنیا سے معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔

3۔ مدہوشی کی حد تک شراب پینے سے دماغی امراض کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ نئی تحقیق نے یہ واضح کیا ہے کے درمیانے درجے کے شرابیوں میں ڈمنشیا کا خطرہ دوگنا جبکہ مدہوشوں میں مستقل دماغی معذوری کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ واضح رہے کہ مدہوشی کی حد عورتوں کے لیے ہفتے میں 8 گلاس جب کہ مردوں کے لیے 14 گلاس ہے۔ یہ تحقیق ایک لاکھ تیس ہزار یورپی لوگوں جنہوں نے اپنی شراب پینے کی عادات 14 سال پہلے رپورٹ کی تھی، میں کی گئی ہے۔ فالو اپ جائزے میں دیکھا گیا کہ تقریباً دس ہزار مدہوش ہو جانے والے شرابیوں میں دماغی کمزوری کا خطرہ کئی گنا زیادہ ہوگیا۔

4۔ بڑوں کے برعکس بچے زبان سمجھنے کے لیے اپنے دماغ کے دونوں حصوں کا استعمال کرتے ہیں۔ جارج ٹاؤن میڈیکل یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے مطابق بچے غیر معمولی دماغی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔

پی این اے ایس نامی جریدے میں شائع شدہ تحقیق میں بچوں کے زبان سیکھنے کی صلاحیت کے دوران دماغ کے استعمال کا مطالعہ کیا گیا۔ دماغ کے دونوں حصوں کا استعمال بچوں میں کسی دماغی حادثے یا بیماری سے جلد صحت یاب ہونے کا باعث ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ تقریباً تمام بالغوں میں نطق کی صلاحیت دماغ کے بائیں حصے کی مرہون منت ہوتی ہے کیونکہ دماغ کے بائیں حصے پر فالج کی صورت میں یہ صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔

5۔ ایمیٹروفک لیٹرل سکلیروسیس (ALS) جیسی مہلک دماغی بیماری کو آہستہ کرنے کے لیے ایک نیا تجرباتی علاج مفید ثابت ہوا۔ اس انتہائی خطرناک بیماری میں دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں موجود رضاکارانہ حرکت کو کنٹرول کرنے والے اعصابی خلیے آہستہ آہستہ ختم ہو جاتے ہیں جس سے انسان حرکت کرنے، سانس لینے، بولنے، حتی کہ سانس لینے سے بھی معذور ہو جاتا ہے۔ ALS کے مریض بیماری کی پہلی علامت کے پانچ سال کے اندر سانس کے مسائل کی وجہ سے فوت ہو جاتے ہیں۔ نئے تجرباتی علاج میں ALS کے لیے پہلے سے منظور شدہ دوائیوں کو ملا کر دینے سے مفید نتائج حاصل ہوئے۔

6۔ مصر میں سقارہ کے مقبروں سے ڈھائی ہزار سال پرانے 13 تابوت برآمد ہوئے۔ ان تابوتوں کی خاص بات یہ ہے کہ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود یہ ابھی تک مکمل طور پر مہر بند ہیں۔ سقارہ تین ہزار سال پہلے ممفس کی اشرافیہ کے قبرستان کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ تاہم تازہ کھدائی میں برآمد ہونے والے تابوت زیادہ تر متوسط اور نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ماہرین اس طرح محفوظ مزید تابوتوں کی دریافت کی توقع کر رہے ہیں۔

7۔ سین ڈیاگو زو گلوبل نے معدومی کے خطرے سے دوچار تاخی نامی ایک نایاب نسل کے جنگلی گھوڑے کا پہلا کامیاب کلون بنا لیا ہے۔ تاخی یا زوالسکی نامی یہ گھوڑے اپنی مخصوص چھوٹی جسامت، سرخی مائل چمڑے اور زرد رو پیٹ کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ مغربی منگولیا اور شمالی چین کے علاقوں میں رہنے والے یہ گھوڑے 1960 سے معدومی کے خطرے سے دوچار تھے۔ 2013 سے مصنوعی بارآوری کے طریقے سے ان کی نسل بڑھانے کی کوشش کی جا رہی تھی جو کہ سات سال کی کوششوں کے بعد کامیاب ہوئی جب ایک زوالسکی گھوڑی اینی نے ایک بچھیری کو جنم دیا۔ 40 سال پہلے چڑیا گھر کی انتظامیہ نے ایک نر گھوڑے کے جینیاتی مادے کو محفوظ کر لیا تھا۔

8۔ سائنسدانوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ زمین پر زندگی کا آغاز شہابی گڑھوں میں ہوا ہوگا۔ شہابیوں نے جہاں زمین پر تباہی پھیلائی وہیں پانی، حرارت، معدنیات اور مختلف کیمیائی عوامل کی موجودگی میں خرد حیاتیاتی زندگی کے آغاز کے لیے مناسب ترین حالات بھی مہیا کیے ہوں گے۔

9۔ تاریک مادہ ایک نظر نہ آنے والی سریش کی طرح ستاروں، گرد اور گیس کو کہکشاں میں باہم جوڑے رکھتا ہے۔ یہ پراسرار مادہ کہکشاں کا زیادہ تر حصہ بناتا اور کائنات کی موجودہ بنت کا ذمہ دار ہے۔ یہ تاریک مادہ روشنی کو جذب، خارج اور منعکس نہیں کر سکتا اس لیے اس کی موجودگی کا اندازہ خلا میں بکھرے اجسام کے اوپر اس کی ثقلی کشش سے لگایا جاتا ہے۔ سائنسدانوں نے ہبل دوربین اور کمپیوٹر سمولیشن سے حاصل ہونے والے تاریک مادے کی کمیت کے بارے میں ڈیٹا میں تضاد کی وجہ سے خیال ظاہر کیا ہے کہ ہمارا علم اس مادے کے ضمن میں ابھی بھی بہت کم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).